نفرت نہیں ، صرف محبت!

نفرت نہیں ، صرف محبت!
نفرت نہیں ، صرف محبت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جناب من !انسانیت سے پیار اور محبت کی جوتعلیم اسلام میں دی گئی ہے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ آنحضرت ﷺ کو پروردگار عالم نے رحمة اللعالمین کے لقب سے ملقب فرمایا ۔ آپ کی ذات اقدس رحمت ربانی کی وسعتوں اور پہنائیوں کی مظہر ہے ، اپنے تو اپنے غیر بھی، بلکہ اشد ترین دشمن بھی آپ کی رحمت بے پایاں کے معترف اور گواہ نظر آتے ہیں، چنانچہ سیرة ابن ہشام جلد اول جز ثانی صفحہ نمبر 622میںلکھا ہے کہ جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے قریش سے قریب ترین چشمے کے پاس صحابہ کرام ؓ کو پڑاﺅ ڈالنے کا حکم دیا، جس پر آپ نے پڑاﺅ ڈالا تھا اس پر حوض بنا کر اُسے بھر لیا گیا۔د شمن کو جب پانی کی شدید ضرورت پڑی تو مجبوراً دشمن کے کچھ آدمی وہاں سے پانی لینے آئے تو آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ انہیں پانی سے نہ روکو اور انہیں پانی لینے دو۔ یہ ہے وہ نمونہ جو آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے ۔من حیث القوم ہمارا فرض ہے کہ پیار اور محبت کی تلوار سے سب کو گھائل کریں۔ نفرت اور دشمنی کے اس دور خرابی میں امن اور شانتی کی شمعیں روشن کریں ۔
پچھلے دنوں گجرات جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں سے کنجاہ محترم مبار ک اعوان صاحب ( ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ) کے ساتھ پہنچا۔ وہاں مقامی پریس کلب کے ممبران احسان فیصل اور اشرف بزمی سے ملاقات ہوئی ۔ دونوں ہی انسانیت اورپیار کے جذبے سے سرشار نظر آئے۔ احسان فیصل گیارہ کتابوں کے مصنف ہیں اور شریف کنجاہی جو اپنی علمی اور ادبی خدمات کے عوض صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں ،ان کے شاگرد ہیں ۔ ہفتہ وار اخبار ” کامرانیاں “ نکال رہے ہیں ۔ا ن کی علمی اور ادبی باتیں سن کر ہم بہت محظوظ ہوئے۔ بہر حال محبتوں اور چاہتوں بھری محفل کے بعد اگلے روزجب واپسی ہوئی تو گجرات میں ہمیںسڑکوں پر جوانی کے نشے میں چُور طلبہ،جو شکل سے غریب گھرانوں کے لگتے تھے ،ٹرانسپورٹرز حضرات سے لڑائی جھگڑا کرتے نظر آئے ۔ ان کے بات کرنے کا انداز ، لہجہ اور الفاظ انتہائی گھٹیا تھے۔ یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا کہ یہ مستقبل کے کیسے معمار ہیں جواپنے اصل مقام اور مرتبے سے ہی نابلد محض ہیں ۔
 اصل حقیقت یہ ہے کہ طلبہ تنظیمیں نئی نسل میں سیاسی شعور اُجاگر کرنے کے لئے بنائی گئی تھیں، تاکہ وہ معاشرے کے لئے قابل فخر اور مفید وجود کا کردار ادا کر سکیں، مگر دھونس اور سر پھٹول ہمارے طلبہ کا وتیرہ بن چکا ہے۔ اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے گستاخی اور ان کی دل آزاری کے لئے تو یہ تنظیمیں ہرگز نہیں بنائی گئی تھیں ۔ غلطیاں اور خطائیں انسانی طبیعت کا خاصہ ہیں اور اساتذہ سے بھی کسی غلطی کا سرزد ہونا کوئی امر محال نہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے گستاخی کا مظاہرہ کیا جائے ، ان پر تشدد کیا جائے اور انہیں اپنے کئے کا خمیازہ ان کے اپنے ہی شاگردوں کے ہاتھوں بھگتنا پڑے۔جیسا کہ پچھلے دنوں پنجاب یو نیورسٹی میں جو واقعہ پیش آیا کہ طلبہ نے اپنے ہی اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یقینا یہ بات انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے ،یقینا قوم کے ان ”سپوتوں “ کے اس ” کارنامے “ پر ہر درد مند دل آہیں بھرتا نظر آتا ہے۔ ہم پر بھی بعض دفعہ اساتذہ بغیر کسی وجہ کے سختی اور درشتی کا مظاہرہ کردیتے تو ہم نے تو کبھی ان کی اس طرح ” گو شمالی “ نہیں کی، جیسے ہمارے بعض شریر نفس طالب علموں نے پنجاب یونیورسٹی میں کیا، بلکہ ہمیشہ اپنی بھڑاس اور غصہ ”قہر درویش برجان درویش “ کے مصداق اپنی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنا کر نکالا اور یہی زندہ دل قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔
 اس ضمن میں جب ہم مجموعی طور پر اپنی قوم کی حالت دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے رواداری اور تحمل ، ایثار اور قربانی، پیار اور محبت معدوم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اس لئے تمام لوگوں کا فرض ہے ، خاص طور پر ہم قلمکاروں کو چاہئے کہ انسانیت سے الفت اور محبت کے ترانوں کو عام کریں، تاکہ عدم برداشت اور استحقار کی ساری فرعونیت غرق دریائے نیل ہو جائے۔ اس ضمن میں ہمارے حکمرانوں کا خاص فرض بنتا ہے کہ قوم کے اندر اتحاد اور یکجہتی پیدا کریں۔ عمران خان کے دھرنوں کا آج کل جو غلغلہ ہے۔ یہ چیز بھی اہل دانش کے نزدیک ملکی مفاد کے لئے درست نہیں کہ ملک اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے اور طوائف الملوکی کا شکار ہے ، ہڑتالیں اور دھرنے وغیرہ عوام کے اندر ہیجانی کیفیات کا باعث بنتے ہیں ، اس طرح کی ہیجانی کیفیات سے قوم میں بجائے تعمیری سوچ پیدا ہونے کے ذہنی انتشار کی حالت پیدا ہوتی ہے ، جس سے افرا تفری اور بے چینی جنم لیتی ہے جو ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے سَم قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی زعماءاپنے اندر ایک ٹھہراﺅ اور سکون پیدا کریں کہ کسی بھی ملک کے افراد کی انفرادی اور اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے لئے ذہنی سکون اور ٹھہراﺅ خشت اول کی حیثیت رکھتے ہیں، بہرحال اس وقت تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک کنفیوزڈ (Confused)قوم ہیں ۔ صحیح اور مناسب راستوں کا تعین، گویا ہمارے لئے عقدہ¿ لاینحل اور چیستاں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ ہر طرف نفرتوں کے سانپ منزل کی طرف جانے والے راستوں پر پھن پھیلائے کھڑے ہیں،یہی نفرتیں ہیں جو کبھی مذہب کے نام پر پھیلائی گئیں تو کبھی قومیت کے نام پر۔ کبھی صوبائیت کے نام پر تو کبھی لسانیت کے نام پر ،غرضیکہ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور نجانے کب یہ سلسلہ ختم ہو گا؟
 اس ضمن میں جب ہم سوشل میڈیا پر جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ اپنے حکمرانوں کے بارے میں ایسی بیہودہ باتیں کرتے اور لکھتے نظر آتے ہیں، جن کو بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ یہ طریقہ ہرگز ہرگز زندہ دل اقوام کا نہیں ہوتا کہ اپنے زعماءپر بہتان لگائیں اور من گھڑت باتیں ان کی طرف منسوب کریں، یہ تو جاہل ، بزدل اور شرپسند عناصر کاکام ہوتا ہے ، ایسے افراد میں اخلاقی جرا¿ت کی کمی ہوتی ہے ۔ اسلام تو واضح طور پر تعلیم دیتا ہے کہ تمہیں ہر قوم کے اشراف کی تکریم کا شیوہ اختیار کرنا چاہئے، چہ جائیکہ کچھ لوگ اپنے ہی اشر اف اور بڑے لوگوں پر کیچڑ اُچھالیں اور ان کی کردار کشی کو اپنا وتیرہ بنائیں۔ جب ہماری قوم کی اخلاقی حالت کا معیار ایسا ہو گاتو ہم من حیث القوم کس طرح ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں ۔
جناب من! آخر میں علمائے کرام سے عاجزانہ گزارش ہے کہ عوام کے درمیان باہمی اخوت ، بھائی چارہ ، امن و شانتی اور محبت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں کہ فرقہ واریت کا زہر ہمارے معاشرے میں نفوذ کر چکا ہے اور اس ضمن میں تغافل شعاری ” تا تریاق از عراق آوردہ شود ، مار گزیدہ مردہ شود “ کے مصداق تباہ کن ثابت ہو گی۔ اس لئے بجائے جزوی اور فروعی مسائل پر باہم دست و گربیان ہونے کے رواداری ، مساوات ، چشم پوشی اور عفو و درگزر کا طریقہ اختیار کریں کہ اسی میں پاکستان کی بقا اور خوشحالی کا راز مستور اور مضمر ہے ۔ اس لئے ”رحماءبینھم“ کے مصداق پیار اور صرف پیار کو اپنائیں :
اوروں کے لئے جو رکھتے ہیں پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے

مزید :

کالم -