شعیب دستگیر نئے آئی جی پنجاب لیکن یہ دراصل کون اور کیسے افسر ہیں، کن کن عہدوں پر رہ چکے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
لاہور (کالم: یونس باٹھ ) پی ٹی آئی حکومت نے پہلے روز سے افسران کی اتھل پتھل کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس سے قبل کوئی بھی حکومت اس رفتار سے افسران کے تبادلوں کی متحمل نہیں رہی۔جب تک آپ کسی بھی آفیسر کو کام کرنے کا پوراموقع فراہم نہیں کریں گے اس وقت تک اس ادارے کی کا رکردگی کو بہتر بنانا کیسے ممکن ہے۔موجودہ حکومت نے 14 ماہ کے قلیل عرصے میں 4 آئی جیز کا تبادلہ کیا ہے جون2018میں کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان کو ہٹا کر ڈاکٹر سید کلیم امام کو انسپکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا، ستمبر 2018میں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا اور انکی جگہ محمد طاہر کو نیا آئی جی بنایا گیا اور ایک ماہ بعد ہی انہیں ہٹا کر اکتوبر2018میں امجد جاوید سلیمی کو آئی جی پنجاب لگادیا گیا، اپریل2019 میں پھر قرعہ عارف نواز خان کے نام کا نکلا لیکن اسی پر بس نہ ہوئی اور انھیں بھی ہٹا کر اب شعیب دستگیر کو نیا آئی جی پنجاب لگایا گیا ہے۔
شعیب دستگیر کون ہیں؟ اس سے پہلے ایم ڈی نیشنل پولیس فاو¿نڈیشن تھے، وہ آئی جی آزاد کشمیر بھی رہ چکے ہیں اور یو این مشن میں بھی کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔شعیب دستگیر کچھ عرصہ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور بھی رہے لیکن انہوں نے فیلڈ افسر کے طور پر زیادہ دیر کام نہیں کیا اور ملازمت کا بڑا حصہ سینٹرل پولیس آفس میں گزارا۔انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب شعیب دستگیر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی ہنگامی بنیادوں پر پولیس فورس کو بہتر بنانے کے لئے جو اقدامات شروع کیے ہیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے احداف کیا ہیں اوراس حوالے سے ان کے سامنے پورا روڈ میپ موجود ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے صوبہ بھر میں پولیس کے انتظامی افسران کو تبدیل کرتے ہوئے اپنی ٹیم تشکیل دیکر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت اور معاشرے میں امن و امان کا قیام پولیس کی اصل ذمہ داری ہے۔ جو یہ کام بخوبی اور صاف گوئی سے کرے گا وہی میری ٹیم کا حصہ رہے گا۔ انہوں نے پبلک سروس ڈلیوری اور پولیس کے انٹرنل اکائونیٹبیلٹی کے نظام کو بہتر سے بہتر کرنا اپنی ترجیحات میں سرفہرست شامل قرار دیا ہے۔
ماتحت افسران و اہلکاروں کو بہتر سے بہتر پرفارمنس دینے ورنہ اپنے نہ صرف عہدوں سے ہاتھ دھونے بلکہ کڑے احتساب کا بھی سامنا کرنے کیلئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے پولیس حراست میں تشدد، دوران حراست ہلاکت یا غیر قانونی حراست کے واقعات کو سختی سے منع کیا ہے۔ آئی جی پولیس پولیس کے روایتی کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے بڑے سنجیدہ ہیں۔ آئی جی پولیس شعیب دستگیر نے اپنی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے جن افسران کا انتخاب کیا ہے ان میں سے زیادہ تر افسران کا تعلق سابق حکمرانوں سے ہے اور یہ پولیس افسران ان کے لئے کسی بھی وقت درد سر بن سکتے ہیں۔ انہیں ایک ایسی صاف ستھری، غیرجانبدار، غیر سیاسی اور محب الوطن ٹیم تشکیل دینی چاہیے جنہیں فیلڈ میں کام کرنے کا تجربہ اور وہ کامیاب آفیسر کے طور پر شہرت بھی رکھتے ہوں ڈی آئی جیز،غلام محمود ڈوگر، اشفاق احمد خان، وقاص نذیر، عمران محمود، شارق کمال صدیقی جیسے افسران کو بھی فیلڈ میں پو سٹنگ ضرور ملنی چاہیے-
ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر تو ہمیشہ نون لیگ کی ہٹ لسٹ پررہے ہیں انھیں پوسٹنگ نہ دے کر پی ٹی آئی کی حکومت نے ان کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے جبکہ بی اے ناصر اور ڈی آئی جی اشفاق احمد خان کومدت ملازمت پوری کرنے سے قبل تبدیل کر دینے سے عام آدمی اور تحریک انصاف کے کارکنان کے جذبات کا قتل کیا گیا ہے اشفاق احمدخان کے تبدیل کرنے کی اہم وجہ بی اے ناصر سے وابستگی ہے اگر بی اے ناصر کو تبدیل کر نا ہی مقصود تھاتو ان کی جگہ غلام محمود ڈوگر کو لگاکر اشفاق احمد کے ساتھ ٹیم تشکیل دینے کی ضرورت تھی۔جو حکومتی فیصلے عمل میں لائے جارہے ہیں بار بار آئی جی کے تقرر و تبادلوں سے پولیس ریفارمز کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ چکا ہے ایک سابق آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب میں بار بار آئی جی تبدیل کرے پولیس آرڈر 2002ءکی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
کیونکہ پولیس آرڈر کے مطابق آئی جی اور ضلعی پولیس افسران کی تعیناتی کے لئے تین سال اور کم از کم مدت دوسال رکھی گئی ہے۔ پولیس اصلاحات میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے کے پی کے میں پولیس کو غیر سیاسی کیا اور عہدوں پر مستقل تعیناتیاں کیں آئی جی کو بااختیار کیا تو پولیس نے بہترین کارکردگی دکھائی۔ لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال کو بہتر کرکے عوامی شکایات کا ازالہ ہوا۔ پولیس افسران اور اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے ان کی سزائوں کا طریقہ کار طے کیا جائے تاکہ رشوت ستانی ختم ہو اور لوگوں کی خدمت کے لئے پولیس اپنا قانونی کردار ادا کرسکے جب تک پولیس افسران کو بااختیار کرکے غیر سیاسی نہیں بنایا جاتا اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں۔
۔
نوٹ:یہ کالم نگار کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔