پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کا حکم
سپریم کورٹ نے پنجاب اور سندھ حکومت کو بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں ایک ماہ کے اندر مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ نے الیکشن کمیشن کو ہدایات کی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے لئے سندھ اور پنجاب میں حد بندیوں کا عمل جلد مکمل کر لیا جائے جبکہ دونوں صوبائی حکومتوں کو الیکشن کمیشن سے تعاون کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل اکرم شیخ نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تاخیرنہیں کی جائے گی۔کنٹونمنٹ علاقوں میں انتخابات سے متعلق قانون کا مسودہ حکومت نے تیار کر لیا ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے بنائے ہوئے سٹی ڈسٹرکٹ نظام کے تحت آخری بلدیاتی انتخابات 2005ء میں ہوئے تھے، جن کی مدت 2009ء میں ختم ہو گئی، اس دوران 2008ء میں عام انتخابات ہوئے جن کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پائیں، لیکن ان حکومتوں کے پورے پانچ سالہ دور میں کسی بھی صوبے میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے، پہلے تو وہ قانون ہی متنازعہ بنا دیا گیا، جس کے تحت دو مرتبہ (2001ء اور 2005ء) شہری حکومتیں تشکیل پائیں، جنرل (ر)پرویز مشرف نے یہ نظام بڑی سوچ بچار کے بعد متعارف کرایا تھا اور اس میں ان کے خیال میں ایسی بہت سی باتیں تھیں جو بلدیاتی نظام کو نئی کامیابیوں سے ہمکنارکر سکتی تھیں، لیکن جنرل پرویز مشرف کے بعد آنے والی نئی حکومتوں نے اس سارے سسٹم کا تیاپانچہ کر دیا، اسے جاری نہیں رکھنا تھا تو اس کا متبادل کوئی بہتر نظام لایا جا سکتا تھا، لیکن پرانا نظام تو ختم کر دیا گیا اور نیا لایا نہیں گیا یوں پانچ سال سے بلدیاتی ادارے انتخابات کے بغیر کام کررہے ہیں۔
دنیا بھر میں بلدیاتی نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اور نتیجے کے طور پر لوگوں کے شہری مسائل ان کے دروازے پر حل ہوتے ہیں۔کسی کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں، متعلقہ بلدیاتی ادارے خود تمام مسائل پر نظر رکھتے ہیں اور جہاں کہیں کوئی معمولی خرابی دیکھتے ہیں، اسے فوری طور پر درست کر دیتے ہیں، نیویارک جیسے عالمی شہر میں تو پولیس کا پورا نظام شہر کے میئر کے ماتحت ہے اور میئر طاقت ور شخصیت متصور ہوتا ہے۔ بعض میئر تو صدارتی امیدوار بھی بن جاتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی کیا اہمیت اور منتخب میئروں کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو خیر بلدیاتی نظام صدیوں سے جما ہوا ہے اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری ہی آتی ہے۔ایران اور ترکی میں بھی دو منتخب میئروں نے نہ صرف اپنے ملکوں میں مقام بنایا بلکہ دونوں میئر اپنے کارناموں کی وجہ سے عالمی شخصیات بن گئے، ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد صدر منتخب ہونے سے پہلے تہران کے میئر تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا اور اسے دنیاکے بڑے بڑے نامور شہروں کا ہم پلّہ بنا دیا۔شہر کو اتنا ترقی یافتہ اور جدید بنا دیا کہ ہر کوئی اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اس لئے جب وہ صدارتی امیدوار بنے تو بطور میئر ان کی کارکردگی ان کے ساتھ تھی اور ایرانی عوام نے ان کی اسی کارکردگی کو پیش نظر رکھ کر انہیں صدارتی منصب پر بٹھا دیا، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی وزیراعظم بننے سے قبل استنبول کے منتخب میئر تھے۔ انہوں نے بھی اس پہلے سے ترقی یافتہ جدید شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا، جس کا صلہ عوام نے ان کی جماعت کو ملک کا اقتدار سونپ کر دیا۔ رجب طیب اردون وزیراعظم بنے اور اب وہ نئے آئین کے تحت صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی یہ رہی کہ بلدیاتی نظام میں تسلسل نہیں رہا اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات تواتر کے ساتھ ہوئے، جس عرصے میں یہ ادارے کام کرتے تھے اس عرصے میں بعض شہروں نے تیزی سے ترقی کی، کراچی میں قیام پاکستان کے فوراً بعدحکیم محمد احسن عباسی نے بطور میئر کراچی اپنا نقش بٹھایا، جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں ہی پہلے نعمت اللہ خان نے اور پھر مصطفےٰ کمال نے بطور سٹی ناظم کراچی کو ترقی سے ہمکنار کیا، یہ نظام چلتا رہتا تو بہت سے دوسرے شہروں کو بھی تیز تر ترقی کرنا نصیب ہو سکتا تھا، لیکن نئی حکومتوں نے انتخابات کے بعد نقش کُہن تو مٹا دیا، لیکن اپنا نیانقش جما نہ سکے، 2013ء کے انتخابات کے بعد برسراقتدار آنے والی موجودہ حکومتوں میں سے صرف بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہو سکے، لیکن یہ بھی ادھورے ہی رہے۔ یعنی کونسلر تو منتخب ہو گئے میئر اور ضلعی چیئرمین وغیرہ نہ بن سکے، باقی تین صوبوں میں اب تک الیکشن ہی نہیں ہو سکے، اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آتی رہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو ہی بالآخر اس تاخیر کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ وجوہ کچھ بھی ہوں تھوڑی بہت تاخیر تو گوارہ کی جا سکتی تھی لیکن جس انداز میں غیر معمولی تاخیر روا رکھی گئی اس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی، پھر یہ معاملہ عدالتوں میں بھی پہنچا تو بھی حکومتیں کسی نہ کسی انداز میں تاخیر کرتی رہیں، الیکشن کمیشن کو بھی بعض مشکلات درپیش رہیں اب سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ دونوں صوبوں کے الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کی بھرپور تیاری کرلیں گے اور تیاریاں مکمل کرکے نئے انتخابات کرا دیں گے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تیاریوں اور صوبائی حکومتوں کو معاونت کا جو حکم دیا ہے توقع ہے کہ اس کے بعد معاملہ تیز تر ہو گا اور اگر انتخابات کی راہ میں کوئی مشکلات حائل تھیں تو انہیں فوری طور پر دور کر لیاجائے گا۔ مقررہ مدت کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانا آئینی ضرورت ہے اور حکومتیں ان انتخابات سے پہلو تہی کرکے آئین کو نظر انداز کرنے کی مرتکب ہوتی ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ کا حکم آ گیا ہے، لیکن اس کام کے لئے تو عدالتی حکم کی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی، جس طرح عام انتخابات مقررہ مدت کے اندر ہو جاتے ہیں، اسی طرح بلدیاتی انتخابات بھی خود کار طریقے سے ہونے چاہئیں۔ توقع ہے کہ اب دونوں صوبوں کی حکومتیں اس ضمن میں کوئی تاخیر روا نہیں رکھیں گی۔