سیاست کا قومی بیانیہ کیا ہے؟
یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ہماری آج کی سیاست کا قومی بیانیہ کیا ہے؟ آج سیاست کس دوراہے پر کھڑی ہے اور اُس کے سامنے کیا چیلنجز ہیں،اس پر غور و فکر ہونا چاہئے، مگر سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں میں ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہو سکے کہ وہ اِس حوالے سے فکر مند ہیں یا سوچ بچار کر رہے ہیں۔جہاں سیاست دانوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک نگران وزیراعظم کو اتنے اختیارات دے دیئے ہیں وہاں یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ سیاست دانوں کو سیاست کے کسی قومی بیانیے کی فکر ہے۔مثلاً اس وقت ایک ایسے بیانیے کی اشد ضرورت ہے کہ ملک میں کامل جمہوریت ہو گی،آئین کے مطابق عوام کو آزادیئ رائے کی سہولت دی جائے گی،وقت پر انتخابات ہوں گے،انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ بنایا جائے گا،انتخابی نتائج کو تمام سیاسی جماعتیں کھلے دِل سے قبول کریں گی،کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگائی جائے گی،سب کو انتخابات میں یکساں طور پر حصہ لینے کی آزادی ہو گی اور حکومت بنانے والی جماعت کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا۔یہ اُس بیانیے کے چیدہ چیدہ نکات ہیں اور ان سے جڑے بہت سے ذیلی نکات بھی ہوں گے کیا ان پر سیاسی جماعتوں کی توجہ ہے،کیا کسی طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اِن نکات کو بنیاد بنا کر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور اُس میں یہ ایجنڈا اتفاقِ رائے سے منظور کیا جائے،مجھے نہیں لگتا کہ آج سیاسی جماعتوں کی ایسی کوئی ترجیح ہے اس وقت سارا زور اس نکتے پر ہے کہ جو نگران سیٹ اپ آنا ہے،اُس میں اپنا حصہ کیسے محفوظ بنایا جائے۔یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ نگران سیٹ اپ میں اتحادی جماعتوں کو وہی وزارتیں دینے کی باتیں ہو رہی ہیں،جو انہیں پچھلے16ماہ میں حاصل رہی ہیں۔یہ بھی ایک نئی روایت ہو گی جو جمہوری روایت کی نفی کرے گی اِس سے پہلے جتنے بھی نگران دور آتے رہے ہیں اُن میں وزارتیں غیر سیاسی بنیاد پر تقسیم کی جاتی تھیں تاکہ نگران حکومت کی غیر جانبداری برقرار رہے اگر اِس بار کوٹے کی بنیاد پر وزارتیں دی جائیں گی تو یہ آنے والے انتخابات کو بھی مشکوک بنا دیں گی۔ایک سیاسی بیانیے کی اسی لئے ضرورت ہے کہ سیاسی فضاء کو مکدر ہونے سے بچایا جائے اور یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ جمہوریت کی بنیادی قدروں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ملک اِس وقت ایک ٹرانزٹ مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ایک اسمبلی کی مدت مکمل ہو رہی ہے اور دوسری اسمبلی کے لئے انتخابات ہونے ہیں،اُس سے پہلے آئین کے مطابق ایک نگران سیٹ اپ قائم ہو رہا ہے،اس نگران سیٹ اپ کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے،اس بار تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نگران وزیراعظم اور اُن کی کابینہ کی مدت90دِنوں سے زیادہ ہو گی،کیونکہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے مقررہ مدت میں انتخابات نہیں ہو سکیں گے،ایسے میں یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ نگران حکومتی سیٹ اَپ بالکل غیر جانبدار ہو اور کسی کو یہ تاثر نہ جائے کہ اُس کا جھکاؤ کسی خاص طرف ہے،یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب قومی اور صوبائی حکومتیں غیر جانبداری کے ساتھ کام کریں اور اپنے فیصلوں سے یہ تاثر نہ چھوڑیں کہ وہ کسی کی آلہ ئ کار بنی ہوئی ہیں،سب سے بنیادی ضرورت اِس بات کی ہے کہ انتخابات جلد سے جلد کرانے کو یقینی بنایا جائے،اسے قومی بیانیے میں سب سے اولین شق کے طور پر موجود رہنا چاہئے،اس وقت حکومتی اتحاد کی جماعتوں میں اس حوالے سے یکسوئی موجود نہیں،کچھ جماعتیں آئینی مدت کے دوران انتخابات کے حق میں ہیں اور کچھ کی رائے دوسری ہے۔اب تک یہ بات سامنے آ جانی چاہئے تھی کہ مردم شماری یا نئی حلقہ بندیوں کی صورت میں الیکشن کمیشن کو کتنا وقت درکار ہو گا،اُس کے مطابق الیکشن کی تاریخ کا تعین بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اس کی بجائے ایک لامتناہی مدت تک اسے چھوڑنے کی باتیں نامناسب ہیں،اس طرح ایک بڑا ابہام پیدا ہو سکتا ہے اور بے یقینی جنم لے سکتی ہے،جو ہماری معیشت اور جمہوریت کے لئے ضرور رساں ثابت ہو گی۔حیرت تو اس پر بھی ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی مل بیٹھ کے اس بات کا تعین نہیں کر سکیں کہ انتخابات کب ہوں گے،حالانکہ انہیں اس کے لئے اپنی حتمی رائے سامنے لانی چاہئے تھی،لگتا یہی ہے کہ کسی خاص وجہ سے بعض سیاسی جماعتیں ابھی نہیں چاہتیں کہ مستقبل قریب میں انتخابات ہوں،اس کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ انہیں فی الوقت رائے عامہ اپنے حق میں ہموار نظر نہیں آ رہی اور وہ سمجھتی ہیں کہ تحریک انصاف کی عوام میں مقبولیت موجود ہے، فوری انتخابات ہوئے تو اُن کے نتائج منفی برآمد ہوں گے۔
پچھلے16ماہ سے اقتدار میں رہنے والی جماعتوں کو ایسا سوچنا بھی چاہئے،کیونکہ اس عرصے میں عوام کے حق میں کوئی ایک فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا،اب تو یہی لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) اقتدار میں اسی لئے آئی تھیں کہ اپنے سارے کیسز ختم کرا سکیں،ایسے قوانین بنا سکیں جن کی بدولت اُن کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں،آخر وقت تک جتنی بھی قانون سازی کی جاتی رہی، اُس میں عوامی مفاد کا کون سا کام ہوا ہے،کوئی باخبر ہے تو بتائے،سارے قوانین ایک خاص مقصد کے تحت منظور کرائے جاتے رہے۔ اِن16ماہ میں جتنی قانون سازی ہوئی اُتنی تو پورے پانچ برسوں میں نہیں ہوئی۔ یہ لوٹ سیل اسی لئے لگی کہ قومی اسمبلی میں کوئی اپوزیشن موجود نہیں تھی اور پندرہ پندرہ ارکان اسمبلی نے بھی بلوں کی منظوری دی۔یہ ایک طرح سے جمہوریت کے ساتھ مذاق بھی تھا،مگر کیا جاتا رہا۔اس سب کے باوجود ان اتحادی جماعتوں میں اتنی جرأت نہیں کہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ہی کرا سکیں،اُس کے لئے بھی انہوں نے آخری وقت پر نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی منظوری دے کر انتخابات کے آئینی مدت میں انعقاد کو ناممکن بنا دیا۔یہ سیاسی سوچ اس سیاسی سوچ سے یکسر مختلف ہے جو آج سے پانچ سال پہلے اُس وقت سیاسی جماعتوں میں موجود تھی، جب اسمبلی اپنی مدت پوری کر رہی تھی اُس وقت تمام سیاسی جماعتوں کا بیانیہ یہ تھا کہ انتخابات آئین کے مطابق وقت ِ مقررہ پر ہونے چاہئیں اور نگران سیٹ اپ کو90 دنوں سے ایک دن بھی آگے نہیں جانا چاہئے۔سیاسی جماعتوں کو تو آئین کے اندر رہتے ہوئے روایات کا تحفظ کرنا چاہئے،مگر اس بار اس کے برعکس دیکھنے میں آ رہا ہے جو جمہوری نقطہ ئ نظر سے ایک مایوس کن بات ہے، وقت گزرے گا تو یہ خدشات سر ابھاریں گے کہ انتخابات غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی نہ کئے جاتے رہیں، تیر کمان سے نکل جائے تو پھر اُس کی مرضی ہوتی ہے کسے جا کر لگے۔اس وقت سیاسی جماعتوں کا کوئی واضح اور دو ٹوک بیانیہ موجود نہیں،حالانکہ آمروں کے ادوار میں بھی جمہوری قوتیں کم از کم اس بیانیے پر متحد رہی ہیں کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔اب اسی بات کو حالات کے رحم و کرم اور نگران سیٹ اپ کی صوابدید پر چھوڑا جا رہا ہے جس کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔
