مسلمانوں کے سوا تمام تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے کا بل لوک سبھا میں پیش، اپوزیشن کا شدید احتجاج 

مسلمانوں کے سوا تمام تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے کا بل لوک سبھا میں پیش، ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)بھارتی  پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں ہنگامہ آرائی کے بعد پڑوسی ممالک سے آنے والے تارکینِ وطن کی شہریت کا متنازع ترمیمی بل پیش کر دیا گیا۔اس مسودہ قانون کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔جب پیر کو وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ایوان میں بل پیش کرنے کی اجازت چاہی  توحزبِ اختلاف کے اراکین نے ایوان میں خوب ہنگامہ برپا کیا۔تاہم امت شاہ نے کانگریس پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ کانگریس نے ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا تھا۔بعدازاں لوک سبھا میں اس بل کو پیش کرنے کے معاملے پر ووٹنگ ہوئی جہاں اس کے حق میں 293 جبکہ مخالفت میں 82 ووٹ ارکان نے ووٹ دیا۔ووٹنگ سے قبل کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری سمیت حزب اختلاف کے بہت سے رہنماؤں نے اس معاملے پر مرکزی حکومت کے موقف کی مخالفت کی۔اس سے قبل ایوان میں ادھیر رنجن چودھری نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بل معاشرے کو پیجھے لے جانے والا ہے اور اس کا مقصد ایک خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانا ہے۔ادھیر رنجن چودھری نے ہنگامہ آرائی کے درمیان آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کی روح کے منافی ہے جس میں سیکولرازم، مساوات اور سوشلزم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ اس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے جواب میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ بل صفر صفر صفر اعشاریہ ایک فیصد بھی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے اور اس بل میں کہیں بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے۔امت شاہ نے کہا ہے کہ یہ بل کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور اس بل کے کسی بھی پہلو سے آئین کو ٹھیس نہیں پہنچتی۔اس بل کی مخالفت کرنے والے زیادہ تر لوگ آرٹیکل 14 کی بنیاد پر شہریت کے ترمیمی بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ اس آرٹیکل میں درج مساوات کے حق کی نئے بل سے خلاف ورزی ہوتی ہے۔ تاہم امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ آئین کی یہ دفعہ پارلیمنٹ کو مناسب بنیادوں پر قانون بنانے سے نہیں روک سکتی۔امت شاہ نے دلیل دی کہ 1971 میں اندرا گاندھی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جتنے لوگ بنگلہ دیش سے آئے ہیں انھیں شہریت دی جائے گی، تو پاکستان سے آنے والے لوگوں کو شہریت کیوں نہیں دی گئی۔انڈیا کے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مجوزہ قانون کو سمجھنے کے لیے تینوں پڑوسی ممالک کو سمجھنا ہوگا۔ امت شا نے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے آئین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔امت شا نے نہرو۔ لیاقت معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اقلیتوں کی حفاظت کی بات کی گئی جس پر انڈیا میں تو عمل کیا گیا لیکن دوسری طرف ایسا نہیں ہوا۔اس مجوزہ بل میں سنہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے جس کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔مرکزی کابینہ کے ذریعے منظور کیے گئے اس بل میں کہا گیا ہے کہ ان مذہبی برادریوں کے تارکین کو اس بنیاد پر شہریت دی جائے گی کہ انھیں اپنے سابقہ ملک میں ’مذہبی مظالم اور تفریق‘ کا سامنا کرنا پڑا یا انھیں مذہبی جبر کا خدشہ لاحق تھا۔اس بل سے ارونا چل پردیش، ناگا لینڈ اور میزورم کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جبکہ آسام، تریپورہ اور میگھالیہ کی شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلی علاقوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔گذشتہ عشروں میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے لاکھوں ہندو، بودھ اور سکھ تارکین وطن انڈیا آئے اور عشروں سے شہریت کے بغیر یہاں رہ رہے ہیں۔ اس بل کا مقصد ان غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینا ہے لیکن اس کا فوری سبب آسام میں حالیہ شہریت کے اندراج یعنی این آر سی کا عمل ہے۔آسام میں پوری آبادی کی شہریت کے دستاویزات کی جانچ کے بعد انیس لاکھ ساٹھ ہزار باشندوں کو شہریت کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان میں غالباً اکثریت بنگالی بولنے والے باشندوں کی ہے۔اس مرحلے پر ان افراد کو غیر قانونی تارکین وطن نہیں قرار دیا گیا ہے لیکن انھیں اب غیر ملکی ٹرائیبیونلز میں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ غیر ملکی نہیں ہیں۔اگرچہ این آر سی میں یہ عام نہیں کیا گیا ہے کہ انیس لاکھ ساٹھ ہزار باشندوں میں سے کتنے ہندو ہیں اور کتنے مسلمان لیکن پارلیمنٹ میں مختلف ارکان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بارہ لاکھ سے زیادہ ہندو ہیں۔انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں غیر قانونی ہندو تارکین وطن کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، حکومت انھیں پناہ گزیں تصور کرتی ہے اور انھیں شہریت دی جائے گی۔
متنازعہ بل

مزید :

صفحہ اول -