بچوں پرٹیکنالوجی کے خوفناک اثرات تحقیق میں سامنے آ گئے

دبئی(نیوز ڈیسک)بچے کو دن میں کتنی دیر تک کمپیوٹراور دیگر الیکٹرانک اشیاءکا استعمال کرنے دینا چاہیے، کیا یہ اشیاءبچوں کو سست اور کاہل بنا رہی ہیں۔ یہ سوالات تمام والدین کے ذہن میں ضرور آتے ہیں۔حا ل ہی میں کی گئی تحقیق میں ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی گئی جو کہ بہت زیادہ تشویش ناک ہیں۔
نوجوان خاتون کے ہاں ’اچانک‘ بچے کی پیدائش، جاننے کے لئے کلک کریں
دبئی کی ایک کمپنی ’لینڈ مارک گروپ‘نے ایک انڈیکس بنایا تھاجسے ’فن سٹی انڈیکس‘ کا نام دیا گیااور اس کو استعمال کرتے ہوئے چار خلیجی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور بحرین میں بچوں اور والدین کے رجحانات اور عادات جاننے کی کوشش کی گئی۔انڈیکس میں بچوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک گروپ 2-3سال،دوسراگروپ4-6اور تیسرا گروپ7-12سال کے بچوں پر مشتمل تھا۔
گذشتہ سالوں کی نسبت 2014ءمیں بچوں کے معمولات زندگی خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ والدین بھی انہیں کوئی زیادہ وقت نہیں دے پا رہے۔ اس سال بھی یہ بات سامنے آئی کہ بچوں میں گھروں سے باہر جا کر کھیل کود اور دوستوں سے گھلنے ملنے کے رجحانات میں کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے بچے سستی اور کاہلی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر صحت مند نہیں ہو پارہے۔اس انڈیکس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ان خلیجی ممالک میں 16فیصد بچے اپنے کھیل کود کا وقت ٹی وی اور ویڈیو گیمز کو دیتے ہیں جبکہ یہ تناسب گذشتہ سال 12فیصد تھا۔یہ بات بھی سامنے آئی کہ جیسے جیسے بچے بڑے ہو رہے ہیں ان کے سونے کے وقت میں کمی آرہی ہے جبکہ جہاں ان کا صحت مند کھیلوں میں حصہ لینے کا رجحان کم ہو رہا ہے اور وہ ڈیجیٹل گیمز کو زیادہ وقت دے رہے ہیں۔
والد کی عدم توجہی
دوسری جانب والد بھی اپنے بچوں کو کم وقت دے رہے ہیں۔ یہ تناسب 2013ءمیں 7فیصد تھا لیکن اس سال یہ کم ہو کر 4فیصد پرآگیا ہے۔لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ والدہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار کر بچوں کی کمی پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس سال والدین کی جانب سے بچوں کو دیا گیا وقت 18فیصد پر چلا گیا ہے جبکہ گذشتہ سال یہ 14فیصد تھا۔
بچے کہاں وقت گزار رہے ہیں
بچے سکول اور سونے کے بعد جو وقت بچتا ہے کہاں گزار رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب جاننے کے دوران پتا لگا کہ ان میں سے 70-80فیصد بچے غیر صحت مند کھیلوں میں مصروف ہیں جبکہ 55-65فیصد بچے اپنا ایک تہائی وقت جسم کو حرکت دینے والی کھیلوں میں جبکہ صرف 20-28فیصد بچے اپنا ایک تہائی وقت کسی تخلیقی کام اور کھیل میںگزار رہے تھے۔
تمام ممالک کے بچوں کی اکثریت نے بتایا کہ وہ ویڈیو گیمز کھیل کر زیادہ انجوائے کرتے ہیں جبکہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ اس عادت کی وجہ سے تمام عمر کے بچوں میں اپنے ہم جولیوں کے ساتھ اکٹھے کھیلنے میں کمی آرہی ہے۔صرف ایک تہائی بچے ہم جولیوں کے ساتھ ،40فیصد اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اور 31فیصد اکیلے کھیلتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بچے کھلونوں، گڑیوں اور ڈنکیوں کے ساتھ کھیل کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور اس کے بعد بورڈ گیمز پسند کرتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ویڈیو گیمز بچوں کو اچھے طریقے سے سکھانے کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت بھی ضرور کرنی چاہیے۔تاہم 62فیصد ماﺅں کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ان کے بچے کس طرح کی گیمز کھیلتے ہیں جبکہ 34فیصد کا ماننا ہے کہ گیمز ان کے بچوں کے لئے زیادہ اچھی نہیں ہیں۔
یہ چیز بھی سامنے آئی کہ بچوں میں سماجی سرگرمیوں جیسے باہر گھومنے جانا کا رجحان بھی کم ہو رہا ہے اور اس سال یہ 2فیصد رہا جبکہ گذشتہ سال یہ 7فیصد تھا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر حوصلہ افزائی کریں اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ وہ ایسے کھیل میں حصہ لیں جس میں جسمانی کسرت ہو کیونکہ اس طرح بچوں کو کاہلی اور سستی سے بچا کر انہیں صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔