ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت

عمران خان کی طرف سے پلان سی کے اعلان پر مَیں نے کالم لکھتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا نتیجہ سوائے انتشار کے کچھ نہیں نکلے گا۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کی بے تدبیری کے باعث یہ پلان حسب توقع انتشار کو جنم دے رہا ہے۔ فیصل آباد میں جو کچھ ہوا، وہ افسوسناک تو ہے ہی، مگر اسے عملی شکل دینے میں مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنماؤں نے کوئی کسر اٹھا نہیں اٹھا رکھی۔ یہ بات نجانے حکومت اور اس کے حامیوں کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہنگامہ آرائی ہو یا انتشار اس کا فائدہ ہمیشہ اپوزیشن کو ہوتا ہے۔ بالفرض فیصل آباد پُرامن طور پر بند ہو جاتا۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کارکن آمنے سامنے نہ آتے، کشیدگی نہ بڑھتی، فائرنگ نہ ہوتی، کارکن جاں بحق نہ ہوتا، تو کیا ہونا تھا۔ اگلے دن بات پرانی ہو جاتی اور عمران خان اگلے شہر کا رخ کرتے۔ یہ بالکل اسی طرح کی صورت حال ہوتی، جیسے شہر در شہر جلسوں اور پچھلے چار ماہ سے جاری دھرنے میں پیش آتی رہی ہے اور جس کا حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
مگر اس کی بجائے نجانے کیوں دوسرا راستہ اختیار کیا گیا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن زبردستی دکانیں اور بازار بندکرا رہے تھے، اس لئے ہنگامے ہوئے۔ کاش یہ بات اس وقت کی جاتی جب تحریک انصاف کو فری ہینڈ دیا جاتا اور کوئی پتھر بردار فورس نہ کھڑی کی جاتی۔ تب میڈیا دکھاتا کہ فیصل آباد بند نہیں ہوا، بلکہ اسے بند کرنے کے لئے تحریک انصاف نے غیر قانونی ہتھکنڈے اختیار کئے۔ عمران خان کو تو اس سارے عمل کا بہت سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے فیصل آباد میں کارکن کی ہلاکت کے بعد پورے ملک میں احتجاج کی کال دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام آباد،کراچی، لاہور، ملتان اور دیگر شہروں میں سڑکیں اور بازار بند ہو گئے۔ یہ گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ عمران خان پاکستان بند کرنے کی جو بات کرتے ہیں، اس پر عملدرآمد بھی کرا سکتے ہیں۔ فیصل آباد میں جو کچھ ہوا، اس کے اثرت پلان سی کی مزید کامیابی کا باعث بنیں گے۔ کراچی اور لاہور کو بند کرنے کی کال زیادہ موثر ثابت ہوگی، کیونکہ اس واقعہ کی وجہ سے ایک طرف حکومت دفاعی پوزیشن پر آ گئی ہے، دوسری طرف لوگ بھی ہنگامہ آرائی کے خدشے کی وجہ سے دکانیں اور بازار نہیں کھولیں گے۔سیاست ایک بہت اہم کھیل ہے، اسے اندھوں کی طرح نہیں کھیلا جا سکتا۔ حکومت میں رہ کر اگر آپ یہ حکمت عملی بناتے ہیں کہ اپنے حامیوں کے ذریعے اپوزیشن کی تحریک کو غیر موثر بنا دیں گے تو گویا آپ جلتی پر تیل ڈال رہے ہوتے ہیں۔اس کا براہ راست فائدہ اپوزیشن کو ہوتا ہے اور اس کا اگر مردہ بھی ہو تو اس میں جان پڑ جاتی ہے۔یہاں تو ایک زندہ تحریک ہے، جو پوری سٹریٹ پاور کے ساتھ جاری ہے۔اس تحریک کو روکنے کے لئے جتنے بھی سیاسی راستے اختیار کئے جائیں گے، وہ اسے مزید طاقت تو دے سکتے ہیں، کمزور نہیں کر سکتے۔
مَیں اس بات پر حیران ہوں کہ ملک میں ایک معمولی ایشو سے شروع ہونے والا احتجاج رفتہ رفتہ ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیا اس میں صرف عمران خان کی مقبولیت اہم کردار ادا کر رہی ہے یا اس کی کامیابی میں حکومت کا بھی کچھ ہاتھ ہے۔ اب اس بات کو تو ایک زمانہ تسلیم کررہا ہے کہ حکومت نے بروقت فیصلے نہ کرکے حالات کو بگاڑ کی طرف دھکیلا ہے۔ مستقبل کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلے کرنے کی بجائے وقتی سوچ کے تحت فیصلے کئے گئے اور اب بھی کئے جا رہے ہیں۔آج بوتل سے جن باہر آیا ہوا ہے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ اسے واپس بوتل میں کیسے بندکیا جائے، لیکن اس وقت کچھ نہیں سوچا گیا، جب عام سے مطالبات کو پس پشت ڈالا جا رہا تھا۔ حکومت چار حلقے کھولنے کا مطالبہ بھلے پورا نہ کرتی، تاہم اس پر گفتگو اور مذاکرات کا آغاز تو ہو سکتا تھا۔ ممکن ہے اس کا کوئی دوسرا راستہ نکل آتا، مگر ایک صریحاً انکار کی صورت حال نے حالات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دیا۔ حکومت کی سب سے بڑی بے تدبیری یہ ہے کہ اس نے شکایت کنندہ کو مطمئن کرنے کی بجائے ان سیاسی قوتوں کو ساتھ ملانے پر توجہ مرکوز کر دی جو موجودہ حالات میں خود تحریک کی زد میں ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے زیادہ توجہ تحریک انصاف سے معاملات بہتر بنانے پر دی جاتی، مگر اس کی بجائے دیگر سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر یہ محاذ آرائی شروع کر دی گئی کہ سارے فساد کی جڑ عمران خان اور تحریک انصاف ہیں۔آج بھی وزراء عمران خان کو فسادی کہتے ہیں۔ اگر آپ پہلے ہی کسی کو ایک خاص خطاب دے کر اسے اپنا حریف بنا لیتے ہیں تو بہتری کی گنجائش کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔
حکومت کا رویہ کچھ ایسا ہے کہ وہ لاٹھی سے سانپ کو مارنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ سیانے تو یہ کہہ گئے ہیں کہ اچھی حکمت عملی وہی ہوتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اگر آپ حکومت کی 18ماہ کی کارکردگی پر غور کریں تو صاف لگے گا کہ حکومت نے اپنے لئے بہت سے مسائل خود پیدا کئے ہیں، مثلاً سانحہ ء ماڈل ٹاؤن تو ایک ایسا عمل ہے کہ جس کی آج تک کوئی توجیح نہیں پیش کی جا سکی اور جس کے باعث حکومت کا سافٹ اور جمہوری چہرہ مسخ ہوا۔ غور کیا جائے تو حکومت روز بروز بحران میں الجھتی جا رہی ہے۔ اس سے نکلنے کے لئے سوائے پرویز رشید کی حالات کو مزید برانگیخت کرنے والی بیان بازی کے اور کچھ نہیں کیا جا رہا۔ وزیر اطلاعات کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ٹی وی چینلز کی لائیو کوریج میں دکھائے جانے والے مناظر کے خلاف جب وہ اپنی ’’اطلاعات‘‘ پہنچاتے ہیں تو ان کا کس قدر منفی اثر پڑتا ہے۔ایسے حالات میں کہ جب کوئی شخض سڑکوں پر عوام کے ساتھ موجود ہو، زہریلے بیانات اسے فائدہ تو دے سکتے ہیں، نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
جس دن فیصل آباد میں بدامنی کی آگ لگی ہوئی تھی، اسی دن وزیر موصوف سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ وہ عمران خان کو گرفتار کیوں نہیں کرلیتے تو انہوں نے جواب دیا کہ حکومت جلتی پر تیل نہیں ڈالنا چاہتی۔ حکومت بے شک یہی چاہتی ہوگی، مگر افسوس وزیر اطلاعات یہ کام روزانہ اپنے بیانات سے کرتے رہتے ہیں، جن کا حکومت کو ایک دھیلے کا فائدہ نہیں پہنچتا، البتہ عمران خان کے حامی مزید پرجوش ہو جاتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں حکومت کی یہ حکمت عملی بھی غلط تھی کہ اس نے مذاکرات شروع کرنے کے لئے فیصل آباد احتجاج کے بعد کی تاریخ دی، حالانکہ جب یہ طے ہو گیا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پھر دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایک طرف مذاکرات شروع ہو جاتے اور دوسری طرف تحریک انصاف کو فیصل آباد میں پرامن احتجاج کی اجازت دے دی جاتی تو مجھے یقین ہے کہ شدت کا گراف اتنا بلند نہ ہوتا، جتنا اب نظر آ رہا ہے۔پھر معمول کا ایک احتجاج ہوتا اور کوئی لاش بھی نہ گرتی اور حکومت کا پلڑا بھی بھاری رہتا۔
سیاسی تحریکوں کو طاقت کے زور پر روکنے کی حکمت عملی کبھی کارگرثابت نہیں ہوتی۔ہاں یہ حکمت عملی آغاز میں کامیاب ہو سکتی ہے، جب تحریک آرگنائز ہی نہ ہوئی ہو، لیکن اس مرحلے پر کہ جب تحریک کی مقبولیت میں اضافہ ہو چکا ہو، اس کے خدوخال واضح ہو چکے ہوں، اس کی طرف عوام نے رجوع کر لیاہو اور اس میں جوق در جوق شرکت بھی کررہے ہوں، طاقت کا استعمال اسے تیز تو کر سکتا ہے، ختم نہیں کر سکتا۔ اس وقت تحریک انصاف کی اجتماعی سیاست اس مرحلے میں ہے۔ کوئی عقل کا اندھا ہی کہہ سکتا ہے کہ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت پیدا نہیں ہو رہی۔ فیصل آبادکے واقعہ نے اسے مزید پرتشدد اور تیز کر دیا ہے۔اب ایسے میں حکومت کی حکمت عملی کیا وہی ہونی چاہیے،جس پر وہ عمل پیرا ہے یا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔کیا لہجوں میں نرمی لا کر اور مذاکرات کی میز سجا کر مسئلے کا حل تلاش کیا جانا چاہیے یا پھر اپنے ڈنڈا برداروں کو سامنے لا کر اور ریاستی طاقت کے استعمال سے اسے ناکام بنانا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں حکومت کو مذاکرات کے آغاز میں دیر نہیں کرنی چاہیے، ویسے بھی جلد یا بدیر اس طرف آنا ہی پڑے گا، لیکن اگر بہت دیر ہو گئی تو شاید مذاکرات بھی ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ کی دوسری قسط ثابت ہوں۔ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے احتجاج کو پُرتشدد بنانے سے گریز کرے۔ پلان سی میں شہر بند کرنے کی حکمت عملی کو جمہوری انداز سے اختیار کیا جائے اور طاقت یا ہجوم کے فیصلوں کی بنیاد پر لوگوں کی زندگی مشکل نہ کی جائے۔ آنے والے دن بہت اہم ہیں۔ اگر حالات اسی طرح آگے بڑھتے رہے اور فریقین نے ہوشمندی سے کام نہ لیا تو جمہوریت اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔یہ بات جتنی جلد سمجھ آ جائے اتنا ہی اچھا ہے، کیونکہ حالات ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں۔