عالمی یوم انسانی حقو ق
10دسمبر کو ہر سال عالمی یوم انسانی حقوق کے طورپر منا یا جا تا ہے ۔ اسی دن 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنر ل اسمبلی نے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے عالمی میثاق کی باضابطہ طور پر منظوری دے دی تھی جبکہ 1950ء میں جنرل اسمبلی نے قرار دادنمبر 423(V)کے ذریعے 10دسمبر کو عالمی یوم انسانی حقو ق منانے کاباضا بطہ فیصلہ کیا ۔ 2016کے عالمی یوم انسانی حقو ق کا عنوان دوسروں کے حقو ق کیلئے جد وجہد کرنا ہے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے اس اہم دن کے حوالے سے اپنے خصوصی بیان میں کہا ہے کہ ہمیں بنیادی آزادیوں اور سب کیلئے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے عہد کرنا ہوگا۔ افسوسنا ک امر یہ ہے کہ دنیا کے تمام حصوں میں انسانی حقوق اوربنیا دی انسانی وقار کی خلاف ورزیو ں کا سلسلہ تا حال جا ری ہے ۔پاکستان میں 1973ء کا آئین شہر یوں کے بنیا دی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔ آئین پاکستان کے پہلے باب میں موجود 8سے لیکر 28تک دفعات بنیا دی حقوق سے متعلقہ ہیں ۔ مزید برآں آئین کی دفعہ 8کے تحت پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا جوکہ بنیادی حقوق سے متصادم ہوجبکہ آئین کی دفعہ 3کے تحت ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ ریاست کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔
ورلڈ جسٹس پر اجیکٹ کی حالیہ رپورٹ کیمطابق قانون کی حکمرانی کے حوالے سے پاکستان 113ممالک میں 106ویں پوزیشن پر ہے ۔ کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے قانون کی حکمرانی کو ضروری جزو سمجھا جا تا ہے ۔ آئین پاکستان ابتدائی تعلیم کو بنیا دی حقو ق کے طورپر تسلیم کرتا ہے جس کے تحت صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس اہم آئینی شق پر عملد رآمد کروانے کی پابندہیں ۔ تاہم چھ سال گز رنے کے باوجود بھی آئین کے آرٹیکل 25(A)پر عملد رآمد کروانے کے حوالہ سے رولز آف بز نس میں ضروری ترامیم نہ لائی جا سکیں ۔ بنیا دی ضروریات کی فراہمی اور شہر یوں کے حقوق کا خیال رکھنا بھی ریاست کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ لیکن آئے روز خود کشیوں کی تعداد میں اضافہ متعلقہ اداروں کی کا رکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور ان عوامل کا بھی سد باب کرنا ہمار ی اجتما عی ذمہ داری ہے جسکی وجہ سے زندہ لوگ اپنی ہی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔جبکہ 69سال گزرنے کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں بسنے والے شہریوں کو مساوی حقوق کی فراہمی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ معا شرہ پر بڑ ھتے تشدد پر مبنی رجحانات کے دیرپا حل کیلئے ضروری ہے کہ سیکیورٹی پر مبنی قلیل مدتی سوچ سے ایک قدم آگے بڑھا تے ہوئے بنیادی عوامل کا جائزہ لیا جائے جو دراصل انتہا پسندی کی پرورش کرتے ہیں ۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، قانون کی کمزور حکمرانی ، میرٹ و بہتر طرز حکمرانی کا فقدان ، روزگارکمانے کے کم مواقع ، نوجوانوں اور معاشرے کے محروم طبقات کیلئے سکڑتی ہوئی سیاسی گنجائش سے پر تشدد گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ رواداری، امن ، مذہبی برداشت ، اقلیتوں کا تحفظ ، معیاری تعلیم ، انسانی حقوق کا احترام کو قومی حکمت عملیوں کا بنیا دی جز وبنانا ہوگا ۔ دیر پا انسانی ترقی کیلئے اس وقت انسانی سلامتی ضروری ہوچکی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو میثاق مدینہ اورخطبہ حجتہ الوداع جن کو مستند انسانی حقوق کا چارٹر تسلیم کیا گیا ہے ان سے متعارف کروایا جائے ۔ جامعات میں علمی آزادی کو یقینی بناتے ہوئے انسانی حقوق کے موثر تحفظ کیلئے تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا جائے ۔