جماعت اسلامی کا دھرنا اور عوام کی فتح
پاکستان میں اگر منظم جمہوری اور نظریاتی سیاسی مذہبی جماعتوں کی بات کی جائے تو جماعت اسلامی کا نام سرفہرست ہو گا، شاید جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جو جمہوری بنیادوں پر قائم ہے اس کی اعلیٰ سے ادنیٰ قیادت بھی جمہوری طریقے سے منتخب ہوتی ہے یہاں نہ صرف تربیت کا باقاعدہ نظام استوار ہے،بلکہ کڑے احتساب کا بھی سسٹم موجود ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک جماعت اسلامی کو کسی قسم کے مالی یا اخلاقی سکینڈل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی کے اراکین جو اس جماعت کا مرکز و محور ہی نہیں، بلکہ اصل ہوتے ہیں اچھی شہرت کے حامل ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی ممبر شپ یعنی رکنیت ہر خاص و عام کے لئے نہیں ہوتی، کمیونسٹ پارٹی کی طرح اس کا ممبر بننے کے لئے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور تمام مراحل میں کوالیفائی کر کے ہی جماعت کا رکن بنا جا سکتا ہے،رکنیت قول و فعل کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی فرد کو جماعت کا رکن بنا ڈالتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے ایک دفعہ جماعتیہ بننے کے بعد فرد ساری زندگی جماعتیہ ہی رہتا ہے۔ جماعت اس کے قلب و فکر میں ایسی سرائیت کر جاتی ہے کہ بس پھر رہے نام اللہ کا۔
جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کی فکر کا نتیجہ ہے لیکن یہ مولانا مودودیؒ کی میراث نہیں ہے نہ فکری طور پر اسے مولانا کے خاندان سے جوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر مولانا مودودیؒ کی میراث ثابت ہوئی ہے۔ جمہوری اسلامی شورائیت کے طور پر یہاں قیادت منتخب ہوتی ہے ہم نے کچھ ہی عرصہ پہلے تک سراج الحق کی امارت کی گونج سنی، دھرنے میں دیکھا کہ سراج الحق ایک کارکن کے طور پر نئے امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔کبھی قاضی حسین احمد مرحوم کی امارت کا ڈنکا بجتا تھا اسی طرح مولانا مودودیؒ کی حیاتِ سعید کے دوران میاں طفیل محمد امیر جماعت منتخب ہوئے تھے گویا اگر کسی سیاسی جماعت کو خالصتاً جمہوری اصولوں پر پرکھنا ہے تو جماعت اسلامی ہی اس کسوٹی پر پوری اترے گی۔ویسے جماعت اسلامی اپنے آپ کو عرفی معنوں میں مذہبی جماعت نہیں کہتی، انہیں دینی جماعت کہلانے پر اصرار ہوتاہے،کیونکہ اسلام روایتی معنوں میں مذہب نہیں ہے یہ ایک کامل ضابطہ حیات اور دین ہے۔یہی وجہ ہے کہ جماعت کے وابستگان چاہے وہ متفقین کے درجے پر ہوں یا کارکن، انہیں جماعت کی قیادت پر یقین کامل ہوتا ہے اور وہ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مالی ایثار بھی کرتے ہیں اور وقت بھی دیتے ہیں۔جماعت اسلامی کی سماجی، دینی اور تعلیمی خدمات کا ذکر شروع کیا تو بات بہت آگے چلی جائے گی اس لئے بات کو صرف حالیہ14 روزہ دھرنے تک محدود رکھنے میں ہی عافیت ہے۔
پاکستان کی معیشت طویل نالائقیوں، کج رویوں اور دیگر عوامل کے باعث جان بلب ہو چکی ہے ہمارے کئی ہمدرد ممالک نے ہماری مدد کرتے رہنے سے بھی معذرت کر لی ہے۔اب ہم اندرونی قرضے کی بھرمار اور عالمی اداروں کے کڑی شرائط پر حاصل کردہ قرض پر چل نہیں رہے،بلکہ رینگ رہے ہیں۔آئی ایم ایف ایک ایک ڈالر قرض کے بدلے100،100 ڈالر کی شرائط منواتا ہے ہم پہلے آئی ایم ایف اور دیگر یہودی اداروں کو بُرا بھلا کہتے تھے اور اپنے مسائل کے لئے انہیں ذمہ دار گردانتے تھے لیکن ابلاغ کی سہولیات کے فروغ اور معلومات کے افشاء کے ذریعے پتہ چلا کہ اصل قصور ہمارے ظالم حکمرانوں اور اشرافیہ کا ہے،جنہوں نے صرف اور صرف اپنی نااہلیوں اور ذاتی مفادات کے لئے قوم کو ظالمانہ اور جابرانہ بجلی معاہدوں میں جکڑا۔ناانصافی پر مبنی ان معاہدوں نے انرجی سیکٹر میں ایسا عدم توازن پیدا کر دیا ہے کہ اس کے منفی بلکہ ہلاکت انگیز اثرات عوام کی برداشت سے باہر ہو گئے ہیں۔کیپسٹی چارجز کی ادائیگی کی شرط ایسی احمقانہ اور غیر منصفانہ شرط ہے کہ جس کا کسی طور بھی دفاع نہیں کیا جا سکتا، ہزاروں کروڑ روپے ایسے بجلی گھر مالکان کو دیئے جا رہے ہیں،جنہوں نے عرصہ ہوا ایک یونٹ بھی بجلی مہیا نہیں کی،درجنوں بجلی گھرایسے ہیں جو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہو چکے ہیں،لیکن معاہدوں کی شرائط کے مطابق انہیں بھی کروڑوں روپے کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔عوام کو کہا جا رہا ہے کہ ان معاہدوں کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ انہیں ساورن گارنٹیاں دی گئی ہیں،اگر ان معاہدوں کو منسوخ کیا گیا تو وہ انٹرنیشنل کورٹ میں چلے جائیں گے اور پاکستان پر بھاری جرمانے عائد ہو سکتے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ جو پلانٹ بجلی مہیا کرنے سے ہی قاصر ہو چکے ہیں انہیں بجلی سپلائی کرنے کا تو کہا جا سکتا ہے پھر جب وہ بجلی سپلائی نہ کر سکیں تو انہیں معاہدہ کی خلاف ورزی کی شک کے تحت، رقوم کی ادائیگی روکی بھی جا سکتی ہے اور ان کے معاہدوں پر خط ِ تنسیخ بھی پھیرا جا سکتا ہے۔ بھلا ہو جماعت اسلامی کے قائد حافظ نعیم الرحمن کا جنہوں نے عوام کی اس مہیب مصیبت کا ادراک کرتے ہوئے عوامی مسائل کو زبان دی اور شاباش ہے ان جماعتی کارکنان مرد و خواتین کو جنہوں نے حبس اور گرمی کے اس جہنم میں بھی 14روز تک دھرنا دے کر حکمرانوں کو اِس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالنے کی طرف آئیں، پہلے تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، حکومتی وزیر خزانہ جن کا اس ملک کے عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ کئی مرتبہ برملا کہہ چکے کہ ٹیکس تو دینے ہی پڑیں گے۔گویا اصلاح احوال کا کوئی پروگرام نہیں ہو گا،عوام پر بھاری بھر کم ٹیکس پر ٹیکس ٹھونسے جا رہے ہیں اور عوام کو وہ دینا ہی ہوں گے۔ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے میں تو قطعاً ناکام ہو چکی ہے اس لئے بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے اور پہلے سے بھی ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید ٹیکس لگا کر معاملات کو آگے بڑھانے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں، تنخواہ دار طبقہ اس ظلم کا سب سے بڑا شکار بنا ہے۔اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کا جنہوں نے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے اور مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لئے آواز اٹھائی۔26جولائی کو عظیم الشان تحریک کا آغاز کیا جس کا پہلا مرحلہ گزشتہ روز14روزہ دھرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔حکمرانوں کو عوامی مشکلات کا حل تلاش کرنے کا وعدہ کرنا پڑا، چودہ روزہ دھرنے کے دوران بات چیت کے چار ادوار ہوئے۔بالآخر حکومت کو جماعت اسلامی کی طرف سے پیش کردہ عوامی مطالبات کے آگے سرنگوں ہونا پڑا۔معاملات وعدہ وعید پر نہیں،بلکہ طے شدہ لائحہ عمل پر طے ہوئے ہیں ٹائم لائن بھی بیان کر دی گئی ہے، عوامی مشکلات کو نہ صرف تحریری مطالبات کی شکل دیکر جماعت اسلامی نے ایک اہم کام کیا،بلک ان کے حل کے لئے تحریری معاہدہ کر کے عوام کو اُمید بھی دلا دی ہے کہ ان کی مشکلات کا مداوا ہونے جا رہا ہے۔مشکلات ختم تو نہیں ہوں گی، لیکن ان میں حتی المقدور کمی ضرور ہو گی۔جماعت اسلامی زندہ باد۔ حافظ صاحب پائندہ باد۔