اقوام متحدہ کی انسانی بحرانوں سے نمٹنے کیلئے 16بلین ڈالر سے زائد امداد کی اپیل
جنیوا (آن لائن)اقوام متحدہ نے آئندہ برس انسانی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے سولہ بلین ڈالر سے زائد امداد کی اپیل کی ہے۔ اس امداد کا بیشتر حصہ وسیع پیمانے پر پھیلے تنازعوں کے شکار افراد کی مدد کے لیے خرچ کیا جانا ہے۔اقوام متحدہ نے اس حوالے سے 16.4 بلین ڈالر کی اپیل کی ہے جو 2015ء میں دنیا کے مختلف خطوں میں عدم تحفظ کے شکار افراد کی مدد کے لیے درکار ہے۔یہ اپیل انسانی بحرانوں کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کی سربراہ ویلیری آموس نے جنیوا میں لانچ کی۔ انہوں نے کہا: ’’لوگ ہماری امدادی کوششوں کا مرکز رہیں گے اور ہم مؤثر اور تیز تر کارروائیوں کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ بڑھتے ہوئے تنازعے اقوام متحدہ کی امدادی کارروائیوں کی صلاحیت کو متاثر کر رہے ہیں۔پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر انٹونیو گْٹیریس کا کہنا ہے کہ انسانی بحرانوں کے لیے درکار مدد کی سطح میں غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’انسانی امداد کے حوالے سے یہ معمولی بات نہیں رہی۔ مزید مدد کے بغیر مختلف خطوں میں تنازعوں کے باعث مشکلات کے شکار لوگوں کی مدد کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔‘‘خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس پیسے سے ان 57.5 ملین افراد کی مدد کی جائے گی جو انسانی بنیادوں پر مدد کے مستحق ہیں۔ خیال رہے کہ 2014ء پرتشدد تنازعوں کی وجہ سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔عراق، شام، جنوبی سوڈان اور وسطی افریقی جمہوریہ کے بحرانوں کے باعث پناہ گزینوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ اس گلوبل فنڈنگ کی اپیل کا ستّر فیصد انہی ملکوں کے مشکل میں گِھرے لوگوں کی مدد کے لیے درکار ہے۔خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق رواں برس پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد گزشتہ بیس برس کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کو ہے۔اس اپیل کے تحت جن دیگر ملکوں میں لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے ان میں افغانستان، عوامی جمہوریہ کانگو، میانمار، فلسطینی علاقے، صومالیہ، سوڈان، یوکرائن اور یمن شامل ہیں۔
رواں برس بین الاقوامی ڈونروں نے اپیل کا محض نصف ہی فراہم کیا تھا۔ سال کی ابتدا میں تقریبا تیرہ بلین ڈالر درکار تھے جبکہ آخر تک یہ ضرورت تقریبا اٹھارہ بلین ڈالر کو پہنچ گئی تھی۔ تاہم ڈونروں سے نو اعشاریہ چار بلین ڈالر ہی موصول ہوئے تھے۔