اکثر بڑے بڑے ادارے، اپنے اداروں میں مخبروں سے دیگر ملازمین کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں جو چوری چکاری کے مرتکب ہوتے ہیں
مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:174
کیا ٹیڈ آر(Ted R) کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یونیورسٹی کے حکام جے بی (Jay B) کی غیر قانونی سرگرمیوں سے آگاہ تھے اور اس معاملے کو ایک گھریلو تنازعے کے طور پر مناسب اور معقول انداز میں حل کرنے پر تیار تھے۔ جس کے باعث بے گناہ اور معصوم افراد کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچتا او ریونیورسٹی کی شہرت بھی داغدار نہ ہوتی؟
درحقیقت اکثر ادارے، مخبروں اور بھیدیوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتے ہیں جیسے اس یونیورسٹی کے حکام نے ٹیڈ کے ساتھ رویہ روا رکھا۔ اکثر بڑے بڑے ادارے، اپنے اداروں میں موجود مخبروں سے اپنے ان دیگر ملازمین کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں جو چوری چکاری کے مرتکب ہوتے ہیں، ادارے کی کاروباری سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح ادارے کی کاروباری سرگرمیوں کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افرادی قوت کے معاملات سے منسلک ایک خاتون افسر نے اپنے ادارے کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ”ہم کسی بھی ایسی سرگرمی یا کسی بھی فرد کے ایسے قدم کو نظر انداز نہیں کرتے یا اس سے درگزر نہیں کرتے جو ادارے کے لیے نقصان دہ ہو۔ جب کوئی ملازم ہماری نظر کے لحاظ سے کوئی غلط رویہ اپناتا ہے تو پھر ہم اس کی مکمل تحقیق اور چھان بین کرتے ہیں اور پھر جو ملازمین قصور وار اور مجرم ثابت ہوتے ہیں، ان سے فوری طور پر نمٹا جاتا ہے۔ لیکن جو شخص ادارے کے راز منظر عام پر لے کر آتا ہے، وہ بھی کسی نہ کسی طرح، کسی بھی قسم کی سزا کا مستحق ہوتا ہے، یا تو اس کی ٹرانسفر کر دی جاتی ہے یا اسے اپنی موجودہ ذمہ داریوں سے تنزل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یا پھر اسے ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔
اس خاتون افسر نے اپنی مؤقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ”ہم ہر وقت اپنے ادارے کے حالات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، اس لیے کسی بھی قسم کی پریشان کن صورت حال، ہماری نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ پھر ہم اس مسئلے کو زیادہ سے زیادہ ممکنہ طور پر مثبت اور تعمیری انداز میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ادارے کے راز افشاء کرنے والے یا گھر کے بھیدی کسی شخص کو ہم کسی بھی حال میں یا کسی بھی قیمت پر نہ تو مالی انعام کے ذریعے اور نہ ہی بہتر حالات کار کے ذریعے فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہ ہی اسے کبھی اس کے موجودہ عہدے سے اعلیٰ عہدے پر ترقی دیتے ہیں۔ جہاں تک ادارے کے انتظامی معاملات کا تعلق ہے، مخبری، محض ایک انتظامی خود کشی ہے۔“
جنیفر وائی کی مثال:
کافی عرصہ قبل، جنیفر (Jennifer) کی شادی کانگریس کے ایک رکن کے ساتھ ہوگئی۔ ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے، کانگریس کے اس رکن نے بہت زیادہ شہرت و طاقت حاصل کر لی اور جنیفر پر بھی ہر طرف سے تعریف و تحسین کی بارش ہونے لگی۔ واشنگٹن کی تیز رفتار زندگی کی قباحتوں سے دور رہ کر اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے لیے جنیفر اپنے بچوں کو دیہاتی علاقے میں واقع ایک مکان میں لے گئی اور کانگریس کا وہ رکن ہر ہفتہ واری تعطیل پر اپنے بیوی بچوں کے پاس آجاتا۔
پھر ایک پریشان کن صورت حال پیدا ہوگئی۔ایک اخباری نامہ نگار نے یہ افواہ اڑا دی کہ کانگریس کا یہ رکن ایک دوسری خاتون کے ساتھ دلچسپی لے رہا ہے۔ اس نامہ نگار نے یہ بھی لکھا کہ کانگریس کا رکن ایک وفادار خاوند اور بہت ہی اچھا باپ ہے اور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ بہت محبت کرتا ہے لیکن واشنگٹن میں موجودگی کے دوران کبھی کبھار اس خاتون کے پاس بھی جاتا ہے جس کے ساتھ اس کے خفیہ تعلقاتِ عشق قائم ہیں۔ درحقیقت یہ تمام داستان، محض ایک افسانہ اور من گھڑت کہانی تھی۔ اس نامہ نگار کا مقصد یہ تھا کہ اس رکن کانگریس کی شہرت کو داغدار کر دے اور بلیک میلنگ کے ذریعے رقم حاصل کرے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔