اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 60
ایک مرتبہ حضرت حبیب عجمیؒ کی بیوی نے آپ سے کہا کہ خوردونوش کے لئے کچھ نہ کچھ کام کرنا چاہیے۔ اس پر آپ مزدوری کرنے کے لئے گھر سے نکلے لیکن دن بھر عبادت میں مشغول رہ کر جب گھر پہنچے، تو بیوی نے سوال کیا ’’کیا لائے ہو؟‘‘
آپ نے جواب دیا ’’جس کی مزدوری کی ہے وہ بہت کرم والا ہے اور اس کے کرم ہی کی وجہ سے مجھ میں اجرت طلب کرنے کی جرأت نہ ہوسکی لیکن اس نے خود ہی کہہ دیا ہے کہ دس یوم کے بعد جب تم کو ضرورت ہوگی تو پوری اجرت دے دوں گا۔‘‘ پھر جب دس دن کے بعد آپ کو خیال آیا کہ آج گھر پر جاکر کیا جواب دوں گا تو ایک طرف تو آپ اپنے تصور میں غرق چلے جارہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک بوری آٹا، ایک ذبح شدہ بکری، گھی، شہد اور تین سو درہم ایک غیبی شخص کے ذریعہ آپ کے گھر پہنچادئیے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ حبیبؒ سے کہہ دینا ’’ اپنے کام کو ترقی دیں جس کے صلہ میں ہم اس سے بھی زیادہ مزدوری دیں گے۔‘‘
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چنانچہ جب آپ گھر کے دروازے پر پہنچے تو گھر میں سے کھانے کی خوشبو آرہی تھی۔ اندر جاکر بیوی سے صورتحال دریافت کی، تو اس نے پورا واقعہ اور پیغام آپ کو سنادیا۔ یہ سن کر آپ کو خیال آیا کہ جب صرف دس یوم کی عدم توجہی کی ریاضت کا اللہ تعالیٰ نے یہ نعم البدل عطا فرمایا ہے۔ اگر زیادہ دل جمعی کے ساتھ عبادت کروں تو نہ جانے کیا انعامات حاصل ہوں گے۔ چنانچہ اسی دن سے دنیا کو چھوڑ کر اس درجہ عبادت میں غرق ہوگئے کہ مستجاب الدعوات کے درجہ تک پہنچے اور آپ کی دعاؤں سے مخلوق کو بہت مفاد حاصل ہوا۔
***
حضرت ذوالنون مصریؒ کے دور میں ایک شخص اولیائے کرامؒ کو خبطی تصور کرتا تھا۔ اس پر حضرت ذوالنونؒ نے اس شخص کو ایک انگشتری دے کر فرمایا کہ اس کو بھٹیارے کی دکان پر ایک دینار میں فروخت کر آؤ۔اس پر جب وہ شخص بھٹیارے کے پاس گیا تو بھٹیارے نے اس سے کہا ’’ تو اس کی قیمت زیادہ مانگ رہا ہے۔ کچھ کم کر۔‘‘
اس کے بعد جب وہ شخص وہی انگوٹھی لے کر ایک سنار کے پاس پہنچا تو اس نے ایک ہزار دینار قیمت لگائی اور جب اس شخص نے آپ سے پورا واقعہ بیان کیا۔ تو اس کو ذوالنون مصریؒ نے جواب دیا’’ جس طرح بھٹیارہ انگشتری کی قیمت سے آشنا نہیں۔ اسی طرح تم بھی مراتب اولیاؒ سے نآشنا ہو۔‘‘
***
ایک دن حضرت ذوالنون مصریؒ نے لوگوں سے فرمایا کہ مصائب میں صبر کرنا۔ تعجب خیز نہیں۔ بلکہ مصائب میں خوش رہنا تعجب کی بات ہے۔ اس کے علاوہ انسان پر چھ چیزوں کی وجہ سے تباہی آتی ہے۔
۱۔ اعمال صالحہ سے کوتاہی کرنا۔
۲۔ ابلیس کا فرمانبردار ہونا۔
۳۔ موت کو قریب نہ سمجھنا۔
۴۔ رضائے الہٰی کو چھوڑ کر مخلوق کی رضامندی حاصل کرنا۔
۵۔ تقاضائے نفس پر سنت کو ترک کر دینا۔
۶۔اکابرین کی غلطی کو سند بنا کر ان کے فضائل پر نظر نہ کرنا اور اپنی غلطی کو ان کے سر تھوپنا۔
یاد رکھو۔ جس طرح ہرجرم کی ایک سزا ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح ذکر الہٰی سے غفلت کی سزا د نیا وی محبت ہے۔(جاری ہے)