ہمارا معاشرہ انتہائی اذیت ناک اندازہائے فکر پر مشتمل ہے،آپ تمام عمر سر جھکائے اپنی موت تک افسردگی کے عالم میں پشیمانی میں مبتلا رہتے ہیں 

ہمارا معاشرہ انتہائی اذیت ناک اندازہائے فکر پر مشتمل ہے،آپ تمام عمر سر ...
ہمارا معاشرہ انتہائی اذیت ناک اندازہائے فکر پر مشتمل ہے،آپ تمام عمر سر جھکائے اپنی موت تک افسردگی کے عالم میں پشیمانی میں مبتلا رہتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:74
اس قسم کا احساس، جنسی تعلقات، رومان اور شادی جیسے معاملات میں بھی بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے اور بچوں کے بڑے ہونے تک ا س کے اثرات نمایاں طور پرموجود رہتے ہیں اور ان اثرات کی موجودگی کا اظہار بھی بڑی عمر میں اکثر مواقع پر نظر آتا ہے۔
-2 خودساختہ اور خودمسلط کردہ ندامت اورپشیمانی: ندامت اورپشیمانی کی یہ قسم انتہائی خطرناک اور اذیت ناک ہے۔اس صورتحال میں ایک انسان ان امور کے باعث غیرفعال اور بے عمل ہو جاتا ہے جو اس نے حال میں انجام دیئے ہوتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان امور کا تعلق بچپن سے ہو۔ یہ احساس شرمندگی اور ندامت اس وقت انسان پر مسلط ہوتی ہے جب ایک اخلاقی قدر یا روایت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں انسان ایک طویل عرصے تک احساس ندامت وپشیمانی میں مبتلا رہتاہے، اگرچہ اس کے عمل اور فعل کے باعث نہ کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچی ہوئی ہوتی ہے اور نہ ہی حالات پر کوئی اثرات مرتب ہوئے ہوتے ہیں۔ خودساختہ اور خو دپر مسلط کردہ ندامت اور پشیمانی میں دکان میں سے کوئی معمولی سی چیز چرانے کی کوشش‘ عبادت کے لیے نہ جانے کا عمل یا ماضی کی کوئی غلطی شامل ہو سکتی ہے۔
لہٰذا اب آپ کو چاہیے کہ آپ دیکھیں کہ آپ کس قسم کی ندامت وپشیمانی میں مبتلا ہیں۔ بچپن میں لاحق اس شرمندگی کے احساس میں مبتلا ہیں کہ آج بھی آپ اپنے سے بڑے اور بااختیار فرد کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اپنے موجودہ لمحات میں کسی خودساختہ اور خو دپر مسلط کردہ احساس شرمندگی میں مبتلا ہیں۔ دونوں طرح یہ احساس ندامت وپشیمانی انتہائی احمقانہ نوعیت کا حامل ہے اور سب سے زیادہ بیکار اور بے مصرف جذبہ و احساس ہے۔ آپ تمام عمر سر جھکائے اپنی موت تک افسردگی کے عالم میں ندامت اورپشیمانی میں مبتلا رہتے ہیں حالانکہ اس ندامت وپشیمانی کا ایک ذرہ بھی ماضی کے واقعات کو تبدیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ آپ کا یہ احساس شرمندگی ماضی کی یادوں کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے حالانکہ تاریخ اور ماضی جوں کا توں رہتا ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں۔
آپ جن امور کے متعلق ندامت وپشیمانی میں مبتلا ہیں، آپ ان کے حوالے سے) اپنے روئیے اور طرزعمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ابتداء کر سکتے ہیں۔ہمارا معاشرہ انتہائی تکلف دہ اور اذیت ناک اندازہائے فکر پر مشتمل ہے جو آپ کو اس قسم کے پیغامات بھیجتا ہے: ”اگر یہ تفریح ہے تو آپ کو اس ضمن میں شرم آنی چاہیے۔“ اس قسم کے اندازہائے فکر میں سے آپ کے کئی قسم کے خودساختہ احساسات ندامت وپشیمانی نمایاں کیے جا سکتے ہیں۔ شاید آپ نے یہ سیکھا ہے کہ آپ کو کسی تفریح میں حصہ نہیں لینا چاہیے یا آپ کو کسی غلیظ مذاق میں شریک نہیں ہونا چاہیے وغیرہ۔ چونکہ آپ کو تفریح سے روکنے کے لیے یہ معاشرتی پیغامات اورہدایات نہایت زبردست نوعیت کے ہیں اور ہر طرف موجود ہیں اورآپ انہیں نظرانداز بھی نہیں کر سکتے ہیں لیکن پھر اگر آپ تفریح کے ضمن میں ان پیغامات پر کان دھرتے ہیں تو پھر آپ کی یہ ندامت وپشیمانی سراسر خودساختہ اور خود مسلط کردہ ہے۔
آپ ندامت وپشیمانی میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے لیے خوشی کا اہتمام کر سکتے ہیں۔آپ خود میں یہ صلاحیت پیداکر سکتے ہیں کہ آپ خود کو اس قابل سمجھیں کہ آپ ایسے شخص ہیں جو خود کواہم اور قابل قدر سمجھتے ہوئے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ہر کام سرانجام دے سکے‘ دوسروں کو بھی نقصان نہ پہنچے اور آپ بھی ندامت وپشیمانی میں مبتلا نہ ہوں۔ اگر آپ کسی ایسے فعل کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو آپ کو پسند نہیں تو پھر آپ خود سے یہ وعدہ اور عہد کر سکتے ہیں کہ آپ اس قسم کا کام آئندہ کبھی نہیں انجام دیں گے لیکن اگر آپ اس احساس ندامت وپشیمانی کو خو دپر طاری رکھیں گے تو یہ آپ کے لیے قطعی مفید و مددگار نہیں ہو گا۔ اس کے باعث آپ نہ صرف غیرفعال اور بے عمل ہو جائیں گے بلکہ اس امر کا امکان بہت زیادہ بڑھ جائے گا کہ آپ اس ناپسندیدہ امر کو دوبارہ سرانجام دیں گے۔ندامت اور پشیمانی بذات خود اس لحاظ سے مفید ہے کہ آپ اس میں بار بار مبتلا ہونے ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں جب تک آپ احساس شرمندگی و ندامت کے بیہودہ اور مکروہ سلسلے وار چکر میں پھنسے رہی گے، آپ اس وقت تک موجودہ لمحے (حال) کی خوشیوں اور مسرتوں سے محروم رہیں گے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -