پھلدار باغات کی کورے سے حفاظت
قدرت نے پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں جہاں ٹھنڈا گرم موسم ، خوبصورت پہاڑ ، وادیاں ، چشمے ، ہر ے بھرے باغات ، پھلوں سے بھرے درخت اور برف سے لدی چوٹیاں شامل ہیں وہاں ان نعمتوں کی موجودگی بعض اوقات کسی نقصان کا باعث بھی بن جاتی ہے ۔ جیسے سردیوں کے موسم میں شدت آنے کے باعث باغات اور پھلد ار پودے متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں یہی حال شدید گرمی کا ہے ۔ ایسے موسم میں ان پودوں اور باغات کی حفاظت ضروری ہو جاتی ہے ۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو مالی نقصان کا احتمال ہر آن موجود رہتا ہے ۔باغات کی کامیاب اور نفع بخش کاشت کا انحصار ان کی مناسب دیکھ بھال پرہوتا ہے۔ پاکستان میں سردی، گرمی، ژالہ باری اور آندھی سے باغات کے چھوٹے اور بڑے تمام پودے بہت متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا پھلدار پودوں کو شدید موسمی اثرات سے بچانے کے لئے باغبانوں کواحتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئیں۔ سدا بہار پودوں میں آم، لیچی، پپیتا، کاغذی لیموں اور لیمن وغیرہ کورے سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات پھلدار پودے کورے کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوجاتے ہیں اور باغبانوں کو شدید معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ کورا پڑنے کا عموماً خطرہ شروع دسمبر سے وسط فروری تک ہوتا ہے۔تاہم کورے کا زیادہ امکان وسط دسمبر سے آخر جنوری تک ہوتا ہے۔کورا پڑنے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب دن کے وقت سورج کی دھوپ پڑنے سے زمین اور پودے گرم ہو جاتے ہیں اور گردوپیش کی ہوا بھی گر م ہو جاتی ہے۔ اس طرح باغات کے اوپر ایک گرم ہوا کی تہہ بن جاتی ہے اور رات کو یہ سلسلہ اس کے برعکس ہو جاتا ہے۔ زمین اپنی حرارت بیرونی شعاع کے ذریعے آسمان کی طرف خارج کرتی ہے، جس سے زمین کے قریب کی ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ یہ ٹھنڈی ہوا گرم ہوا کی نسبت بھاری ہوتی ہے اس لئے یہ ہوازمین کی سطح کے قریب رہتی ہے اور رات کو یہ کورے یا کہر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جب خشک سردی پڑتی ہے تو ہوا میں نمی کا تناسب کم ہوتا ہے۔ رات کو درجہ حرارت 4ڈگری سینٹی گریڈسے کم ہوجاتا ہے تو پودوں کے پتوں میں موجود پانی جمنا شروع ہوجاتاہے جس سے پتوں میں موجود سیل کو نقصان پہنچتا ہے اور پتوں کا رنگ سیاہ ہو جاتا ہے جس سے ہوا میں موجود پانی جمنا شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً برف کی سفید تہہ بن جاتی ہے جو عام طور پر پودوں کے پتوں ، زمین کی سطح اور کوڑے کرکٹ وغیرہ پر نظر آتی ہے۔جب سردیوں میں دن کے وقت ٹھنڈی ہوا شمال کی سمت سے چلے۔ہوا شام کے وقت ساکت ہو اور تمام رات ساکت ہی رہے۔ علاوہ ازیں رات صاف ہو اور بالکل بادل نہ ہوں تو کورا پڑنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ باغبان حضرات کو دسمبر جنوری اور فروری کے مہینوں میں بہت محتاط رہنا چاہئے۔ کم سے کم درجہ حرارت معلوم کرنے کے لئے مخصوص جگہ جو پانچ فٹ بلند ہو تھرما میٹر لگاناچاہئے۔ ایک تھرما میٹر چار ہیکٹر رقبہ کے لئے کافی ہے۔ اگر درجہ حرارت 4ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے گر جائے تو کورا پڑنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر تھرما میٹر موجود نہیں ہے تو سادہ طریقہ سے بھی کورا پڑنے کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے اس طریقہ میں ایک چوڑے برتن میں آدھا انچ گہرائی تک پانی ڈال کر اسے کھلے کھیت یا باغ میں رکھیں اگرشام تک پانی جمنے لگے تو کورا پڑنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ موسمی پیش گوئی کو مدنظر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے ۔ پھول بننے کے دوران کورا پڑنے سے پھل بننے کا عمل رُک جاتا ہے۔ پھل بننے کے ابتدائی مرحلہ پر کورا پڑ جانے سے پھل کی ڈنڈی کے گرد مردہ خلیوں کا دائرہ بن جاتا ہے جو برداشت تک موجود رہتا ہے اس دائرہ کے بننے سے پھل بد شکل ہو جاتا ہے۔ پکے ہوئے ترشاوہ پھلوں پر کورا پڑ جائے تو پھل کی پھانکیں خشک ہو جاتی ہیں۔ ترشاوہ پھلوں اور آم کے چھوٹے درختوں کو سردی اور کہر سے بچانے کے لئے جنتر جیسے پودے کی چھڑیوں کا پودے کی قامت تک ڈھانچہ بنا کر اس کے اوپر پرالی یا پولی تھین ڈال کرا سے ڈھانپ دینا چاہئے۔ بعض باغبان یہ غلطی کرتے ہیں کہ ڈھانچہ بنائے بغیر کھوری یا پرالی سے ڈھانپ دیتے ہیںیہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ چند باغبان آم کے باغ کے گرد کیلے کی فصل کاشت کر دیتے ہیں ایسا کرنے سے آم کے پودے کورے کے نقصان سے تو بچ جاتے ہیں، لیکن پودے کی خوراک کا بیشتر حصہ کیلے کے پودے حاصل کر لیتے ہیں اور آم کے پودے کمزور ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات باغبان ترشاوہ باغات میں چارہ کی فصل برسیم یا باجرہ وغیرہ کاشت کر دیتے ہیں اس طرح پودے کورے سے تو بچ جاتے ہیں لیکن زیادہ اجزائے خوراک چارہ جات کی فصلات کی نذر ہو جاتے ہیں اور پھلدار درختوں کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچتا ہے۔ پودوں کے نچلے حصوں پر مٹی چڑھا کر رکھیں تاکہ پانی تنے کو نہ لگ سکے اور رات کے وقت اخراج کے لئے پودے زیادہ سے زیادہ حرارت جذب کر سکیں۔ اگرمخلوط کاشت ضروری ہو تو جوان پودوں کے پھیلاؤ کے لئے معقول جگہ چھوڑ دی جائے اور اس میں اچھی طرح ہل چلایا جائے۔ اگر برسیم کے چارہ کی کاشت کی گئی ہو توبرسیم کو ان مہینوں میں زمین کے بالکل قریب سے کاٹا جائے۔ پودوں کے تنوں کو بورڈو پیسٹ لگائی جائے۔ ایسے پودے جن پر پتوں کی چھتری نہ بنی ہو اور کم عمر ہوں ان کے گرد بوریاں، کھوری، پرالی یا پولی تھین لپیٹ دی جائے۔ کم عمر پودوں کی کورے سے حفاظت کے لئے کھجور کے پتے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔کورے یا کہر کی متوقع راتوں کو کھیتوں میں پانی دیا جائے اس سے امرود، آم اور ترشاوہ پھلوں کو کورے کے اثرات سے با آسانی بچایا جا سکتا ہے۔ ہوا توڑ باڑوں کا استعمال نہ صرف سرد ہواؤں سے بچاتا ہے بلکہ گرم اور خشک ہواؤں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ شیشم، آم، شہتوت اور زیتون کے ملے جلے درختوں کی باڑیں بہت ضروری ہیں انہیں اصلی باغ لگانے سے دو تین سال پہلے لگائیں۔ زیادہ ٹھنڈک والے علاقوں، یعنی پوٹھوار یا راولپنڈی ڈویژن میں ترشاوہ پھلوں کے پودوں کو پہلے ایک یا دو سال کورے سے بچانے کے لئے ڈھانپنا ضروری ہے۔باغبانوں کو چاہئے کہ ریڈیواور ٹی وی سے نشر ہونے والی موسمیاتی پیش گوئی سے آگاہ رہیں تاکہ قبل ازوقت کورے سے بچاؤ کے لئے حفاظتی اقدامات کئے جا سکیں۔ ثمر آور باغات میں مخلوط کاشت بالکل نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ دن کے وقت مخلوط کاشت زمین کو حرارت جذب کرنے نہیں دیتیں بلکہ کہر کی راتوں میں فضائی رطوبت میں اضافہ کرتی ہیں۔ ایسے پودے جو زیادہ تیزی سے نشوونما پا رہے ہوں ان میں سردی سے متاثر ہونے کا خطرہ نیم خوابیدہ(مست رو) حالت کے درختوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے لہٰذا ایسے تمام عوامل ختم کر دینے چاہیں جو نشوونما کا باعث ہوں۔ پھول نکلنے سے پہلے موسم بہار میں پودوں پر سردی سے متاثرہ شاخوں کو کاٹ دیا جائے اور زخموں پر بورڈو پیسٹ لگائی جائے۔