توانائی کا بحران اور پی ایس او کی مشکل!
ایک طرف لوڈشیڈنگ مسئلہ بنی ہوئی ہے اور نجی ادارے بجلی کی پیداوار میں کمی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سرکلر ڈیٹ بتائی جا رہی ہے، جو پھر سے 400ارب سے بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف یہ مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، کیونکہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں نے پاکستان سٹیٹ آئل کے255ارب روپے سے زیادہ کے واجبات دینا ہیں اور کچھ ایسی ہی صورت حال سرکاری اداروں کی ہے، جن میں پی آئی اے بھی شامل ہے، اس کے ذمہ بھی اربوں کے واجبات ہیں، جن کی وصولی نہیں ہو رہی۔
خبر ہے کہ پاکستان سٹیٹ آئل بہت مشکل میں ہے اسے تیل کی درآمد کے لئے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں مشکل پیش آ رہی ہے، حکومت نے عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے بعد ملک میں بھی نرخ کم کر دیئے اور آئندہ ماہ سے مزید کمی کا عندیہ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ایس او کوا س مشکل سے نکلنے کے لئے فوری طور پر100ارب روپے درکار ہیں اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے توانائی کے بحران کے حوالے سے میٹنگوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کے مطابق پی ایس او حکام وزیراعظم کو اس صورت حال سے آگاہ کریں گے تاکہ اس مشکل کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے اور ملکی ضرورت کے مطابق پٹرولیم مصنوعات بھی درآمد ہوتی رہیں۔
وزیراعظم نے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے ذاتی دلچسپی لی ہے تو ان کو ایسے حقائق کا بھی علم ہو گا جو ان کو براہ راست نہیں بتائے جاتے اور ایک محکمے سے دوسرے محکمے کی خط کتابت تک محدود رہتے ہیں۔ یقیناًوزیراعظم ان حقائق کا پتہ چل جانے پر کوئی حل بھی نکالیں گے اور تیل کی درآمد میں رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی۔ یہ بھی مسئلے کا عارضی حل ہو گا ، حقیقی حل تو یہ ہے کہ جس نے جس کو ادائیگی کرنا ہے وہ اسے کرے تاکہ یہ مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کے واجبات بھی تبھی ادا ہوں گے جب بجلی استعمال کرنے والے صوبے، علاقے اور محکمے ادائیگی کرتے رہیں گے اور یہی حالات پی ایس او کے لئے بھی ہیں کہ پی ایس او کو بھی بروقت ادائیگی ہو گی تو تمام معاملات درست طور پر چلیں گے، وزیراعظم کو خصوصی توجہ دینا ہو گی۔