دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ، پاکستانی خاتون صحافی کے اہم انکشافات

دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ، پاکستانی خاتون صحافی کے اہم انکشافات
دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ، پاکستانی خاتون صحافی کے اہم انکشافات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

روزنامہ’’پاکستان‘‘ میں22نومبر2014ء کو ’’دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ، پاکستانی خاتون صحافی کے اہم انکشافات‘‘ کے عنوان سے ایک خبر شائع ہوئی تھی۔ یہ گویا اصل رپورٹ کا محض ایک خلاصہ تھا۔ شاید اس کے پڑھنے سے بہتوں کا بھلا ہو،اس لئے خارجہ پالیسی پر امریکہ کے ایک سنجیدہ اور معتبر جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ میں شائع ہونے والے اس مضمون کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ اس پر تبصرے کی اول تو ضرورت نہیں اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو آئندہ کسی کالم میں تبصرہ بھی ہو جائے گا۔
’’13اگست2014ء کو‘‘ پاکستان ایکسپریس ٹریبون‘‘ کی ہفتہ وار ادارتی میٹنگ میں ہمیں مذاق کے انداز میں چتاؤنی دی گئی کہ عمران(خان) طاہر (القادری) اور آئی ایس آئی ہمارے بہترین دوست ہیں اور ہمیں ان کا خیال رکھنا ہو گا۔ اس کے اگلے روز دونوں لانگ مارچ الگ الگ لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہونے والے تھے، جس کے ساتھ ہی ملک ایک طویل بحران میں مبتلا ہو گیا۔’’ہم جانتے تھے کہ یہ بات آسان نہیں ہو گی۔ (اس دوستی کا ساتھ نبھانے کی بات) لیکن اس وقت تو بس یہی کہا جا سکتا تھا اور مَیں نے وعدہ کر لیا تھا کہ مَیں بہت جلد صورت حال کو بہتر (بہتر سے مراد آئی ایس آئی کی خواہش کے مطابق بہتر ہے) بناؤں گا۔’’ یہ بات ہمارے ایڈیٹر صاحب نے کہی، جس نے یہ ہفتہ وار اجلاس خصوصی طور پر اس لئے بلایا تھا تاکہ ان دھرنوں کے سلسلے میں ادارتی پالیسی سے ادارتی عملے کو آگاہ کیا جائے۔ ان دھرنوں نے پاکستان کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ اب یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے۔
میرے سمیت سینئر ادارتی عملے نے ان احکامات کو ناگواری کے ساتھ تسلیم کیا کیونکہ احکامات چیف ایگزیکٹو (سی ای او) کی طرف سے آئے تھے اور ان احکامات سے سرتابی کرنا اپنے روزگار اور اپنے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف تھا۔ پاکستان میں میڈیا گروپ خاندانی ملکیت ہیں اور ان کے تمام فیصلے فرد واحد کے فیصلے اور من مرضی کے ماتحت ہوتے ہیں۔ خواہ ان فیصلوں کا تعلق تجارتی امور (اشتہار بازی اور مارکیٹنگ) سے ہو یا ادارتی امور سے یا پھر اپنے ذاتی مقاصد ہوں، جنہیں ایک موثر ’’مین سٹریم‘‘ میڈیا کے ذریعے آگے بڑھانے یا حاصل کرنے سے متعلق فیصلے ہوں۔ میڈیا ہاؤسز کے سی ای او (چیف ایگزیکٹوز) کی اکثریت بزنس مینوں پر مشتمل ہے، جنہیں صحافت سے کوئی لگاؤ ہے، نہ اُن کا کوئی صحافتی پس منظر ہے۔ اخباری مالکان اور پبلشرز (جو بیشتر اوقات ایک ہی شخصیت ہوتی ہے) اپنے نیوز روم کے سٹاف پر اور ایڈیٹرز حضرات پر یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ جس بات یا چیز کو ادارہ کھڈے لائن لگانا چاہے اس کی طرف جھکاؤ یا اُس کی صورت گری کی کوشش قابل قبول نہیں ہو گی۔ ایسی ہدایات کے نتیجے میں تشدد کے خلاف ایک گمبھیر سنسر شپ عائد رہتی ہے اور ادارتی عملے کو دباؤ میں رہنا پڑتا ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2014ء کے مطابق180 ممالک میں آزادئ اظہار کے حوالے سے پاکستان کا158واں نمبر ہے۔ عمران خان کے دھرنوں کے دوران مجھے اس صورت حال کا براہ راست تجربہ ہوا ہے۔ اس دوران طاقتور میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے باقاعدہ ہدایات جاری ہوئیں کہ دھرنا بازوں کی حمایت کریں۔وزیراعظم نواز شریف کو ان کی ’’حد‘‘ میں رکھنے کے لئے فوج حکومت کے خلاف پریس کی طاقت کو استعمال کر رہی تھی اور میڈیا فوج کا مرہونِ احسان تھا۔ ’’ایکسپریس میڈیا گروپ‘‘ میں دھرنا باز عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں خبر صفحہ اول کی شہ سرخی اور ہر گھنٹے کی تازہ خبر کے طور پر پیش کی جا رہی تھی۔ مَیں اس بات کی گواہ ہوں کہ جس سروے رپورٹ میں نواز شریف کی حمایت واضح تھی اسے سنسر کر دیا گیا، جبکہ احتجاج کرنے والوں کے بُرے طرز عمل اور اُن کے حمایتیوں کے ناروا طرز عمل کی خبروں کو ’’کاٹ‘‘ دیا جاتا تھا، جبکہ دوسری طرف بی بی سی اور پاکستان کا انگریزی کا صفِ اول کا روزنامہ ’’ڈان‘‘ مسلسل یہ حقیقت بیان کر رہے تھے کہ قادری کے دھرنے کے شرکاء کو باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جا رہا ہے۔ ڈان جو ’’ایکسپریس ٹریبون‘‘ کا حریف اخبار بھی ہے، مسلسل اداریوں میں فوج کی سیاست میں مداخلت پر اظہار خیال کر رہا تھا اور ہم (’’ایکسپریس ٹریبون‘‘والے) بہت خیال رکھ رہے تھے، کہ کوئی چیز فوج کے خلاف چھپنے نہ پائے۔ ہر روز مجھے کوئی نہ کوئی ایڈیٹر یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح انہیں تحکمانہ فون کالیں ہر شام موصول ہوتی تھیں، جن میں انہیں اگلے روز کے لئے ’’لیڈ سٹوری‘‘ اور مضامین کو کیا رُخ دینے کے لئے کہا جاتا تھا۔ ہمیں اس سلسلے میں پہلی اور سخت ترین ہدایت یہ ملی تھی کہ خبر میں عمران کی باتوں کو نمایاں اور بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے اور عمران خان کے نام کو شہ سرخیوں کا حصہ بنایا جائے اور عمران خان کی بڑی بڑی تصاویر لگائی جائیں۔ انہی دِنوں مالک کا اس بات پر پارہ چڑھ گیا کہ قادری کو زیادہ توجہ کیوں نہیں دی جا رہی ہے؟ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ فوج دونوں کو یکساں طور پر سپورٹ کر رہی تھی اور میڈیا سے بھی یہی کچھ کرنے کو کہا جا رہا تھا۔اگرچہ پیشہ ورانہ سطح پر ایڈیٹر اور ڈیسک ایڈیٹرز اخبار کے ویب ورژن پر دھرنا بازوں کے خلاف بعض مضامین کی رسائی دیتے رہے اور انہوں نے رپورٹروں کی تحقیق و جستجو پر مبنی مواد حاصل کرنے کی حمایت اور حوصلہ افزائی جاری رکھی،لیکن ان حالات میں جبکہ سی ای او صاحب کی مداخلت اور اسٹیبلشمنٹ کے احکامات بجا لانے کے لئے مستعدی زوروں پر تھی، تو ادارتی عملے کے لئے حوصلے بلند رکھنا بے حد مشکل کام تھا۔ یہ بات یقینی بنائی جاتی تھی کہ ’’احکامات ‘‘ براہ راست ادارتی ذمہ داروں کو نہ دیئے جائیں، بلکہ سی ای او کے ذریعے انہیں نیشنل ایڈیٹر کو پہنچایا جائے تاکہ وہ ان احکامات کو ہم تک پہنچائے۔
لوگ اکثر اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں تصادم کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں، لیکن دارالحکومت میں حالیہ سیاسی بحران کے دوران اور ’’جیو‘‘ نیوز کے سلسلے میں پیدا ہونے والی صورت حال میں یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ انتہائی قسم کے اوچھے ہتھکنڈے کھلم کھلا استعمال کر رہی ہے۔مثال کے طور پر کیبل آپریٹرز پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ ’’جیو‘‘ کی نشریات کو بند کر دیں اور ’’جیو‘‘ کے کاروباری رقیبوں کو ’’جیو‘‘ کے خلاف خبریں لگانے کے لئے کہا جا رہا تھا۔اس معاملے میں میڈیا اور فوج ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑی تھی اور ایک دوسرے سے قریبی تعاون جاری تھا۔اکثر معاملات میں یہ بات دیکھنے میں آئی کہ بہت بھاری بھر کم اینکرز کے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بہت گہرے روابط ہیں۔ ایسے اینکرز براہ راست احکامات وصول کر کے اپنے مالکان کو بھی یہ احکامات پہنچاتے تھے اور اپنے پروگراموں میں بھی ان احکامات کے مطابق دھڑے بازی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہ اینکرز نہ صرف غلط رپورٹنگ میں ملوث پائے گئے، بلکہ مباحثوں میں منتخب جمہوری حکومت کے خلاف فضا پیدا کرنے، حتیٰ کہ جمہوریت کے خلاف پیدا کرنے میں ملوث پائے گئے۔ حکومت پاکستان کے سابق ملازمین اس سلسلے میں ’’اپنے تجربات‘‘ کے حوالے سے اُن سے مکمل تعاون اور تائید کر رہے تھے۔مجھے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ اگر ٹیلی ویژن کے اینکروں کو وزارت اطلاعات سے فنڈز نہ ملیں، تو انہیں اسٹیبلشمنٹ سے ’’مال‘‘ ملتا ہے۔اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔ 31اگست (2014ء) کو جب عمران خان اور قادری کے احتجاجی پارلیمنٹ کے اندر گھس گئے تو اے آر وائی نیوز کے اینکر مبشر لقمان نے اس موقع پر فوج کو خراج تحسین پیش کیا اور لائیو پروگرام میں باقاعدہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی دعوت دی۔ مبشر لقمان اس براہ راست پروگرام میں پارلیمنٹ اور حکومت اور جمہوریت کو بچانے کی بجائے بلوائیوں کو بچانے کے لئے فوج کو دعوت دے رہا تھا۔ اس سے قبل وہ25اگست کو فوجی بوٹوں کے ’’کھڑاک‘‘ کے حوالے سے فوج کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے پایا گیا اور یہی کافی نہیں سمجھا گیا۔ لقمان اور اُس کے بعض ساتھی اینکرز جن کے فوج اور آئی ایس آئی سے خصوصی روابط کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں، بغیر کسی تحقیق کی زحمت اٹھائے سات بلوائیوں کے مارے جانے کی خبر تواتر کے ساتھ براڈ کاسٹ کرتے رہے، جبکہ عین اُسی وقت دوسرے کئی چینل صرف تین آدمیوں کے مرنے کی خبر دے رہے تھے، جن میں سے ایک حادثے میں مارا گیا تھا اور جب تحریک انصاف کے برخاست کردہ صدر جاوید ہاشمی نے یکم ستمبر کو عوام میں آ کر یہ بھانڈہ پھوڑ دیا کہ عمران خان کس طرح فوج پر تکیہ کئے ہوئے تھا اور فوج اور عدلیہ سے امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ عدلیہ نواز شریف کی حکومت کو چلتا کر دے گی اور فوج عدلیہ کا ساتھ دے گی، اُس وقت مبشر لقمان نے جاوید ہاشمی پر ’’تبّرے بازی‘‘ کی اور اُس کے ساتھی فواد چودھری نے یہاں تک کہہ دیا کہ جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں پلانٹ کیا گیا تھا اور یہ کہ اسے خود وزیراعظم نواز شریف کے ساتھیوں نے تحریک انصاف میں پلانٹ کیا تھا۔ جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد ’’ایکسپریس ٹریبون‘‘ میں ہمیں احکامات دیئے گئے کہ فوجی ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے بیانات کو اجاگر کیا جائے، جن کے مطابق فوج اس بحران میں کوئی فریق نہیں تھی۔
(اس کے باوجود فوج کہہ رہی تھی کہ بلوائیوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے، ا۔ق) ہاشمی کے انکشافات کے جواب دینے کے لئے جب فوج کو مدافعتی صورتِ حال کا سامنا تھا تو ہم نے ایسی ہدایات دیکھیں، جن کے مطابق فوج کی اس پسپائی کو نمایاں نہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ یہ بات طے ہے کہ میڈیا کے مباحث پر ہمیشہ فوج کے اثرات رہے ہیں یا کبھی کبھار کسی طاقتور سول حاکم کے بھی رہے ہیں، لیکن جلد ہی ایسے سول حاکم کو فوج نے گھر یا جیل کی راہ دکھا دی۔ فوج کے بنیادی ڈھانچے میں جمہوریت اور جمہوری طور پر منتخب پاکستانی حکام کے خلاف ایک تعصب کی کیفیت پائی جاتی ہے اور یہ سوچ غیر ارادی نہیں، بلکہ سوچی سمجھی سوچ ہے،اسی سوچ کے تحت فوج کو جمہوریت کا بہتر نعم البدل قرار دیا جاتا ہے اور اس خیال کو پھیلایا اور تقویت دی جاتی ہے کہ جمہوریت کار گر نہیں ہے۔
دھرنوں والے بحران سے بھی پہلے اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے دورۂ بھارت کے بارے میں شہ سرخیوں اور اداریوں کے بارے میں ہدایات جاری کر رہی تھی۔ جب وزیراعظم محمد نواز شریف نے26مئی کو بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی، اُس وقت میں ’’ایکسپریس ٹریبون‘‘ میں کام کر رہی تھی، مجھے ہدایت ملی کہ مودی نواز شریف کی ملاقات کے بارے میں لیڈ سٹوری میں تبدیلی کروں اور اس میں منفی انداز اپنا کر اس بات پر زور دوں کہ سیکیورٹی معاملات کا ذکر کر کے بھارتی وزیراعظم پاکستانی وزیراعظم کا خوش دلی سے خیر مقدم نہیں کر رہے تھے۔ سی ای او نے فوج سے احکامات لے کر براہ راست مجھے ہدایات دیں کہ اس سرخی میں ’’Show Cause‘‘ کو داخل کروں۔ گزشتہ سال ’’ایکسپریس میڈیا گروپ‘‘ پر متعدد بار حملے ہوئے، کیونکہ اس نے کئی حساس معاملات اٹھائے تھے اور اس سلسلے میں بھی کوشش کی گئی کہ اداریوں اور اس سلسلے کی خبروں میں فوجی خواہشات کے مطابق حکومت مخالف نقطہ نظر کو شامل کیا جائے۔
تو یہ تھا نیہا انصاری کے مضمون کا ترجمہ جو ان دِنوں واشنگٹن ڈی سی کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں تحقیق مکمل کر رہی ہیں۔2013ء،2014ء میں وہ کراچی میں ایکسپریس ٹریبون کے نیشنل ڈیسک پر سینئر سب ایڈیٹر اور شفٹ انچارج کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ ان کا یہ مضمون فارن پالیسی کی ویب سائٹ پر ’’Not Fit To Print‘‘ پاکستان کی سنسر شپ کی اندرونی کہانی کے عنوان سے پڑھا جا سکتا ہے۔

مزید :

کالم -