پنجاب اسمبلی کا اجلاس ،اپوزیشن اراکین کا فیصل آباد واقعہ کیخلاف احتجاج ،علامتی واک آﺅٹ

پنجاب اسمبلی کا اجلاس ،اپوزیشن اراکین کا فیصل آباد واقعہ کیخلاف احتجاج ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                   لاہور( نمائندہ خصوصی) پنجاب اسمبلی میں 16 کروڑ 75لاکھ ڈالر مالیت کی درآمد کی گئی گندم کی تحقیقات کروانے اور ذمہ داروں کو سخت سزا دینے ‘پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی فیسوں اور سہولتوں کو مانیٹرنگ کرنے کےلئے قانون سازی کے مطالبے اور یتیم بچے اور بچیوں کی ذمہ داری لینے کےلئے حکومت سے مطالبے سمیت 5قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔ منگل کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں (ن)لیگ کے رکن اسمبلی شیخ علاﺅ الدین کی جانب سے ملک میں تمام بچے بچیوں کی ذمہ داری حکومت سے خود لینے ‘(ن)لیگ کی حنا پرویز کی جانب سے پنجاب بھر میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی فیسوں اور تعلیمی سہولتوں کو ریگولیٹ اور مانیٹرنگ کرنے کے حوالے سے قانون سازی کے مطالبے ‘جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم اختر کی جانب سے زرعی زمینوں کے تحفظ کےلئے شہروں کی حدود مقرر کرنے اور پرانے شہروں کو وسعت دینے کے بجائے نئے شہروں کو آباد کرنے اور سینئر صحافی مجید نظامی کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرار داد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی جبکہ اجلاس میں (ن)لیگ کی لبنیٰ فیصل کی جانب سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول میں درپیش تمام رکاوٹوں کو ایک ہفتے کے اندر تمام امور مکمل کرنے اور (ق)لیگ کے عامر سلطان چیمہ کی جانب سے ملک میں ضرورت سے زائد گندم کی موجودگی کے باوجود 6لاکھ 46ہزار ٹن گندم درآمد کرنے کے معاملے کی مکمل انکوائری کروانے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی قرار داد بھی ایوان میں متفقہ طورپر منظور کی گئی ۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز تیس منٹ کی تاخیر سے دس بجکر تیس منٹ پر شروع ہوا۔اجلاس کی صدارت اسپیکر رانا محمد اقبال نے کی۔ اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے فیصل آباد کے سانحے پر گزشتہ روز بھی احتجاج کرتے ہوئے علامتی واک آﺅٹ کیا۔،سینئر صحافی ڈاکٹرمجید نظامی مرحوم کوخراج تحسین پیش کرنے اور ملکی ضرورت سے زائد پیداوار ہونے کے باوجود 16کروڑ74لاکھ ڈالر مالیت کی گندم درآمد کے معاملہ کی تحقیقات سمیت مفاد عامہ سے متعلق چھ قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔ اجلاس میں حکومتی اراکین نے صحت کے شعبے کی ابتر صورتحال اور صوبہ بھر میں ڈاکٹروں کی کمی پر اپنے شدید تحفظات کااظہار کیا جبکہ حکومت کی طرف سے ایوان میں کہا گیا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک مسائل درپیش ہیں جنہیں راتوں رات حل نہیں کیا جا سکتا ،اسپیکر نے ضمنی سوالات کے نتیجے میں سامنے آنے والی اچھی تجاویز کو زیر غور لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی کی شکایات جائز ہیں اور ان کا ازالہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ،ایوان کو بتایا گیا کہ حکومت کا ایک ڈاکٹر پر اوسطاً تیس سے چالیس لاکھ روپے خرچ آتا ہے لیکن سرکاری میڈیکل کالجوںسے پڑھ کر ڈاکٹر بننے والے بعض نوجوان صحت کے شعبے میں آنے کی بجائے مقابلے کے امتحان میں شرکت کر کے پولیس ‘ ڈی ایم جی اور دیگر محکموں میں سی ایس ایس یا پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی ہو جاتے ہیں ، ڈاکٹروں کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے پر پابندی لگانا وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے ۔ اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران نذیر نے محکمہ صحت سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ ایوان کو بتایا گیا ہے کہ پنجاب کے ضلعی ہسپتالوںں میں علیحدہ برن یونٹس موجود نہیں ہیں تاہم برن کے مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں بطور ایمر جنسی دیکھ بھال کی تمام تر سہولیات دستیاب ہیں۔ایوان میں اراکین اسمبلی کی طرف سے صحت کے شعبے کی ابتر صورتحال اور خصوصاً ڈاکٹروں کی کمی کے بارے میں تحفظات اور احتجاج پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ پورے پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہر یں بہا دی ہیں لیکن صحت اور تعلیم کے شعبے حکومت کی اولین ترجیح ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز میں ڈاکٹرز کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کےلئے سمری کی منظوری دیدی ہے اور اسے جلد پراسس میں لا رہے ہیں اور اسے دو سے تین ہفتوں میں مکمل کر لیا جائے گا ۔ڈاکٹروں کی آسامیوں کو پر کرنے کے لئے بھی عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی درست ہے کہ سو فیصد کوٹے میں پچاس فیصد بچیاں ہوتی ہیں لیکن وہ اس شعبے کو جوائن نہیں کرتیں لیکن ہم سپریم کورٹ کے حکم کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت یہ پالیسی لا رہی ہے کہ ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی سر انجام دینے کےلئے ہارڈ شپ الاﺅنس اور دیگر مراعات دی جائیں جبکہ یہ تجویز بھی ہے کہ میڈیکل کا امتحان پاس کرنے والے ڈاکٹروں کو دو سے تین سال کے لئے پابند کیا جائے کہ وہ دور درازکے دیہی علاقوں میں فرائض سر انجام دیں گے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ بھرتی کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں پہنچانا ایک الگ معاملہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے تسلیم کرتی ہے کہ یہ حقیقی مسئلہ ہے اور اسکے لئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ جہاں اشد ضرورت ہو وہاں پر ایڈ ہاک پر تعیناتی کر لی جائے۔ حکومتی رکن ملک محمد احمد خان نے کہا کہ اگر صرف ایک ضلع قصور یا نارروال کی بات کی جائے تو وہاں کے بی ایچ یو میں 112لوگوں کی ضرورت ہے جہاں پر صرف چالیس لوگ کام کر رہے ہیں اگر اسے ہی مد نظر رکھ کر شرح نکالی جائے توپنجاب میں ستر فیصد آسامیاں خالی ہیں ۔ جب تک حکومت اس کے لئے جامع پالیسی نہیں بنائے گی یہ معاملات حل نہیں ہو سکتے ۔اس موقع پر حکومتی رکن اسمبلی شیخ علاﺅ الدین نے کہا کہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج فیکلٹی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہونے جارہا ہے اور پی ایم ڈی سی نے نوٹس جاری کر دیا ہے کہ اس کالج کو بند کر کے اسے دوسرے کالج میں شفٹ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈاکٹرز پڑھ کر بیرون ممالک جارہے ہیں جبکہ ہم چین ‘ گلگت بلتستان اور کرغزستان کے ڈاکٹر لا رہے ہیں حکومت کیوں اپنے ڈاکٹروں کو باہر جانے سے روکنے کے لئے این او سی از جاری کرنے کا سلسلہ بند نہیں کرتی ۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ رکن اسمبلی اطمینان رکھیں فاطمہ جناح میڈیکل کالج اگلے ہفتے اور اگلے سال بھی چل رہا ہوگا ،فیکلٹی کی کمی ہوتی ہے جنہیں پر کر لیا جاتا ہے ۔ اس موقع پر کئی دیگر اراکین نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس پر اسپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ضمنی سوالات کے نتیجے میں جو اچھی تجاویز سامنے آتی ہیں حکومت کو انہیں زیر غور لانا چاہیے ۔ اب تک اراکین اسمبلی کی جو باتیں سنی ہیں انکی شکایات جائز ہیں اور ان کا ازالہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اجلاس کے دوران حکومتی رکن اسمبلی طاہر سندھو ایڈووکیٹ نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ سات سال سے صرف پالیسی ہی بنائی جارہی ہے اب بہت ہو گیا ہے اور عملی کام ہونا چاہیے ۔ اس دوران حکومتی رکن طاہر سندھو ایڈووکیٹ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے درمیان معمولی نوک جھونک بھی ہوئی ۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے فیصل آباد میں پیش آنے والے واقعے کے متعلق دوبارہ احتجاج کیا اور (ق) لیگ کے عامر سلطان چیمہ اور خدیجہ عمر فاروقی نے سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لئے فاتحہ خوانی کا کہا ۔ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ حالات مسلسل خراب ہوتے جارہے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کرے کیونکہ اگر نظام کی بساط لپٹی جاتی ہے تو اس کا جمہوریت کو نقصان ہوگا ۔ عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ حکومت شیشے کے گھر میں رہتی ہے ۔ کاش دو روز پہلے پی ٹی آئی والوں سے مذاکرات کر لئے جاتے ۔ حکومت کیوں مذاکرات نہیں کررہی اور ملک کو انارکی اور انتشار کی طرف بڑھنے سے روکا نہیں جارہا ۔ فیصل آباد سانحے کے بعد یہ آگ دوسرے شہروں میں بھی پھیل چکی ہے ۔ وزیر قانون میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے ایوان میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ فیصل آباد کی عوام کے پی ٹی آئی کو کال کو مسترد کر دیا تھا اور معمول کے مطابق کاروبار زندگی رواں دواں تھا ۔ عمران خان اور شیخ رشید جو کافی عرصہ سے کنٹینر سے جلاﺅ گھیراﺅ کی دھمکیاں دے رہے تھے اسکے مطابق انہوں نے فیصل آباد کے نو مقامات کو بلاک کرنے کا پروگرام بنایا لیکن وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے ۔

مزید :

علاقائی -