کپتان کی سیاست، کامیاب یا ناکام؟
اپوزیشن والے جتنا مرضی کہتے رہیں کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی، مگر حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے سب سے بڑے سیاست دان بن گئے ہیں۔ مثلاً آج وہ اس حوالے سے بالکل بے فکر ہیں کہ انہیں چھڑی دکھا کر نکالا جا سکتا ہے، انہوں نے اِس رمز کو پا لیا ہے کہ پاکستان میں سیاست اور حکمرانی کرنی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کی طاقتوں سے بنا کے رکھو، یہ وہ ملک نہیں کہ جہاں کوئی مطلق العنان بن کے حکمرانی کر سکے۔ یہاں تو اقتدار کے کئی مراکز ہیں، جن سے بگاڑ کے ایک قدم بھی آگے نہیں چلا جا سکتا، چلیں جی صاف بات کہتے ہیں کہ ان مراکز کو مخالف بنا کے کوئی حکمران چاہے وہ عوام میں کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو امن چین سے حکومت نہیں کر سکتا۔ یہ کوئی ہوا میں کی گئی بات نہیں، بلکہ یہ ہماری تاریخ ہے۔ ویسے بھی جس ملک میں چار بار مارشل لاء لگ چکا ہو،اُس میں اگر کوئی کہے کہ فوج کے بغیر جمہوریت چل سکتی ہے تو اُس کی معصومیت پر تالیاں ہی بجائی جا سکتی ہیں، سو اس رمز کو کپتان بہت پہلے سمجھ گئے تھے، سو انہوں نے فوج سے تعلقات کشیدہ کرنے کا ہر دروازہ بند کر دیا۔ ابھی حال ہی میں سٹیل مل کراچی کا چیف ایگزیکٹو ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو بنایا گیا ہے تو پھر تنقید کی گئی کہ عمران خان کے دور میں ہر اہم ادارے کا سربراہ کسی حاضر یا ریٹائر آرمی آفیسر کو لگایا جا رہا ہے،لیکن کپتان ایسے اعتراضات کو خاطر میں نہیں لاتے اور اسی لئے اُن کی فوج کے ساتھ مثالی ہم آہنگی ہے۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو اپوزیشن نے کون سا اُن کے لئے آسان راستہ چھوڑا ہے۔ شروع دن سے اُن کے لئے سلیکٹڈ وزیراعظم کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے، بلکہ کھل کے کہا جاتا ہے کہ انہیں فوج اقتدار میں لائی ہے۔ایسے میں عمران خان کو اور کیا کرنا چاہئے تھا؟ جب جمہوری قوتیں خود انہیں ایک منتخب وزیراعظم ماننے کو تیار نہیں،حالانکہ وہ ایک بڑی کامیاب انتخابی مہم کے بعد عوام کا ووٹ لے کر اقتدار میں آئے، تو کیا وہ نواز شریف کی طرح فوج سے بھی بگاڑ لیتے، کیا اس خبط میں مبتلا ہو جاتے کہ انہیں ہر صورت فوج کو اپنے تابع فرمان کرنا ہے۔ ایسا کرتے تو اُن کے اقتدار کا سورج بہت پہلے غروب ہو چکا ہوتا۔ اب قصہ یہ ہے کہ اپوزیشن تو ہر صورت چاہتی ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے نہ کرے،اُس کا کسی طرح پہلے ہی دھڑن تختہ ہو جائے، لیکن اُس یہ خواہش پوری ہوتے اس لئے نظر نہیں آتی کہ وقت سے پہلے منتخب حکومت کو گھر بھیجنے والی قوتیں اس کے حق میں نہیں، اپوزیشن کی طرف سے بہتیری دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی، مگر کپتان کی سیاست نے اُس کی یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی اور تو اور اپوزیشن اس نکتے پر متحد بھی نہیں ہو پا رہی، صرف مولانا فضل الرحمن پانی سے باہر آئی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں اور اُن پر حکومت کا ایک ایک دن بھاری گذر رہا ہے، پھر وہ ایک سے زائد بار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ہاتھوں دھوکے کھا چکے ہیں، اب پھر اکیلے ہی طبع آزمائی کا فیصلہ کر چکے ہیں، لیکن ناکامی اُن کا مقدر بنے گی، چونکہ کسی ایک علاقائی جماعت کی کوششوں سے منتخب حکومت گرانے کی پاکستان میں کئی مثال موجود نہیں۔
پہلے دن کے مقابلے میں آج عمران خان کی حکومت خاصی مضبوط ہو چکی ہے۔ دوسال کے عرصے میں بہت سے سرد وگر م سے گذرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو سارے داؤ پیچ سمجھ آ گئے ہیں۔ اُن پر کسی قسم کا دباؤ نہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح کئی کئی ہفتے ملک سے باہر چلے جانے کی روایت نہیں رکھتے، وہ ڈٹ کر اسلام آباد میں موجود ہیں، روزانہ اجلاس کرتے ہیں اور اکثر اجلاسوں میں آرمی چیف سمیت فوجی قیادت بھی اُن کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ پچھلے دِنوں لاہور میں انہوں نے لاہور کے قریب نئے شہر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ اب وہ پچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے، کشتیاں جلا چکے ہیں، گویا اب وہ زیادہ جارحانہ انداز میں حکمرانی کرنا چاہتے ہیں اور کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن انہیں اِس لئے زیر بارنہیں کر سکی کہ اس کا ایجنڈا کبھی عوامی نہیں رہا۔ ملک میں اتنی مشکلات آئیں، عوام مسائل کے گرداب میں پھنسے، معاشی حالات دگرگوں ہوئے اور اب بھی ہیں،لیکن اپوزیشن کا ایجنڈا صرف اپنی سیاست رہا۔ اُن کی سوئی ہمیشہ نیب کے گرد گھومتی رہی،اُس سے بچنے اور اسے بے اثر کرنے کی کوشش پر اپنا وقت ضائع کرتی رہی، جب اپوزیشن کا ایجنڈا ہی یہ ہو کہ اُسے احتساب سے بچایا جائے تو اُسے عوامی حمایت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ اب بھی جو آل پارٹی کانفرنس بلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اُس کا مقصد بھی صرف مقدمات کا خاتمہ اور نیب قوانین کو تبدیل کرانا ہی ہو گا، کوئی عوامی مطالبہ اُس میں شاید ہی شامل ہو، اپوزیشن نے حکومت کو نیب کے بارے میں 35نکات پیش کر کے خود ہی عوام کے سامنے یہ حقیقت رکھ دی ہے کہ وہ لوٹ ما ر کا حساب نہیں دینا چاہتی، یہ ایسی بات ہے کہ عوام جسے کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں، وزیراعظم عمران خان نے ان نکات کو مسترد کر کے درحقیقت ایک بار پھر عوام کے دِلوں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اگر وہ اس بارے میں کس نرمی کا مظاہرہ کرتے تو یہ اُن کی سیاسی زندگی کا بدترین فیصلہ ہوتا،جو شاید اُن کی حکومت چلے جانے کا باعث بھی بنتا۔
موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی عوام کو معاشی لحاظ سے ریلیف نہ دینا ہے۔ اگر مقبولیت کا گراف نیچے آیا بھی ہے تو اُس کی وجہ لوگوں کی غربت اور تنگدستی میں اضافہ ہے، لیکن دوسری طرف قومی معیشت کے اشارے مثبت جا رہے ہیں اور بین الاقوامی ریٹنگ میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ حکومت اُن مافیاز کا خاتمہ نہیں کر سکی جو بنیادی اشیائے ضروریہ کو ایک خاص مقصد کے تحت مہنگا اور نایاب کر رہے ہیں۔پٹرول کی قیمت میں کمی کے معاملے کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے کہ مافیاز اگر نہ چاہیں تو حکومت عوام کو ریلیف بھی نہیں دے سکتی۔ حیرت ہے کہ اُن معاملات کو اپوزیشن نے کبھی سنجیدگی سے نہیں اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی ساکھ عوام کی نظر میں نہیں بن سکی۔ ایسی لولی لنگڑی اپوزیشن کی موجودگی اور فوج کے ساتھ مثالی ہم آہنگی نے کپتان کے لئے حکمرانی کا راستہ ہموار کر دیا ہے اور فی الوقت اُن کے اقتدار کو دور دور تک کوئی خطرہ لاحق نہیں، البتہ مولانا فضل الرحمن کی کوششیں پھر بھی جاری رہیں گی۔