ہم وہاں اور وہ یہاں آ رہے ہیں!

 ہم وہاں اور وہ یہاں آ رہے ہیں!
 ہم وہاں اور وہ یہاں آ رہے ہیں!

  


فضاء میں جہاز بلند ہونے میں کافی وقت ہے، میں یہ کالم مختلف نوعیت کے جذبات کے تحت لکھ رہا ہوں،قریباً ڈیڑھ پونے دو ماہ تک اپنے ہوم ٹاؤن اور گھر سے ہزاروں میل دور جانے کا منتظر ہوں، برطانیہ کا یہ میرا دوسرا سفر ہے،پہلے اور اس کے درمیان قریباً34 سال کا فرق ہے۔میں 1988ء میں برطانیہ اور امریکہ ہو کر آیا اور قریباً پانچ ماہ دونوں ممالک میں گذارے،تب اپنے دوست نصر اللہ کی دعوت تھی، امریکہ میں استادِ محترم سید اکمل علیمی منتظر تھے۔اِس مرتبہ صرف برطانیہ تک اکتفا کیا کہ میری منجھلی صاحبزادی اور اُن کے شوہر کا بلاوا ہے۔ امریکہ میں مقیم متعدد اعزہ اور دوستوں نے اِس سفر کا علم ہونے پر وہاں آنے کی پُرزور دعوت دی لیکن دل نہیں مانا کہ تب اکمل صاحب زندہ اور صحت مند تھے،اُن کی میزبانی میں جو وقت گذارا وہ آج تک نہیں بھول پایا اور نہ ہی نصر اللہ خان کی محبت فراموش کر سکا ہوں،عرصہ ہوا اُن سے رابطہ نہیں ہو سکا۔اِس بار اُن کو تلاش کرنا ہو گا اور ممکنہ حد تک ڈاکٹر خالد رانجھا جانتے ہیں کہ وہ محترم کہاں ہیں۔ بہرحال یہ تلاش اپنی جگہ ہو گی، اصل فرمائش تو میری گڑیا بیٹی کی ہے، دونوں میاں بیوی نے بچوں میں شوق پیدا کر دیا ہے،ابھی اگرچہ وہ چھوٹے ہیں تاہم منتظر ہیں کہ نانا اُن کے لئے ”کھلونے“ لے کر آ رہے ہیں۔یہ بچوں کا شوق ہے، ورنہ جو کھلونے میرے بچوں نے یہاں سے اُن کے لئے پسند کئے ہیں، وہ سب وہاں سے بھی مل جاتے ہیں لیکن تحفہ تو تحفہ ہی ہوتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ گڑیا کا بڑا بیٹا پہلے  سامان کی تلاشی لینے پر مصر ہو گاپھر اُس کی فرمائش پر سوٹ کیس کھولنا پڑے گا۔سابقہ دور اور آج کے زمانے میں بہت فرق آ چکا، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا،کئی دوست مختلف قسم کی کئی کہانیاں سنا چکے لیکن میرا اِس بات کے سوا کوئی مسئلہ نہیں کہ وہاں موسم بہت سرد ہو گا تاہم یہ مجبوری ہے کہ بچوں نے جو پروگرام بنایا اُسے کرسمس اور نئے سال کی چھٹیوں کے حوالے سے بنایا۔اگرچہ اِس موسم کا نقصان یہ بھی ہے کہ بعض عزیز  ہستیاں میرے پہنچنے سے قبل پاکستان آ چکی ہوں گی،میری اہلیہ مرحومہ کی خالہ زاد تو خود اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے لئے براستہ دبئی لاہور کے لئے روانہ ہو چکی، وہاں سے بارات لے کر ہی یہاں پہنچے گی۔ بہرحال ہمراز احسن سے بات ہو چکی، وہ منتظر ہے، کوشش ہو گی کہ لندن میں بھی کچھ وقت گذار سکوں کہ پہنچنا تو برمنگھم ہے جہاں میری صاحبزادی مقیم ہے۔


آج کا دور ٹیکنالوجی کا ہے اور فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں اِس لئے کالم کا یہ سلسلہ برقرار رکھنے میں کوئی زیادہ دِقت نہیں ہو گی کہ آن لائن بھیجا جا سکے گا۔میں جمعے ہی کو برمنگھم پہنچ جاؤں گا کہ چار گھنٹے کے وقت کا فرق معاون ہو گا اور جہاز ہی میں آرام کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا  محترم سرور خان کی مہربانی سے یہ پرواز لاہور سے برمنگھم تک براہ راست نہیں جائے گی بلکہ راستے میں استنبول(ترکیہ) رکنا ہو گا، دو اڑھائی گھنٹے طیارہ تبدیل کرنے میں صرف ہوں گے اور پھر ترکش ایئر لائنز کے بوئنگ777 سے  ہی منزل تک کا سفر ہو گا کہ تاحال یورپ کے لئے پی آئی اے پر عائد پابندی ختم نہیں ہوئی۔خیالات کا ریلا ہے جو چلا آ رہا ہے، 1988ء سے اب تک بہت وقت گذر چکا، نہ تو صحت پہلے جیسی ہے اور نہ ہی حالات وہ ہیں،اب تو دوست کبھی موسم سے خوف دلاتے اور کبھی امیگریشن والوں کی باتیں کرتے ہیں،میں درویش سا بندہ ہوں، کوئی فکر اور پریشانی نہیں۔فقط وقت مسئلہ ہے کہ امیگریشن وغیرہ کی کارروائیوں میں وقت بھی تو صرف ہوتا ہے،ہم  ہال میں ہوں گے اور بچے باہر منتظر و  بے چین ہوں گے،احباب سے درخواست ہے کہ دعا کریں یہ سفر بخیر اور برکت والا ہو۔
گذشتہ صبح جب پارک میں گیا، دوستوں سے ملاقات ہوئی تو گفتگو دلچسپ رہی،ایک دوست کو تو یہ دلچسپی تھی کہ کیا میں وہاں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملوں گا تو عرض کیا، میں کسی سیاسی مقصد سے نہیں صاحبزادی کے پاس وقت گزارنے کے لئے جا رہا ہوں، اِس لئے خود کو اعزہ اور دوستوں تک ہی محدود رکھوں گا۔ یوں بھی آج کے جدید مواصلاتی دور میں تو پاکستان والے روز ہی میاں صاحب کا دیدار کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ اب تو وزیراعظم محمد شہباز شریف کے صاحبزادے ”چھوٹے شہباز“ بھی پرواز کر کے پہنچ رہے ہیں،ہم برطانیہ میں ہوں گے اور وہ عمرہ ادا کر کے اسلام آباد اُتریں گے، اِس لیے معذرت کہ سیاست کی بجائے تعلق داری کا سلسلہ ہو گاالبتہ انسان اور پھر صحافی ہوں، بچوں نے جو پروگرام مرتب کیا اِس کے مطابق تو پوری کرسمس اور نیا سال (عیسوی) بھی وہیں گزرے گا  اِس لئے اپنے قارئین کو بھی اپنے ساتھ دلچسپیوں میں شامل رکھنا ہو گا۔


جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو لکھ لکھ کر تھک گئے، کوئی نئی بات سامنے نہیں آتی، جان کی امان پاتے ہوئے عرض کروں کہ برادرم فواد چودھری جو جی میں آئے کہتے رہیں،عمران خان صاحب کی خود اپنی تضاد بیانیوں کے باعث اُن کی سیاست متاثر ہوئی ہے۔پنڈی میں لاکھوں کا مجمع بتانے والے ہمارے سجادہ نشین محترم شاہ محمود قریشی سے کوئی یہ تو پوچھے کہ اُن کے اپنے حلقہ اختیار ملتان سے کتنے لوگ شریک ہوئے تھے۔ بہتر ہو کہ غلط فہمی دور کی جائے،حقائق کا ادراک کیا جائے، عوام کا نام نہ لیں، اُن کا خیال بھی کریں اور خود اپنے صدر کی مفاہمت ہی کو مان لیں۔جہاں تک اپنے فرزند راولپنڈی کا تعلق ہے تو ان کا مشن ہی محاذ آرائی جاری رکھنا ہے وہ روزانہ حزبِ اقتدار اتحاد کی کسی شخصیت کو نشانہ بنا لیتے ہیں۔ شہباز شریف سے  ٹلے تو آصف علی زرداری کے پیچھے پڑ گئے، وہاں سے ہٹے تو مولانا فضل الرحمان کو ہدف بنا لیا، پنجاب میں کہتے ہیں: ”رنڈی تے رُنڈاپا کٹ دی اے، مشٹنڈے نئیں کٹن دیندے“(بیوہ تو اپنی بیوگی عزت سے گذارنا چاہتی ہے لیکن محلے کے مسٹنڈے ایسا نہیں کرنے دیتے) سو ایک تو خان صاحب خود ہٹیلے ہیں اوپر سے اُن کو باہمت شیخ رشید، اسد عمر اور فواد چودھری  مل گئے ہیں، اِن حضرات کے پاس جیب میں ہروقت ماچس ہوتی ہے کہ کہیں آگ بجھنے نہ پائے، خود ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ اسد عمر لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بنچ سے غیر مشروط معافی حاصل کر لیتے ہیں۔ فواد چودھری تو بہت کچھ کہہ گزرنے کے بعد اب اداروں سے مفاہمت کی بات کرتے ہیں،کہتے ہیں ہم تو عدلیہ اور اداروں سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں،حکومت ایسا نہیں کرنے دیتی۔ کیا جب یہ بولتے ہیں تو فیڈنگ حکومت کی ہوتی ہے؟ عرض ہے اللہ کا نام لیں، عوام کا دھیان کریں،مفاہمت کی طرف آئیں۔ نیت صاف ہو تو مذاکرات بھی اور فیصلہ بھی ناممکن نہیں،ہم نے بڑے بڑے پھڈے ختم ہوتے دیکھے ہیں،حتیٰ کہ ہماری تو سیاسی تاریخ ہی یہ ہے کہ کل کے حریف آج کے حلیف ہوتے ہیں،اگر گردن جھکا کر دیکھ لیں تو گزشتہ آٹھ سے دس مہینے کے عرصے ہی سے علم ہو جاتا ہے کہ کون کہاں تھا اور اب کہاں ہے؟
مزید عرض کر دوں کہ برطانیہ میں گزرنے والے وقت کو اپنے لیے گذارنے کی کوشش کروں گا کہ یہاں کی عداوت وہاں بھی پہنچی ہوئی ہے اِس لیے اجتناب ہی بہتر ہے،البتہ اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور پروفیشنل بھائیوں سے بات چیت تو ہر موضوع پر ہو گی،حتیٰ کہ برطانیہ سمیت یورپ میں ہونے والی مہنگائی بھی زیر غور آئے گی اور پاکستان کے حوالے سے بھی بات ہو گی! اجازت دیں کہ پرواز کے لئے بلایا جا رہا ہے،انشاء اللہ اب برمنگھم سے بات ہو گی۔

مزید :

رائے -کالم -