پٹرول پر فی لٹر 33 روپے ٹیکس لیکن ڈیزل پر کتنا ہے اور بجلی ، گیس وغیرہ کے بلوں میں کتنا اضافہ کیا گیا ؟ سینئر صحافی نے "ریاست مدینہ" میں لیے جانیوالے ٹیکسز کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا
لاہور (کالم: محسن گورایہ) معاشی استحکام کیلئے وفاقی حکومت کی کوششیں بارس آور ہو رہی ہیں، وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی طویل المیعاد پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت منفی سے مستحکم کا سفر طے کر چکی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ مکمل طور پر ختم ہو گیا، گردشی قرضوں میں بڑی حد تک کمی آ گئی، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مستقبل قریب میں قومی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہو جائے گی اور ملکی ترقی و خوشحالی کی منزل قریب آ جائے گی۔
یہ سب اپنی جگہ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ معاشی کامیابیوں کے ثمرات سے عوام تاحال محروم ہیں، بیروزگاری کا اڑدھا نوجوانوں کو دن رات نگل رہا ہے، اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب غریب شہری کا جینا محال ہو چکا ہے، یوٹیلیٹی بلوں، بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کے بعد متوسط طبقہ جو بڑی تیزی سے ختم ہو رہا ہے کیلئے کچن چلانا بھی مشکل ہو چکا ہے اور اگر کوئی کرائے کے مکان میں رہتا ہے تو اس کی زندگی عذاب سے کم نہیں۔
معاشی بحالی حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے مگر ایسی معیشت کا عوام الناس کو کیا فائدہ کہ شہریوں کی اکثریت دو وقت کی روٹی سے محروم ہو جائے، آلو، پیاز، لہسن، ٹماٹر، ہری مرچ، ادرک اور دیگر سبزیوں کا عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہونا اگر حکومت کی ناکامی نہیں تو اس کی کمزور گرفت کانتیجہ ہے اگرچہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس گرانفروشوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، مقدمے درج، گرفتاریاں، جرمانے ہونے کے باوجود روزمرہ استعمال کے اشیاءکی قیمتوں پر قابو پانے میں ناکامی اچھی حکومت کی بدترین مثال ہے اور تبدیلی کے حکومتی نعروں کے برعکس ہے۔مہنگائی مصنوعی ہے یا حقیقی غریب عوام کو اس سے غرض نہیں، غریب شہری کی ضرورت بچوں کو رزق فراہم کرتا ہے۔
جو حکومت غریب شہریوں کو دو وقت روٹی کی فراہمی یقینی نہ بنا سکے اسے حکمرانی کرنے کا اصولی اور اخلاقی طور پر حق حاصل نہیں رہتا، حکومت کو شکوہ ہے کہ صاحب ثروت شہری ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر غریب شہری ضرورت کی ہر چیز پر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے، ملک میں بالواسطہ ٹیکس دینے والوں کی نسبت بلاواسطہ ٹیکس دینے والوں کی بھرمار ہے، قیمتی بھاری بڑی گاڑیوں کے مالکان پٹرولیم مصنوعات پر جس قدر ٹیکس ادا کرتے ہیں ایک موٹر سائیکل سوار بھی اسی قدر ٹیکس دیتا ہے، ضرورت زندگی کی اشیاءپر کروڑ پتی لوگ جس شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں ایک گدڑی نشین بھی اسی طرح ٹیکس ادا کر رہا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت رواں سال مہنگائی کی شرح میں 12.67 فیصد اضافہ ہوا۔
اشیاءضرورت کا شہریوں کی اکثریت کی قوت خرید سے باہر ہونے کی متعدد وجوہات ہیں مگر اہم ترین وجہ توانائی کے وسائل اور ذرائع کی قیمت میں اضافہ ہے، صرف نومبر 2019ءمیں بجلی 18 فیصد، پٹرولیم مصنوعات 17 فیصد اور گیس کی قیمت میں 21 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، موجودہ حکومت کے 15 ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 15 مرتبہ، بجلی کی قیمت میں 9 مرتبہ گیس کی قیمت میں 5 مرتبہ اضافہ کیا گیا، اس وقت مہنگائی کی شرح گزشتہ 9 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، اشیاءخوروو نوش کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہواہے، اعداد و شمار کے مطابق ٹماٹر کی قیمت میں 149 فیصد، دال ماش 12، دال مونگ8، گندم 7، آٹا5 اور دیگر سبزیوں میں 10 سے 200 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، سبزیوں کے ساتھ گھی، چینی، دالیں، مصالحہ جات کی قیمتوں کو بھی پر لگ چکے ہیں، اشیاءخورونوش میں سالانہ 9.6 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا دیہی علاقوں میں یہ شرح9 فیصد ہے اور یہ شرح الارمنگ ہے۔
وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تیل اور گیس پر 18 فیصد زیادہ ٹیکس وصول کئے گزشتہ سال اس عرصہ کے دوران 158 ارب روپے کے ٹیکس وصول کئے گئے تھے رواں سال پہلی سہ ماہی میں 186 ارب روپے کے ٹیکس وصول کئے گئے وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 99.5 روپے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس، گیس ڈویلپمنٹ سرچارج، پٹرولیم لیوی کی مد میں وصول کئے گئے جبکہ خام تیل پر رعائتی قیمت برقرار رہی گزشتہ سال اس مد میں 83 ارب کے ٹیکس وصول کئے گئے سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے پٹرولیم مصنوعات جن میں ڈیزل اور پٹرول شامل ہیں پر 87 ارب وصول کئے جبکہ گزشتہ برس 75 ارب وصول کئے گئے، وزارت پٹرولیم کے حکام نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی کھپت 13 فیصد کم رہی۔
زیادہ تر کمی فرنس آئل میں 30 فیصد کمی کے باعث ممکن ہوئی۔ فرنس آئل میں کھپت سستے متبادل فیول کے باعث ہوئی لیکن ڈیزل کی مانگ اور طلب میں کمی زیادہ قیمتوں اور معاشی سست روی کے باعث ہوئی رواں سال سبسڈی 4.77 ارب دی گئی گزشتہ سال یہ 23.64 ارب تھی حکومت نے تمام پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس پر 17 فیصد کی شرح سے اضافہ کیا اس طرح حکومت کو اضافی ریونیو حاصل ہوا ماہ جنوری تک حکومت لائٹ ڈیزل پر 0.5 فیصد جی ایس ٹی،مٹی کے تیل پر 12 فیصد پٹرول پر 8 فیصد جی ایس ٹی وصول کر رہی تھی حکومت ہائی سپیڈ ڈیزل پر 17 فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ پٹرولیم لیوی دگنی شرح سے وصول کر رہی ہے یہ تناسب 18روپے فی لٹر ہے پہلے یہ شرح 8 روپے تھے جبکہ پٹرول پر لیوی دس روپے سے بڑھا کر 15 روپے کر دی گئی۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سپریم کورٹ نے متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ ایندھن کی بڑھتی قیمتوں بارے تفصیلی رپورٹ بھجوائی جائے۔ پٹرول پر فی لٹر 33 روپے ٹیکس شامل ہے، جبکہ اس کی بنیادی قیمت 61.47 روپے ہے۔
جبکہ ڈیزل کی بیسک قیمت 67 روپے، مجموعی ٹیکس 46 روپے ٹیکس سٹرکچر ہے۔ایسی صورتحال میں دیگر پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس لامحالہ مہنگی ہوئی اور اس کے ساتھ ہر چیز کی قیمت کو پر لگ گئے، ضروری ہے کہ حکومت ضرور ٹیکس وصول کرے مگر جن ٹیکسوں سے عام شہری متاثر ہوں ان پر نظر ثانی کی جائے۔
۔
نوٹ:یہ کالم نگار کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔