"عثمان بزدار وزیر اعظم کی پسند ہی نہیں ترجیح بھی ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی جس کا عمران خان بھی بار بار اعتراف کر چکے ہیں ، وہ۔۔۔" نیب کے نوٹس پر سینئر کالم نویس محسن گواریہ نے اندر کی بات بتادی

"عثمان بزدار وزیر اعظم کی پسند ہی نہیں ترجیح بھی ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی جس ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (کالم: محسن گورایہ) نیب اب تک اس ملک کے ان کرپٹ سیاستدانوں میں سے تو کسی ایک کو بھی کرپٹ ثابت نہیں کر سکا جن کی کرپشن سے اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہے، مگر اب اسکی تان آ کر ٹوٹی ہے تو ایک سیدھے سادھے سیاستدان عثمان بزدار پر، وزیر اعلیٰ بزدار اپنے پر لگنے والے الزامات کا یقینی طور پر جواب دیں گے۔ وہ جب تک وزیر اعلیٰ نہیں بنے تھے تو انہیں کوئی جانتا ہی نہ تھا،انہوں نے کیا کرپشن کرنی تھی اور جب سے وزیر اعلیٰ بنے ہیں ان پر اتحادیوں،ان کا عہدہ حاصل کرنے والے دوسرے حلیفوں اور وزیر اعظم کا اتنا چیک ہے کہ انہیں دائیں بائیں دیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔ اصل میں وزیر اعظم عمران خان نے ان کا انتخاب کر کے انہیں پنجاب کے جغادری اور چھوٹے بڑے سیاستدانوں کی آنکھوں کا کانٹا بنا دیا ہے،حا لانکہ عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد جس طرح کام کیا وہ موجودہ حالات میں ان ہی کا کام تھا۔وہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ 
روزنامہ پاکستان میں محسن گورایہ نے اپنے کالم میں لکھا کہ متوسط طبقے اور پسماندہ ترین تحصیل تونسہ کی بلدیاتی سیاست سے یکدم ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے والے عثمان بزدار ابتداءہی سے موروثی سیاست کے علمبر دار سیاستدانوں کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں،وہ کئی دھائیوں سے پنجاب کی سیاست کے ازخود ٹھیکیداروں کو ہضم نہیں ہو رہے۔اب جبکہ انہوں نے ایلیٹ کلاس کے بجائے عام شہری کے مسائل مشکلات پر براہ راست توجہ کی ہے تو عثمان بزدار، تاجر اور دیہاڑی باز سیاسی خاندانوں کیلئے نا پسندیدہ شخصیت بن گئے ہیں،ان کے لالچی،حرصی،طمعی معدے جن میں عثمان بزدار کے دو رمیں مال حرام جانا بند ہو چکا ہے برداشت نہیں کر رہے،ان کا بس نہیں چل رہا کہ کب عثمان بزدار سے نجات حاصل کر کے کوئی ایسا وزیراعلیٰ لائیں جو ان کے مفادات اور کاروبار کو ترجیح دے اور وہ ماضی کی طرح دن دونی رات چونی ترقی کرتے عوام کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لیں،مگر عثمان بزدار بھی اپنی ہٹ کے پکے ہیں وہ خرگوش کی رفتار سے چلنے کی بجائے کچھوے کی رفتار سے چلتے ہوئے دوڑ جیتنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔
 عثمان بزدار وزیر اعظم عمران خان کی پسند ہی نہیں ترجیح بھی ہیں،تحریک انصاف کے اندر سے بے پناہ مخالفت کے باوجود اگر عمران خان نے پنجاب کی پگ عثمان بزدار کے سر پر رکھی ہے تو ان میں کوئی تو خوبی ہو گی،ان کی سب سے بڑی خوبی جس کا وزیر اعظم بھی بار بار اعتراف کر چکے ہیں دیانتداری ہے،بظاہر بزدار کے کوئی سیاسی مقاصد بھی نہیں،ان کی کوئی انڈسٹری بھی نہیں جس کو وہ اپنے سیاسی اثرورسوخ سے سے ترقی دیں،زرعی اثاثوں بارے ملک کے تفتیشی ادارے بخوبی آگاہ ہیں،وہ خود کوئی غیر قانونی کام کرتے ہیں نہ کسی کے غیر قانونی کام میں معاونت کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ پرانے سیاسی مچھندروں کو ہضم نہیں ہو رہے،آغاز میں راقم بھی ان کے ناقدین میں شامل تھا مگر جب ان کے آہستہ روی سے چلنے کی پالیسی کے مثبت اثرات دیکھے تو یقین آگیاموجودہ سیاسی حالات اور پنجاب کے تناظر میں عمران خان کا انتخاب غلط نہ تھا۔
 وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہیں ان امور سے جانکاری کیلئے وقت درکار تھا اور انہوں نے ساتھیوں اتحادیوں کی مدد سے مختصر وقت میں سیاسی چالبازیوں سے گریز اور مخالفین کو درخور اعتنا ءنہ لاتے ہوئے مکارانہ چالوں،شعبدہ بازیوں،مافیاز کی سازشوں سے آگاہی حاصل کی اور اب صوبہ کو ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن کر چکے ہیں۔عثمان بزدار کو عام شہری کی خوشحالی،ترقی،مسائل و مشکلات سے دلچسپی ہے،اس کیلئے دن رات وہ کام کر رہے ہیں،کووڈ 19وائرس سے نبٹنے کیلئے انہوں نے شب و روز ایک کئے رکھا،اگر چہ وڑن وزیر اعظم کا تھا مگر اس پر سختی سے عملدرآمد کے ذریعے انہوں نے صوبہ کے عوام کو وائرس سے بچا کر بھوک کے عفریت کی نذر نہ ہونے دیا،ایس او پیز پر عمل درآمد کیساتھ کاروبار بھی چلتا رہا،غریب،مفلو ک الحال،محروم الوسائل افراد کیلئے امدادی سکیم سے کروڑوں لوگ مستفید ہوئے۔صوبے کاہر دور میں مراعات یافتہ طبقہ یہ نہیں چاہتا،ان کے نزدیک عوام کو مسائل و مشکلات میں الجھا کر مفادات حاصل کرتے رہنا ہمیشہ ترجیح رہا اور اب اس مافیاکی راہ کھوٹی کر دی گئی،چینی،آٹا،ادویہ کے سکینڈل نہ صرف منظر عام پر لائے گئے بلکہ قانونی کاروائی بھی کی گئی جس کے نتیجے میں عثمان بزدار ہضم نہیں ہو رہا۔
مون سون کی بارشوں کے بعد عموماً سیلاب کیساتھ وبائیں بھی پھوٹتی ہیں مگر اس بار نہ تو شہروں میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہوئی نہ گندہ پانی سڑکوں گلیوں میں ٹھرا نہ وبائیں پھوٹیں،عثمان بزدار ہیٹ اور لانگ شوز پہن کر سڑکوں پر کھڑے پانی میں چلتے تصویریں نہیں بنواتے رہے بلکہ عام شہری کی طرح بارشی پانی کا جائزہ لیکر اس کے انخلاءکی کوششوں میں مصر وف رہے،سرکاری مشینری نے ماضی کی طرح ایسی ہنگامی صورتحال کو سنبھالنے کیلئے اضافی فنڈز مانگے نہ کسی نوعیت کی کرپشن دیکھنے کو ملی،اس کی ایک وجہ تو عثمان بزدار کا خود سرکاری مال پر ڈاکہ نہ مارنا ہے اور دوسری وجہ سرکاری مشینری کو اعتماد عزت مقام اور توقیر دینا ہے،عثمان بزدار اعلیٰ سرکاری افسروں کو گھر بلا کر رات گئے تک بلاوجہ بٹھا کر علی الصبح آفس آنے کی ہدائت کر واپس بھیجنے کر بیوروکریسی کی توہین نہیں کرتے،سرکاری افسروں کو ذاتی ملازم اور خود کو مغل بادشاہ نہیں سمجھتے،جو کام کرتا ہے اسے عزت دیتے ہیں جس وجہ سے سرکاری افسر ان ان کی بات مانتے اور دلجمعی سے اپنا کام کرتے ہیں اور یہ ادا شاہی مزاج رکھنے والوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔پچھلے دنوں لاہور کے سرپرائز دورے میں انہیں جو خامیاں نظر آئیں اس پر انہوں نے افسروں کی تذلیل کئے بغیر ایکشن لیا۔
اشیاءخورونوش کی قلت اور قیمتوں میں مصنوعی اضافہ پر عثمان بزدار کا ذاتی طور پر حرکت میں آنا منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کے ذریعے کسی نہ کسی حد تک عوام کو سہولت دینا بھی ان ہی کا خاصہ ہے،اگر چہ اس حوالے سے ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے تاہم جو کچھ بھی عوام کو ریلیف دینے کیلئے عثمان بزدار نے کیا وہ کافی بہتر ہے۔ماضی میں عوام کو سہولت دینے کیلئے مافیاز کو سبسڈی دینے کی روائت ڈالی گئی جس کا فائدہ کبھی عوام کو نہ ملا ہمیشہ انہی کے خزانے بھرے جو استحصالی ہیں،عوام کو بھی لوٹتے اور حکومت سے بھی سبسڈی لیتے رہے،مگر عثمان بزدار نے یہ روائت توڑی اور سبسڈی کے ذریعے ہونے والی کرپشن کا خاتمہ کیا اگر سبسڈی دی تو براہ راست عوام کو دی گئی،اسی لئے عثمان بزدار جرائم پیشہ سیاستدانوں کیلئے ناقابل قبول ہیں،عثمان بزدار کا ہسپتالوں،تھانوں،بازاروں کا دورہ،ہر قسم کی صورتحال کا خود جائزہ لینا اور پھر مشاورت سے اقدام کرنا ان کی کامیابی کی راہ ہموار کر رہا ہے،ہسپتالوں میں مریضوں تھانوں میں حوالاتیوں،بازاروں میں صارفین سے براہ راست ملاقاتیں کر کے ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرتے ہیں جس کے باعث مسائل و مشکلات سے آگاہی ملتی ہے بلکہ سب اچھا ہے کی رپورٹ کی بھی نفی اور حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔