کچھ لطائف الادب!
ذرا منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے، دوسری قسم کا کالم ملاحظہ ہو۔ہلکا پھلکا۔ادب اور ادیبوں اور دانشوروں سے متعلق کالم۔ خوبی ءگفتار اور بذلہ سنجی کی مثالیں شعراءو ادباءکی مختلف تحریروں سے نچوڑ کی صورت یہ ”لطائف الادب“ آپ کی نذر ہیں۔ملاحظہ ہوں:
فی البدیہہ
خاکوں کی کتاب”ان سے ملیے“ کے مصنف مظفر گیلانی اپنی متذکرہ کتاب میں لکھتے ہیں:
پٹنہ کالج میں ایک مشاعرے کی صدارت پرنسپل عبدالمنان بیدل کررہے تھے۔منفرد لب و لہجے کے شاعر حضرت نوح ناروی نے جو غزل سنائی اس کا مقطع تھا:
کہا اے نوح میں روﺅں ؟ کہا اے نوح تم روﺅ!
کہا طوفان کا ڈر ہے، کہا طوفان تو ہوگا
پروفیسر اختر اورینوی نے بھی اسی زمین میں فی البدیہہ ایک غزل سنا ڈالی،ایک شعر تھا:
کہا کالج کو مَیں جاﺅں، کہا کالج کو تم جاﺅ!
کہا منان کا ڈر ہے، کہا منان تو ہوگا
٭٭٭
کیا بگاڑوں؟
پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے۔ وہاں ایک چوکیداران کے خلاف بہت بولتا تھا۔ایک بار کسی استاد نے اس کی بدزبانی کی شکایت کی کہ ”پطرس صاحب! فلاں چوکیدار آپ کے خلاف باتیں کرتا رہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ پطرس صاحب میرا کچھ نہیں بگار سکتے“۔پطرس بخاری نے کہا۔وہ ٹھیک کہتا ہے کہ مَیں اس کا کچھ نہیں بگار سکتا کیونکہ اس کے پاس دولت ہے نہ عزت، شہرت ہے نہ عہدہ، میں اس کا کیا بگاڑوں؟“
کتاب کی تاثیر
”تیسری آنکھ“ اور ”تمہارا پاﺅں، تمہارا سر“ جیسی دو منفردکتابوں کے ”مشہور مصنف“ کنور عبدالماجد نے الحمراءادبی بیٹھک لاہور میں ناصرزیدی کو بتایا کہ 2001ءمیں جب مَیں نے اپنی پہلی تصنیف ”تیسری آنکھ“جماعت اسلامی کے رہنماقاضی حسین احمد کو پیش کی تو وہ کتاب پڑھنے کے چند روز بعد ہی جیل چلے گئے“۔
ناصر زیدی نے مشورہ دیا کہ اب آپ اپنی نئی کتاب ”تمہاراپاﺅں، تمہارا سر“ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پیش کردیں“۔
پاس بیٹھے طنازکالم نویس عطاءالحق قاسمی نے گرہ لگائی ”ہو سکتا ہے، وہ کتاب پڑھے بغیر ہی جیل چلے جائیں“....!
بددماغ۔اچھا شاعر
بھوپال کے ایک مشاعرے میں عمیق حقی اپنی غزل سنا رہے تھے۔مطلع تھا:
آوارگانِ شہر میں گردانتے تو ہیں
چلئے کسی طرح وہ ہمیں جانتے تو ہیں
جب یہ شعر پڑھا:
محفل میں اپنی بات پر ناراض ہی سہی
تنہائیوں میں اپنا کہا مانتے تو ہیں
فراق گورکھپوری کی آواز آئی:”اچھا ہے، اچھا ہے مگر محفل میں سنانے کا نہیں“۔
عمیق حنفی نے برجستہ جواب دیا:”حضور! بزدلوں کی تقلید بُری نہیں ہوتی، یہ آپ ہی کا انداز ہے“۔
فراق نے کہا:”لڑکا بددماغ ہے، ضرور اچھا شاعر بنے گا“۔
حکماءکہتے ہیں....
ایک مرتبہ مدرسہ تکمیل الطب لکھنو کے چند طلبا بیٹھے اس طبی مسئلے پر گفتگو کررہے تھے کہ غذا جب بدن میں داخل ہوتی ہے تو کیونکر جزو بدن بن جاتی ہے۔خواجہ عشرت لکھنوی، جو مستند شاعر تھے، ان کی یہ گفتگو سن رہے تھے، انہوں نے فی البدیہہ درج ذیل شعر موزوں کیا:
حکماءکہتے ہیں، ہوتی ہے غذا جزو بدن
ہم تو تحلیل ہوئے جاتے ہیں غم کھانے سے
ساغر کی تہہ میں
حضرتِ سیماب اکبر آبادی اپنے چہیتے شاگرد ساغر نظامی کے ساتھ لاہور وارد ہوئے اور یہاں ٹکناچاہا، مشاعروں میں جھڑپیں ہوئیں جس سے محاذ کھل گیا، وجہ نزاع ساغر نظامی بھی تھے جو بلا کے خوش آواز تھے۔سرخ و سپیدرنگ بونا سا قد سر تا قدم ادا ہی ادا، مشاعرہ پڑھتے تو سامعین کو بہالے جاتے”نیاز مندانِ لاہور“ کے واحد شاعر ابوالاثر حفیظ جالندھری تھے۔گلا انہوں نے بھی نورانی پایا تھا ایک نیام میں دو تلواریں سماسکتی ہیں نہ ایک مشاعرے میں دو گلے....نتیجہ یہ کہ آپس میں ٹھن گئی۔
سرشیخ عبدالقادر کی صدارت میں ایک طرحی مشاعرہ تھا۔قافیہ سیلاب تھا۔ردیف تھی ”رہ گیا“۔ساغر نظامی نے مقطع میں دُون کی لی حفیظ جالندھری پر طنز کیا:
ساغر کے زمزموں کی تب و تاب الاماں
ہر معرکے میں شاعر پنجاب رہ گیا
”نیازمندان“ لاہور کے سرکردہ رکن مولانا عبدالمجید سالک، پھریری لے کر اٹھے:
میاں صاحبزادے! وہ دوسرا مقطع بھول گئے؟
پیرِ مُغاں کی بادہ گُساروں سے ٹھن گئی
ساغر کی تہہ میں قطرئہ سیماب رہ گیا
مشاعرہ لوٹ پوٹ ہوگیا۔سیماب اکبر آبادی کٹ کے رہ گئے ساغر نظامی کا رنگ اڑ گیا۔
[خاکہ ”عبدالمجیدسالک“ از:شورش کاشمیری]
بامعنی تحریف
ایک مشاعرے میں حضرت ندرت میرٹھی نے اپنی غزل کا مطلع پڑھا:
دل گیا جان گئی یار کے پیکان کے ساتھ!
گھر سے گھر والے بھی رخصت ہوئے مہمان کے ساتھ
تو سامعین نے بے حد داد دی۔بار بار مطلع پڑھوایا گیا، اسی دوران سامعین میں سے کسی صاحب نے بلند آواز سے یوں مصرع دوہرایا کہ واہ مولانا کیا خوب ارشاد فرمایا:
گھر سے گھر والی بھی رخصت ہوئی مہمان کے ساتھ
یہتحریف شدہ مصرع سن کر محفل زعفران زارہوگئی
اور آخر میں اس خاکسار کا ایک مقطع:
ہر چند تُرش حرف دمِ گفتگو سہی
لیکن طبیعتوں کا تو ناصر بُرا نہیں