کاغذی منصوبے
پی ٹی آئی حکومت کے وفاق اور پنجاب میں دو سال اور خیبر پختونخوا میں سات سال سے جاری حکومتوں میں ایک چیز پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ یہ صرف کاغذی منصوبوں کے شیر ہیں، زمین پر ان کے منصوبوں کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا۔ کارکردگی کا یہ عالم ہے گذشتہ سال کے مالی بجٹ میں پنجاب کا 58 فیصد اور خیبر پختونخوا کا 67 فیصد بجٹ lapse ہوا۔ گویا اپنے ہی بنائے ہوئے منصوبوں پر پنجاب میں نصف سے زیادہ اور خیبر پختونخوا میں دو تہائی منصوبوں پر نہ کام ہوا اور نہ ہی متعلقہ محکمے اور حکومتیں رقم خرچ کر سکیں۔ اس قدر نالائقی اور نا اہلی کی مثال پاکستان کیا، پوری دُنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔ عمران خان صوبوں میں متبادل قیادت کے ابھرنے سے اس قدر خائف ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا، دونوں صوبوں میں انہوں نے چن کر نا اہل ترین لوگوں کو وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھا رکھا ہے تاکہ کوئی بہتر شخص ان کی لیڈر شپ کو ماند نہ کردے۔ پہلی ٹرم میں پرویز خٹک کو ان کے وسیع سیاسی تجربہ کی وجہ سے وزیراعلیٰ بنانا مجبوری تھی، کیونکہ صرف ایک ہی صوبہ میں ان کی حکومت آئی تھی اور اسے کسی بالکل نا تجربہ کار شخص کے حوالہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دوسری ٹرم میں چونکہ وفاق اور پنجاب میں بھی انہیں حکومت دے دی گئی تھی اس لئے یہ مجبوری باقی نہیں رہی اور انہوں نے محمود خان کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ پرویز خٹک کی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں عاطف خان اور شاہرام ترکئی کا امیج ایسا بنا تھا کہ وہ خیبر پختونخوا میں وزارت اعلیٰ کے بہتر امیدوار ہو سکتے تھے اِس لئے دوسری ٹرم میں انہیں وزارت سے بھی فارغ کرکے کھڈے لائن لگا دیا گیا تاکہ بانس رہے اور نہ بانسری بجے۔
اب محمود خان وزیراعلیٰ ہیں اور بنی گالہ کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ پرویز خٹک کے زمانہ میں خیبر پختونخوا میں مالم جبہ جیسا بڑا سکینڈل سامنے آیا، لیکن احتساب کا ذمہ دار ادارہ نیب تو خود عمران خان ٹیم کا وکٹ کیپر بنا ہوا ہے اس لئے اس کے ذمہ داران، اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور وزیر سیاحت محمود خان، کو اوپن کیسوں میں بھی طلب نہیں کیا جاتا اور نیب، بہت ڈھٹائی سے انہیں بچا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے اپنے صوبائی احتساب کمیشن کو تو عمران خان کئی سال پہلے ہی بند کر چکے ہیں اِس لئے احتساب کا لفظ ان کے منہہ سے نکلتا ہوا بہت عجیب سا لگتا ہے۔ پنجاب میں بھی وزارت اعلیٰ کے تین چار مضبوط امیدواروں کی بجائے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ اسی لئے بنایا گیا کہ 12 کروڑ آبادی کو لاہور کی بجائے بنی گالہ سے کنٹرول کیا جائے۔ یہ پنجاب کی تاریخ کے پہلے وزیر اعلی ہیں،جو دو سال بعد بھی اپنے آپ کو”انڈر ٹریننگ“وزیراعلیٰ کہتے ہیں،چونکہ کارکردگی دکھانے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ اختیار، اِس لئے ان کا واحد مشغلہ ہر دوسرے تیسرے ہفتے بیوروکریسی کا تبادلہ ہے۔ پنجاب میں شائد ہی کوئی ایسا محکمہ ہے، جس کے دو سال میں پانچ دس سیکرٹری نہ تبدیل ہوئے ہوں۔ پنجاب کی گورننس دیکھیں تو لگتا ہے عمران خان کی ”تبدیلی“کا مطلب ہر مہینے سیکرٹریوں اور دوسرے سرکاری اہم افسران، خاص طور پر پولیس کے ڈی پی او، آر پی او وغیرہ کی بار بار تبدیلی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
جس حکومت کی کارکردگی صفر ہو، منصوبے سرے سے ہوں ہی نہ، ترقیاتی بجٹ آدھے سے بھی کم کر دیا جائے اور محکمہ جات کے بجٹ کا دو تہائی lapse ہو جائے،ڈاکٹر، ہسپتالوں اور اساتذہ‘ سکولوں کالجوں میں فرائض کی انجام دہی کی بجائے سڑکوں پر ڈنڈے کھا رہے ہوں، کسان کے لئے کاشتکاری کرنا تقریباً نا ممکن ہو جائے اور عوام کھڈے لائن لگ جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ عمران خان کی تقریروں، افتتاحی تقریبات، بڑے بڑے دعوؤں، سوشل میڈیا اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں کاغذی منصوبوں کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ اسی طرح جاری ہے، جس پارٹی اور وزیراعظم کو ایسے اندھا دھند یقین رکھنے والے سپورٹرز اور کمر پر تھپکی دیتے رہنے والے ادارے میسر ہوں، وہ عملی کاموں، کارکردگی اور ڈلیوری کی بجائے اسی طرح زبانی جمع خرچ سے ہی اپنا کام چلاتے رہیں گے، جس حکومت نے دو سالوں میں ایک بھی نئی سڑک نہ بنائی ہو (موٹر ویز، گوادر، سی پیک وغیرہ کے منصوبے پچھلی حکومتوں کے ہیں)، ایک بھی نیا ہسپتال سکول یا کالج بنانے کا سوچا بھی نہ ہو اور ایک بھی گھر نہ بنایا ہو، اب ایک اور کاغذی منصوبہ لے آئی ہے، جس کے تحت لاہور کے مضافات میں ایک پورا نیا شہر بسانے کا نہ صرف اعلان،بلکہ بدست مبارک وزیراعظم افتتاح بھی کر دیا گیا ہے، جس طرح پچاس لاکھ گھر سوشل میڈیا پر بن رہے ہیں اسی طرح ”نیا لاہور“ بھی فیس بک اور ٹویٹر پر بنتا رہے گا۔ آخر 350 ڈیم اور ایک ارب درخت (اب دس ارب) بھی تو صرف سوشل میڈیا پر ہی ہیں تو ایسے درجنوں نئے فرضی منصوبے بھی بن سکتے ہیں۔
اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نئے شہر کو بسانے کے لئے درکار رقم پانچ کھرب ہے پچاس کھرب۔ہاں البتہ، اس کے لئے افتتاحی تقریبات کے فیتے کاٹنا، سوشل میڈیا بریگیڈ (جنہیں تمام قواعد بالائے طاق رکھ کر‘ اب وفاقی وزارت اطلاعات میں 21 اور 20 گریڈ کی سرکاری نوکریاں بھی مل گئی ہیں) اور انٹرنیٹ پر دس بیس جی بی جگہ ضرور درکار ہوگی اور فیس بک پر یہ شہر بنتا رہے گا، جہاں تک فنڈز کا تعلق ہے عمران خان حکومت کا تازہ ترین کارنامہ ہر دکھ سکھ میں کام آنے والے سعودی عرب سے تازہ ترین بگاڑ ہے، جس کی وجہ سے سعودی عرب نے پچھلے سال دئیے ہوئے تین میں سے ایک ارب ڈالر واپس اور ادھار تیل کی سہولت ختم کر دی ہے۔ نئے لاہور کے لئے اگر کسی برادر اسلامی ملک سے فنڈز لانے کا سوچا گیا تھا تو اب اس کا بھی امکان نہیں رہا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک یا کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے سے اس پراجیکٹ کے لئے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔تارکین وطن نے ڈالر اور ریال بھیجنے کے معاملہ میں وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اپیلوں جیسے ڈیم کی تعمیر وغیرہ پر پہلے ہی چپ سادھ رکھی ہے،اِس لئے نئے لاہور کی کہیں سے بھی فنڈنگ کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔ ویسے بھی، جس حکومت کے دو تہائی بجٹ lapse ہوتے ہوں وہ کسی قسم کا ترقیاتی منصوبہ کیا خاک بنائے گی۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کی دوسری ٹرم چل رہی ہے۔ پہلی ٹرم 2013ء تا 2018ء میں پی ٹی آئی نے 350 ڈیم بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب ڈیم کوئی صرف خوردبین سے نظر آنے والی چیز تو ہے نہیں۔ ہوتے تو ساری دنیا دیکھتی، لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ یہ ساڑھے تین سو ڈیم کہاں ہیں، ان کے نام کیا ہیں، یہ کب اور کیسے بنے، ان کے لئے پیسہ کہاں سے آیا، ان کا افتتاح کب ہوا، ان میں کتنا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔
کیا ان میں کسی میں بجلی بھی بنتی ہے یا یہ صرف پانی ذخیرہ کرتے ہیں، ان ڈیموں کا پانی کہاں جاتا ہے اور ان سے کون سی فصلیں سیراب ہوتی ہیں، کیا ان ڈیموں کو بنانے کے لئے ایک بھی انجینئر کی بھرتی ہوئی،وغیرہ وغیرہ۔ بس ایک ڈھنڈورا ہے، جو پچھلے کئی سال خوب پیٹا کیا گیا۔کوئی ایسی لسٹ موجود نہیں ہے، جس میں 350 ڈیموں کے نام ہی لکھے ہوں۔
آج کل ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید اور سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین جنرل عاصم سلیم باجوہ کراچی تا پشاور تیز ترین ریلوے ٹریک ML-1 کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے، لیکن سب کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہی اس منصوبہ کے تمام ابتدائی مراحل شروع ہو گئے تھے اورسی پیک کے دوسرے منصوبوں کی طرح چین سے فنڈنگ بھی حاصل کر لی گئی تھی۔ یہی صورتِ حال تھر کول پراجیکٹ کی ہے۔ پچھلے ادوار کے منصوبوں پر محض اپنی تختی لگا کر انہیں اپنے پراجیکٹس کے طور پر بتایا جا رہا ہے۔جہاں تک ”نئے لاہور“ کا تعلق ہے، میاں شہباز شریف کے دورِ وزارت اعلیٰ میں 30 ہزار ایکڑ زمین کے حصول کے لئے ابتدائی کاروائی شروع کی گئی تھی اور اس منصوبہ کا نام ”دریائے راوی اربن ڈویلپمنٹ زون پراجیکٹ“ رکھا گیا تھا اور اس کا PC-1 بھی منظور ہوا تھا،لیکن تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ منصوبہ فنڈز کی عدم دستیابی اور ناقابل ِ عمل ہونے کی وجہ سے 2013ء میں بند کر دیا گیا تھا۔ اس بند پراجیکٹ کوبھی الماری سے نکالا گیا ہے۔