پاکستانی اور انڈین سیاست: ایک دوسرے کا آئینہ
میں اگلے روز ان پانچ رافیل طیاروں کی خبریں انڈین میڈیا پر دیکھ اور سن رہا تھا جن کی تکنیکی برتری جدید دنیا کے دوسرے جنگی طیاروں کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر بیان کی جا رہی تھی اور حیران ہو رہا تھا کہ ان فرانسیسی طیاروں میں ایسی کیا خوبی ہے جس کا اتنا چرچا کیا جا رہا ہے۔ میں جوں جوں اپنے سوال کے جواب میں مختلف پہلوؤں کا جواب ڈھونڈ رہا تھا تو ہر جواب کے بعد ایک نیا سوال پیدا ہو جاتا تھا۔ میں ان سوالوں کی ایک فہرست آپ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ ایک لکھاری جب اس طرح کے موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو کس طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے۔ میرے سوال کچھ اس طرح کے تھے:
1۔ انڈیا نے رافیل طیارے کیوں خریدے۔کیا مارکیٹ میں اس سے بہتر کوئی دوسرا جنگی طیارہ نہیں تھا؟
2۔کیا اس کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس طیارے کے متبادل دوسرے طیاوں سے کم تھی؟
3۔کیا دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ طیارہ ساز ملکوں نے اپنے طیارے بیچنے کے لئے انڈیا سے رابطہ نہیں کیا تھا؟ کیا برطانیہ، جرمنی، سویڈن، رشیا اور اسرائیل اس دوڑ میں شامل نہ تھے؟ اگر تھے تو انڈین حکومت نے رافیل کا انتخاب ہی کیوں کیا؟
4۔ کیا یہ پانچ عدد رافیل طیارے چین اور پاکستان کے لئے آنے والے ایام میں کسی دردِ سر کا باعث بنیں گے؟
5۔ اگر واقعی یہ طیارہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں کھلبلی مچا دینے کا باعث ہے تو چین اور پاکستان کے پاس اس خطرے کا جواب کیا ہے؟
انڈیا کی سیاسی اور عسکری قیادت کے سر پر چند ایک ایسے بھوت سوار ہیں جو اس کو آرام کی نیند سونے نہیں دیتے۔ مثلاً وہ اس سارے خطے میں چین کے علاوہ ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی، رقبہ، وسائل اور صنعت و حرفت کی ایک ایسی اساس (Base) موجود ہے جو اس کے کسی بھی ہمسائے کے پاس نہیں۔ اس لئے اس کا مقابلہ اگر ہو گا بھی تو چین سے ہو گا، کسی اور سے نہیں۔ اس لئے وہ ’کسی اور‘کو خاطر میں نہیں لاتا۔ پاکستان کو وہ ہر اعتبار سے ایک کمتر اہمیت، صلاحیت اور ممکنات کا ملک سمجھتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں برابری کے پیمانے صرف محسوس (Tangible) پیمانوں پر استوار نہیں ہوتے۔ معیار کو مقدار پر ہمیشہ فوقیت رہی ہے۔ ہندو کا ذہن تجارتی ذہن ہے اس لئے وہ محسوس پیمانوں کو غیر محسوس (Jion-tangible) پیمانوں سے افضل گردانتا ہے۔ اسے اپنی تاریخ یاد نہیں کہ اس پر تقریباً گزشتہ ڈیڑھ ہزار برس سے غیر محسوس پیمانوں نے حکومت کی ہے۔ 711ء میں محمد بن قاسم سے لے کر انگریزوں تک سب کے سب تعداد اور مقدار میں کمتر تھے۔
اس کے سر پر سوار دوسرا بھوت تعلیم، صنعت و تجارت اور سوداگری میں اس کا ’شاندار‘ ماضی ہے جو عصرِ نو کی خوشحالی کا ایک بڑا فیکٹر شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن اسے شائد یہ یاد نہیں کہ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم قوموں نے بھی کبھی مقدار کو معیار پر ترجیح نہیں دی۔ مغربی استعمار کی وہ صدیاں جو مسلمانوں کے زوال کے جلو میں آئیں، ان کی برتری سائنس اور ٹیکنالوجی کے گھوڑوں پر سوار تھی۔ کیا انڈین قیادت نے کبھی یہ سوچا کہ اس کو بین الاقوامی دنیا میں بین الاقوامی حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں۔ مسلمان تو کئی صدیوں تک بلا شرکتِ غیرے دنیا کے ایک غالب حصے پر حکمران رہے۔ لیکن اس قسم کا کوئی تجربہ، انڈیا کو بھی حاصل ہے؟
انڈیا کے سر کا تیسرا بھوت یہ ہے کہ وہ جلد از جلد عظیم قوموں کی برادری میں شریک ہونا چاہتا ہے۔ عظیم قومیں عظیم فوجی طاقت سے بنتی ہیں۔ اور عظیم فوجی طاقت جنگ و جدال کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ انڈیا کے ہندو کا بین الاقوامی جنگی تجربہ کیا اور کتنا ہے؟ وہ کس کس بڑی جنگ میں کودا، کس کو مارا اور کس سے مار کھائی؟ آج چاروں طرف نظر دوڑائیں۔ عظیم قومیں یا عظیم طاقتیں کون ہیں؟ ان کی وجہِ عظمت کیا ہے؟ کیا ان کا رقبہ؟…… کیا ان کی آبادی؟…… کیا ان کا سرمایہ؟……ہندو نے پچھلے ہزاروں سالوں میں کس عالمی قوت سے جنگ لڑی؟ کس کو فتح کیا؟ اور کس سے شکست کھائی؟
کاروبارِ جنگ میں ہندو کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟ اس کے ہمسایوں میں پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، برما، بھوٹان اور سکم شامل ہیں۔ لیکن انڈیا کا سب سے بڑا ہمسایہ چین ہے۔ اس کے ساتھ انڈیا کی سرحد کی طوالت کسی بھی دوسرے ہمسایہ ملک سے زیادہ ہے۔ گزشتہ پون صدی کی اپنی عمر میں انڈیا نے صرف ایک ماہ پر مشتمل حربی جھڑپ میں (اکتوبر 1962ء میں) جو مار چین سے کھائی تھی، وہ اسے بھلا بیٹھا تھا۔ چین نے اچھا کیا کہ امسال 15جون کو اسے بتلا دیا کہ زیادہ ڈینگیں مارنے کی ضرورت نہیں …… چین، انڈیا اور پاکستان ایک جوہری مثلث ہے۔ ان میں کوئی ”بڑی“ جنگ نہیں ہو سکتی۔ ہاں روائتی جنگ ہو سکتی ہے جس کا حوالہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی دیا تھا۔
15جون کی ’شرمناک مار‘ کے بعد انڈیا نے فرانس سے 5عدد رافیل طیاروں کو منگوا کر چین سے ’انتقام“ لینے کا جو پروگرام بنایا ہے، بین الاقوامی برادری اس پر ہنس رہی ہے۔ کیا چین نے بھی اپنی کسی فوج (آرمی، ائر فورس، نیوی) میں کسی غیر ملکی ’رافیل‘ کو انڈکٹ کیا ہے؟ وہ اپنے ایک دوست روس سے جو وار ٹیکنالوجی حاصل کرتا ہے وہ دوسرے دوست کو منتقل کر دینے کی سٹرٹیجی پر عمل پیرا ہے۔ اس کے پاس روس کے SU-30 طیاروں کا ایک وسیع فضائی بیڑا موجود ہے لیکن ان طیاروں کی ریورس انجینئرنگ کرکے چین نے دوسرے ملکوں کو یہ سبق دیا ہے کہ دوسروں کی نقّالی کوئی بُری بات نہیں لیکن ”نقل بمطابق اصل“ ہونی چاہیے۔پاکستان کا JF-17 اس کی زندہ مثال ہے۔ لیکن دوسری طرف انڈیا نے جب بھی روس، امریکہ اور اسرائیل سے بھاری ہتھیار خرید کر ان کو Made in Indiaکا لباس اوڑھانے کی کوشش کی ہے تو اس میں اس کو کامیابی نہیں ہوئی۔ روس کے ٹی۔ 72 ٹینکوں کی نقل اتارنے میں وہ 1980ء کے عشرے سے کوششیں کررہا ہے۔ اس ’ہندوستانی کوشش‘ کا نام اس نے ارجن ٹینک رکھا ہے۔ لیکن گزشتہ چار عشروں میں وہ ٹی۔72 کی نقل نہیں کر سکا۔ ناچار اسے ٹی۔90 روس سے منگوا کر انہیں لداخ روانہ کرنا پڑا ہے…… یہی حال طیاروں کا بھی ہے۔ اس نے روس کے سوخائی اور دوسرے طیاروں کی نقل ’تیجا‘ طیارے کی صورت میں بنانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اسرائیل اور امریکہ سے ایف۔15 اور ایف۔16 حاصل کرنے کی کوشش کی تو ان کو کہا کہ ان کو انڈیا میں بنایا جائے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل اپنی سٹیٹ آف دی آرٹ ائر ٹیکنالوجی، بھارت جیسے ”کرپٹ اور بے ہنر“ ملک کو نہیں دے سکتے تھے۔ یورپی ممالک کی بات اور ہے۔ ان کو دوسری جنگ کا ایک لازوال اور وسیع تجربہ حاصل ہے۔ 20ویں صدی کی دونوں عظیم جنگوں کا کوئی تجربہ انڈیا کو حاصل ہے نہ پاکستان کو، لیکن پاکستان نے Made in Pakistan کی ضد کبھی نہیں کی۔
ابھی تک صرف 5رافیل انڈیا پہنچے ہیں۔ فرانس سے کل 36طیاروں کا سودا ہوا ہے۔ ان طیاروں کے بہت سے پرزے ہندوستان نے اپنے ہاں بنانے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں امبانی برادرز کی Reliance کارپوریٹ فرموں اور کمپنیوں کا کردار بڑی اہمیت کا حامل بتایا جا رہا ہے۔
امبانی خاندان کی کہانی بڑی سبق آموز ہے۔ میں کسی وقت قارئین کی خدمت میں دھیرو بھائی امبانی اور اس کے دو بیٹوں مکیش امبانی اور انیل امبانی کی داستان پیش کروں گا۔ مکیش اور انیل کا باپ گجرات کا رہنے والا تھا۔ بہت غریب اور محض سفید پوش۔ دھیرو بھائی (مکیش اور انیل کا والد) کا باپ ایک دیہاتی پرائمری سکول کا ٹیچر تھا۔ اس کا بیٹا دھیرو بھائی اور اس کے پوتے مکیش اور انیل دنیا کے مالدار ترین افراد میں کیسے شمار کئے گئے، مودی کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنانے میں گجرات کی دھیرو بھائی فیملی کی دولت کا کتنا ہاتھ تھا، پھر اسی مودی کو انڈیا کا وزیراعظم بنانے میں ”مکیش اینڈ انیل برادرز“ کا سرمایہ کس طرح کام آیا، مکیش امبانی دنیا کا چھٹا مالدار ترین بزنس مین کیسے بنا اور اس کا چھوٹا بھائی انیل امبانی، دیوالیہ ہونے کے قریب کیوں پہنچ گیا، بی جے پی نے انیل امبانی کو رافیل طیاروں کی سپورٹ فیکٹری لگانے میں کیا رول ادا کیا، انیل کی بیوی بالی وڈ کی مشہور اداکارہ ٹینا مونم انیل کی بیوی کیسے بنی اور اس کے دو بیٹے آج کل انڈیا میں کیا کر رہے ہیں،
امبانی برادرز کا انڈین سیاسیاتِ حاضرہ میں کیا عمل دخل ہے، انیل اپنی بیگم کے توسط سے ہندوستان کی الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری کو آج کل رافیل طیاروں کے تناظر میں کیسے کنٹرول کر رہا ہے، ان تمام موضوعات و معاملات کی ظاہری سن گن تو آپ گوگل پر جا کر لے سکتے ہیں لیکن ’اندر خانے“ جو سمجھوتے ہوتے ہیں اور سرمایہ کاری کا جو کھیل کھیلا جاتا ہے وہ انڈیا ٹو ڈے، دی ہندو، زی ٹی وی اور دوسرے انڈین چینلوں کی لگاتار اور بالا ستعیاب مانیٹرنگ سے بھی ممکن نہیں۔ آج کا چور اپنے پاؤں کے نشانات اس طرح مٹاتا ہے کہ کوئی جدید کھوجی بھی، چور کا سراغ نہیں لگا سکتا…… دور کیوں جائیں، اپنے پاکستان کو ہی دیکھ لیں …… پاکستانی اور انڈین سیاست ایک دوسرے کا آئینہ ہی تو ہیں!!!