کپتان سزا یاب ……کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
توشہ خانہ غبن کیس میں سابق وزیراعظم کو تین سال قید اور پانچ سال کے لیئے نا اہلی کی سزا ہوئی ہے قابل قدر ہے وہ جج جس نے یہ جرأت مندانہ فیصلہ سنایا ہے یہ مقدمہ طویل عرصہ تک زیر سماعت رہا مغرور اور متکبر عمران خاں صرف تین بار عدالت میں پیش ہوا شاید اس کو یقین تھا کہ اسے اقتدار میں لانے والی غیر مرئی طاقتیں دباؤ ڈال کر مقدمہ خارج کروا دیں گی لیکن اے بسا کہ آرزو خاک شد کے مصداق کوئی مدد کو نہ آیا اور شاید نہ آئے کیونکہ مہرے بدل جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لوگ حیران تھے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف ازخود عدالت میں پیش ہوئے حلانکہ وہ چاہتے تو ججوں کو برخواست کر سکتے تھے نوٹس وصول کرانے کی کسی کو جرأ ت نہ ہوتی لیکن دونوں عوامی رہنما تھے تکبر اور طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے جمہوریت قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس کپتان نے وزیراعظم بنتے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانا شروع کردئیے ساتھ نہائت زہریلا پروپیگنڈا سے ڈھنڈورا پیٹنے لگا۔ زبان گندی دھمکیاں گالیاں بے ہودہ الزامات اخلاقیات کی تمام حدود پار کرتے ہوئے خواتین رہنماؤں کو بھی مقدمات میں ملوث کیا۔ اْس کی اور اْس کے طبلہ نوازوں کی دھمکیوں اور روز مرہ کے الزامات سے یوں محسوس ہوتا کہ صرف وہی صالح اور پار سا ہے باقی سب کرپٹ اور بدکار ہیں جن کو سزا دنیا ملکی مفاد میں ہے۔۔ جی حضوروں نے اس کے غبارے میں اتنی زیادہ ہوا بھر دی تھی کہ تکبر کا انجام بھول گیا۔
تکبر عزازیل را خوار کر
بازندانِ لعنت گرفتار کر
ملکی ترقی میں اس کا کردار سارا عرصہ صغر رہا۔ چینی گندم اور پٹرول کے سکینڈل بنے۔ اشیائے ضروریہ مہنگی اور نایاب ہونے لگیں کرپٹ لوگوں کو الٹا لٹکانے کے اس دعویدار کے مصاحب سب سے زیادہ کرپٹ ثابت ہوئے۔ کسی کے خلاف کارروائی نہ ہوئی کہ ان میں سے کوئی اس کی اے ٹی ایم اور کوئی گھر کا خرچہ دیتا تھا۔ تا حیات وزیراعظم رہنے کے خمار میں مبتلا اپنا انجام بھول گیا۔ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی۔ دوست ملک ساتھ چھوڑ گئے۔ سی پیک پر کام رک گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وطن کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے یہ سب کچھ وطن دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔
تدبیر کند بندہ تقدیر کندخندہ
سرِ عام ناچنا گانا اور بے حیائی اتنی یورپ میں بھی نہ ہو گی جتنی اس نے پھیلا کر ملکی تہذیب کو بگاڑ دیا۔اس حوالے اگر دیکھا جائے تو یہ سزا بہت کم ہے تاہم ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ کئی مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں اہم ترین مقدمہ 9 مئی کے واقعات کا ہے یہ واقعات ملکی تاریخ میں پہلی بار وقوع پذیر ہوئے ہیں کوئی برے سے برا آدمی بھی ماں کا دامن تار تار نہیں کرتا۔ ڈجی آئی ایس پی آر نے ٹھیک کہا کہ اگر ایسی حرکت دشمن کرتا تو اسے چھٹی کا دودھ یاد کرا دیتے۔ اس متکبر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بعد اس کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہوگی تا کہ آئندہ ایسے حالات سے ملک مخفوظ رہ سکے۔
