وزیرستان کا بنیادی مسئلہ!
آج دنیا جس تیزی سے ترقی کررہی ہے ، اس کی وجہ صرف او ر صرف تعلیم ہے ۔ اہلِ مغرب نے جس دن اِس راز کو جانا اسی دن سے انھوں نے علم کی افادیت سے مستفید کیلئے مزید جدوجہد شروع کردی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ علم کے حصول کے لیے مسلمانوں نے جتنی جدوجہد اور قربانیا ں دی ہیں وہ رائیگاں بالکل بھی نہیں گئیں ۔ اگر انھوں نے علم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی تھی تو علم نے ان کے نام کو ہر زمانے میں زندہ رکھا، اسی علم کی کرامات سے عظیم کیمیادان اور سائنسدان بنے ہیں ۔ اگر قرآن کا مطالعہ کریں تو اس بات کا ثبوت ملے گا کہ علم پڑھے لکھے اور مہذہب لوگوں کی میراث ہوتی ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کیا اہلِ علم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ‘‘ ۔ بے شک اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ ایک تعلیم یافتہ شخص عاجز اور شائستہ ہوتا ہے، صرف اہلِ علم والے ہی اللہ کو پہچان پاتے ہیں کیونکہ علم سوال کرنا بھی ہے اور سوال جاننا بھی ہے ۔ جنہوں نے پھر صحیح معنوں میں علم کو جانا انہوں نے صحیح معنوں میں اپنے رب کو بھی جاناہے ، اسی علم کو پانے والے یا تو فریدالدین گنج شکر، بابا بھلے شاہ ،شاہ ولی اللہ اوررحمت اللہ کے ناموں سے مشہور ہوئے ۔
آج مغرب جس تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں ہے اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی عورت کو تعلیم یافتہ بنایا ہے اور ویسے بھی ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم جب کہ ایک عورت کی تعلیم ایک معاشرے کی تعلیم ہے۔ اگر عورت کو مہذب بنا دیا جائے تو معاشرہ خودبخود مہذب بن جائے گا کیونکہ اسی عورت کی گود میں ایک بچہ آدابِ دنیا سے روشناس ہوتا ہے ۔ نپولین بونا پارٹ کا قول ہے کہ آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔ ماں پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ماں ہی اپنے بچے کی صحیح تربیت کرسکتی ہے ، جو تبھی ممکن جب وہ خودایک بہترین ماحول میں پلی بڑھی ہو ۔ اگر ماں سچ بولتی ہو، دوسروں کی عزت کرنا جانتی ہو تو بچہ خودبخود ماں کی ساری باتیں ذہن میں اتارتا چلا جاتا ہے ۔
جہاں پر علم اخلاق اور تربیت کی ضمانت دیتا ہے لیکن ہمارا معاشرہ اس خزانے کو سمیٹنے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ میرا تعلق وزیرستان جیسے پسماندہ علاقے سے ہے ،یہاں کے لوگ جس قدر محنتی ہیں اس قدر رسم و رواج سے جکڑے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ مالی طور پرپسماندہ ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں لیکن اگر آپ ذہنی لحاظ سے پسماندگی کی شکار ہیں تو لمحہ فکریہ ہے ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے70 سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے لیکن ان کئی دہائیوں میں پاکستانی قوم کے رویے میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ۔ سوائے ان دوسالوں میں جب سے آرمی نے وزیرستان کا چارج سنبھالاہے ، علاقے میں نہ صرف امن آیا ہے بلکہ وہاں پر کئی ترقیاتی منصوبے بھی شروع کیے گئے ہیں ۔ اس سے قبل لڑکیوں کی تعلیم تو دور لڑکوں کی تعلیم پر بھی کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی تھی ۔
آپ اپنی بیٹیوں کو ڈگری ہولڈر بےشک نہ بنائیں مگر آپ ان کو اتنی تعلیم دلوادیں تاکہ وہ نئی نسل کی بہترین تعلیم و تربیت کر سکیں ۔ وزیرستان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کہ اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں مگر وسائل کی عدم دستیابی اورتعلیمی اصلاحات نہ ہونے کے باعث ان کے خواب صرف آنکھوں میں ہی سمائے رہتے ہیں ۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وزیرستان جیسے علاقے میں گرلز سکول کی منظوری دیں اور بنوں میں موجود میرے گاؤں سرکی خیل میں بھی گرلز سکول کاقیام عمل میں لائیں تا کہ آنے والی نسلوں کامستقل تابناک ہو کیونکہ غیر ملکی سازشوں کا زیادہ تر شکار فاٹا کے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ میں نا امید نہیں ہوں کیونکہ میرے علاقے کی خواتین مستقبل قریب میں نا صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو نگی بلکہ آنے والی نسل کودہشتگردی اور شدت پسندی جیسے واقعات سے محفوظ رکھ سکیں گی ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔