مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:154
یہ عمارت گرد ونواح کے گھروں سے زیادہ بڑی، بلند اور مضبوط تھی۔ عجیب بات ہے کہ عبادت گاہیں، مقبر ے اور محلّات ہمیشہ بہت پُر شکوہ، خوبصورت اور پائےدار ہوتے ہیں جب کے عام لوگوں کے اپنے گھر چھوٹے، بد نما اور کمزور سے ہوتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کو اپنے گھر خود بنانے پڑتے ہیں اور عظیم اور مقدس عمارات دوسروں کے پیسے سے بنتی ہیںاور زیادہ تر انہی لوگوں کے پیسوں سے جن کے اپنے گھر یا تو ہوتے ہی نہیں اور اگر ہوں تو نہایت بے بضا عت ہوتے ہیں۔
گنِیش ایک طرح سے سرمئی علاقہ(Grey Area) ہے“
میرے لیے کوئی انوکھی جگہ نہیں تھی، صرف بند دروازے نے تجسس جگا دیا تھا۔
”اس کے اندر جا سکتے ہیں؟“ میں نے جماعت خانے والے تجربے کے پیش ِ نظربچوں سے پوچھا۔
مجھے جواب دیے بغیر عقیل دوڑ کر گیا اور کہیں سے دروازے کی چابی لے آیا۔ہم اندر داخل ہوئے۔ ایک بڑا نیم تاریک ایوان (ہال)جس میں مکمل خا موشی تھی۔ چھت کے وسط میں ایک بڑا روشن دان تھا جس سے آنے والی روشنی میں اندرکا ماحول دھندلا دکھائی دے رہاتھا۔ ہمارے علاقے کی نسبت یہ ایک نہایت سادہ ایوان تھا۔ ہر طرف سیاہ جھنڈے آویزاں تھے یا زمیں میں گڑے تھے جو تاریکی کو مزید گہرا کر رہے تھے۔ دیواروں پر بھی سیاہ چادریں چڑھی تھیں جن پر مذہبی اشعار کڑھے ہوئے تھے۔۔ خواتین کا حصہ مردانے سے الگ کرنے کے لیے ایک قنات کھڑی کی گئی تھی۔ مردانہ حصے میں ایک سٹیج تھا جس کے دائیں بائیں بھی سیاہ جھنڈے نصب تھے۔ میں ادھر اُدھر گردن گھما کر اشعار پڑھتا رہا۔ عقیل اور نوشاد نے دوڑ کر عقبی دروازہ کھولا تو ہم باہر کھیتوں میں تھے۔ باہرتازگی کا احساس تھا اور اندر کی تاریکی کے بعد دھوپ تیز اور مکئی کے ہرے پودوں کا رنگ زیادہ شوخ محسوس ہوتا تھا۔ یوں لگا جیسے”دا وِزرڈ آف اوز“ (The Wizard of Oz )کی ڈورتھی اچانک بے رنگ دنیا سے نکل کر جادوئی دنیا میں آ گئی ہے۔
عقیل اور نوشاد ہمیں حوض کی طر ف لے چلے جس کے پار درختوںکے پیچھے قلعہ گنیش کی عمارت دکھائی دیتی تھی۔ کبھی گنیش میں قلعے کے ساتھ ساتھ بہت سے چوکی داری والے برج (watch towers) بھی تھے جن میں سے اب دو تین ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن التیت کے تفصیلی مشا ہدے کے بعد ابھی کوئی قلعہ یا برج دیکھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا اس لیے میں تالاب کنارے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر سستانے لگا۔ میرے ساتھی بھی آس پاس ڈھیر ہو گئے۔ پیڑوں سے چھن کر آتی دھوپ خوش گوار تھی۔ نرم ہوا سے مجور کی شاخیں پانی میں اپنا عکس دیکھ کر جھومتی تھیں اور تریک کے پتے ہلکے ہلکے ناچتے اور پیڑوں کی زبان میں بہار کے گیت گاتے تھے۔ پر سکون ماحول میں تالاب کنارے کھیلتے بچوں کی آوازیں ان گیتوں میں مو سیقی کے رنگ بھرتی تھیں۔ تالاب کا ساکن پانی آسمان اوردرختوں کے عکس سے کہیں نیلا اور کہیں گہرا سبز نظر آتا تھا۔ مجھ پر آسودگی آمیز غنودگی اترنے لگی۔ عقیل اور نوشاد کچھ لمحے تو انتظار کرتے رہے کہ ہم اٹھیں اور وہ راہ بری کا سلسلہ پھر سے شروع کریں لیکن ہماری کاہلی دیکھ کر انہیں شک ہوا کہ ہم شاید آج یہیں بیٹھ رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں چناں چہ عقیل میرے پاس آیا اور کہا۔
”آپ قلعہ بھی دیکھو۔“
”نہیں بس دل نہیں کر رہا۔“ میں نے نیم باز آنکھوں سے اسے جواب دیا۔میرا دل چاہ رہا تھا کہ اس وقت میرے پاس دیوان حافظ ہو اور اس گنگنی سی فضا میں آدمی عشق و مستی میں ڈوبی ہو ئی شاعری کا سرور لے۔ میرے لیے یہ پر سکون گوشہ آب ِ رکنا باد اور بستان ِ مصلیٰ تھا۔
”آپ فریج دیکھے گا؟“ عقیل نے کچھ توقف سے کہا، وہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے راہ بری کی ذمہ داری لی تھی اب ہم چاہیں نہ چاہیں اسے تو اپنا فرض اداکرنا تھا۔
”فریج کہاں ہے؟“ میں نے آ نکھیں پوری کھول کر حیرانی سے پو چھا۔
”اُودر۔“ عقیل نے انگلی سے تالاب کے گرد فرش کی طرف اشارہ کیا۔
زمین پر مختلف فا صلوں پر سیمنٹ کے چھوٹے چھوٹے چورس ڈھکن رکھے تھے جیسے ہمارے ہاں گٹر وں کے اوپر ہوتے ہیں۔ میں تجسس میںاٹھ کر ان تک گیا۔ عقیل نے ایک ڈھکن اٹھا کر دکھا یا۔ اند ر ایک چھوٹا سا گڑھا تھا جس میں گیلی ریت بھری تھی۔
”یہ کیا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”یہ فریج ہے۔“ نو شاد نے اس طرح بتا یا جیسے ہمیں متا ثر کرنا چاہ رہا ہو۔ ”مکھن کو شاپر میں ڈال کر اس میں ریت میں دبا دیتا ہے اور تالاب کا پانی چھوڑ دیتا ہے۔“ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔