بلاول بھٹو، اینگری ینگ مین کیوں؟
مَیں کئی بار انہی کالموں میں کہہ چکا ہوں، بلاول بھٹو زرداری کو نہ بگاڑو وہ پاکستانی سیاست کا مستقبل بن سکتا ہے، مگر لگتا ہے پیپلزپارٹی کے اندر کوئی ایسا نہیں جو بلاول کی تربیت کر سکے۔وہ اپنی لہر میں دوڑے جا رہے ہیں اور انہیں خود بھی اندازہ نہیں کہ اس سر پٹ دوڑنے میں خود اُن کا امیج کتنا خراب ہو رہا ہے۔سیاست میں برد باری اور دلیل سے کی گئی بات بڑی اہمیت رکھتی ہے،نا کہ جوش میں ہوش نہ رہنے کی کیفیت کے عالم میں کہے گئے الفاظ۔سب حیران ہیں کہ مریم نواز کی گرفتاری کے فوراً بعد بلاول بھٹو زرداری ذہنی طور پر ایسی فضا میں کیوں چلے گئے،جو شائستگی اور مروت سے متصادم ہو تی ہے۔اس خبر پر انہوں نے قومی سمبلی کے ہال میں کھڑے ہو کر جو غصہ دکھایا، جو لب و لہجہ اپنایا اور جس طرح وزیراعظم کو یاد کیا، وہ کسی بھی طرح اُن کے منصب سے لگا نہیں کھاتا۔ جو باتیں وہ کہنا چاہتے تھے، وہ صبرو تحمل کے ساتھ بھی کہی جا سکتی تھیں، مگر انہوں نے بڑھک بازی کا ناپسندیدہ سٹائل اختیار کیا اور جوش جذبات میں وہ کچھ بھی کہہ گئے،جس نے خود اُن کی شخصیت کو بہت نقصان پہنچایا۔
سب حیران ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد آصف علی زرداری اور پھوپھی فریال تالپور کی گرفتاری پر تو ایسے جذباتی ردعمل کا اظہار نہیں کیا،پھر وہ مریم نواز کی گرفتاری پر صبر کا دامن کیوں ہاتھ سے چھوڑ گئے؟کیا اتنے بڑے منصب اور اتنے بڑے فورم پر وہ کچھ زیب دیتا ہے جو بلاول بھٹو زرداری سے سرزد ہوا۔حالت تو یہ بھی ہے کہ خود اُن کی پارٹی کے رہنما اُن کے اس رویے کا دفاع نہیں کر سکے۔ قمر زماں کائرہ نے اُن کا دفاع کرنے کے لئے یہ کمزور دلیل استعمال کی کہ آج کل کے سیاسی حالات کی وجہ سے وہ دباؤ میں آ کر یہ کہہ گئے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ شہباز شریف نے مریم نواز کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے بڑے محتاط لفظ استعمال کئے۔البتہ اس گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے عمران خان کی بدترین انتقامی کارروائی قرار دیا۔وہ نہ تو طیش میں آئے اور نہ ایسے لفظوں کا استعمال کیا جو قابل ِ اعتراض قرار پاتے ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے بلاول بھٹو زرداری ایک ایسے نوجوان کا روپ دھار چکے ہیں،جو خود اپنی جماعت کے سینئر رہنماؤں سے مشورہ بھی نہیں کرتے،دوسری طرف سینئر رہنما بھی غالباً اُن سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں کوئی بات مزاج نازک پر گراں ہی نہ گزر جائے۔سو میری رائے میں یہ بگاڑ کی طرف سفر کا انتہائی سازگار راستہ ہے۔آصف علی زرداری نیب کی حراست میں ہیں۔ خود اُن کی فکری کیفیت بھی مستحکم نظر نہیں آ رہی۔وہ اسمبلی کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سنتے ہوئے بے بسی کی تصویر بنے ہوتے ہیں،سو اس نوجوان کو روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔میرا نہیں خیال کہ بلاول بھٹو زرداری نے مریم نواز کی گرفتاری کے بعد جذبات میں بہہ کر جو اشتعال انگیز تقریر کی اُس پر کسی پارٹی رہنما نے انہیں اُس کے منفی نتائج سے آگاہ کیا ہو گا،بلکہ اس کے برعکس انہیں شاباش دینے اور تالیاں بجانے والے زیادہ ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا جواب مراد سعید نے دیا۔یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ یہ نہلے پہ دہلا تھا، یعنی بلاول بھٹو زرداری نے اگر ایک بار قابل ِ اعتراض لفظ استعمال کیا تو مراد سعید نے پوری سیریز چلا دی۔
مَیں سوچ رہا تھا کہ مراد سعید کا تو کچھ نہیں گیا۔ وہ کون سے کسی جماعت کے سربراہ ہیں، یا اُن کے پاس کون سی سیاسی وراثت ہے۔ نقصان تو بلاول بھٹو زرداری کا ہوا ہے کہ وہ مراد سعید کے مقابل آ گئے ہیں،انہیں اِن باتوں سے ماوراہونا چاہئے۔ قومی سیاسی جماعت کی سربراہی کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔مَیں نے ایک کالم میں بلاول بھٹو زرداری کے لئے یہ بھی کہا تھا کہ وہ شیخ رشید احمد کے مقابل نہ آئیں۔شیخ رشید کا کچھ نہیں بگڑے گا، البتہ بلاول بھٹو زرداری کی شہرت کو نقصان ضرور پہنچے گا۔
اب عرصہ ہوا، بلاول بھٹو زرداری نے شیخ رشید احمد کا نام بھی نہیں لیا۔ اب شیخ صاحب ہی یکطرفہ طور پر اُن کا نام لیتے ہیں، مگر بلاول بھٹو زرداری کا ردعمل نہ آنے کی وجہ سے اُن کی بات بے وقعت ہو جاتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں پر خاندانی وراثت کا راج ہے۔کل کے بلاول بھٹو زرداری کو آج پارٹی میں موجود 60،70 برس کے رہنماؤں پر فوقیت حاصل ہو چکی ہے۔چلیں یہ بھی نظریہئ ضرورت کے تحت قابل ِ قبول صورت ہے، مگر اصل نقصان یہ ہے کہ یہی سینئر سیاسی رہنما بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی تربیت کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔وہ مشورہ تک دینے کی پوزیشن میں نہیں۔یہ غیر علانیہ سیاسی آمریت سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ہے، جو اتنا موقع بھی نہیں دیتی کہ پارٹی قائد کو یہ باور کرا سکے کیا نقصان دہ ہے اور کس سے فائدہ ہو سکتا ہے؟
کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی ہے کہ پاکستانی سیاست کا ماضی گدلے کیچڑ سے اٹا ہوا ہے۔ آپ ایک پتھر ماریں گے تو چھینٹے خود آپ کا دامن داغدار کر دیں گے۔ پھر زمانہ کون سا چل رہا ہے۔ہر شخص کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا ہتھیار ہے، جس پر کوئی قدغن بھی نہیں۔اب یکطرفہ طور پر کچھ کہہ کر بند گلی سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔مجھے بہت افسوس ہوا اور بُرا لگا جب سوشل میڈیا پر شہید بے نظیر بھٹو کے بارے میں چھپے ہوئے وہ اشتہار اور تصویریں بلاول بھٹو زرداری کے جواب میں تحریک انصاف کے میڈیا سیل نے پوسٹ کیں،جو محترمہ کی سیاسی کردار کشی کے لئے اُس دور کی مسلم لیگی حکومت نے جہازوں سے پھنکوائی تھیں۔اب یہ گھٹیا سیاست نہیں تو کیا ہے،کہ جس میں دُنیا سے چلے جانے والوں کو بھی نہیں بخشا جاتا، مگر جو زندہ ہیں انہیں بھی تو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر سنگ زنی نہ کریں۔
اندازہ کیجئے تیس سال ہو گئے ہمارے سیاسی چال چلن نہیں بدلے، پہلے اشتہار اور تصویروں کے ذریعے کردار کشی کی جاتی تھی،اب لفظی گولہ باری کے ذریعے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا جاتا ہے،افسوس ناک امر یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بھی اسی روایت میں رنگ گئے ہیں، حالانکہ اُن سے بڑی امیدیں تھیں کہ وہ سیاست میں شائستگی لائیں گے، آکسفورڈ سے پڑھا ہونے کے ناطے اُن میں روایتی سوچ پروان نہیں چڑھے گی،مگر یہاں تو وہ اس قافلے کو لیڈ کر رہے ہیں،اُن کی پوری سیاسی جماعت، حتیٰ کہ اُن کے والد آصف علی زرداری بھی ایسے لفظوں کا چناؤ نہیں کرتے،جن کی باز گشت خود اُن کا دامن داغدار کر دیتی ہے۔بلاول بھٹو زرداری تو مستقبل میں پاکستان کا وزیراعظم بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، کیا اُن کی یہ جذباتیت انہیں اس منزل تک لے جا پائے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر انہیں جلدی کیا ہے، اُن کے سامنے تو ابھی ایک طویل سیاسی کیریر پڑا ہے، بلکہ ایک وقت تو ایسا آئے گا جب اُن کا کوئی ہم عصر نہیں ہو گا۔ایک اینگری ینگ مین امیج بنانے کی بجائے وہ ایک باوقار، صلح جو، نرم خو اور نرم گفتار سیاست دان کے طور پر اپنی شناخت بنائیں تو ایک مدبر سیاست دان کی حیثیت سے وہ اپنا سکہ جمانے میں کامیاب رہیں گے۔