انسان بنو....سکون ملے گا
مسلم لیگ(ق) کے صدر سینیٹر چودھری شجاعت حسین ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹررویو دے رہے تھے، تو انٹرویو لینے والے نے روایتی سوال کیا کہ اگر آپ سیاست دان نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ چودھری شجاعت حسین نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ برجستہ جواب دیا کہ مَیں پھر انسان ہوتا۔ چودھری صاحب کے جواب کو میرے علاوہ بہت سے لوگوں نے سراہا، بلکہ اس کے بعد چند ایک دوسرے سیاست دانوں نے یہ جواب دیا کہ انسان ہوتا، میرے ملک کے بڑے بڑے سیاست دانوں اور رہنماﺅںکو اپنے ملک کے عوام کے لئے انسان بن کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں بدنظمی کا سلسلہ اوپر کی سطح سے شروع ہوا تھا، معاشرے سے بدنظمی کو ختم کرنے، خود غرضی اور مفاد پرستی کو ختم کرنے کے لئے اوپر کی سطح کے سیاست دانوں، مذہبی رہنماﺅں کو عوام کے سامنے سچا انسان بن کر آنے کی ضرورت ہے۔
ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، تو ہر طرف عجیب نفسا نفسی، پریشانی، ڈپریشن اور بے سکونی کی صورت حال نظر آئے گی، اس طرح لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جنگ لگی ہوئی ہے، جہاں ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے لڑ رہا ہے، مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے، اور وہ ہے وہ خود غرضی، مفاد پرستی۔ معاشرے کا ہر انسان اس میں ایک کردار ادا کر رہا ہے، سب ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہو کر اندھا دھند بھاگ رہے ہیں، تمام لوگوں پرجنون سوار ہے، اپنے اپنے مفادمیں مگن ہیں، نہ ان کو دوسروں کی آواز سنائی دیتی ہے اور نہ ہی صحیح نظر آتا ہے، ہر کوئی دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے۔ سب ایک دوسرے کو کچلتے مسلتے، دھکیلنے۔ حق مارتے، ڈاکے ڈالتے، رشوت لیتے، غلط کاریاں کرتے چلے جا رہے ہیں، صرف دولت کے حصول اور آگے نکلنے کی کوشش میں ملک کے لوگوں، سیاست دانوں اور مذہبی رہنماﺅں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ہم مسلمان ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں، ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے اور کمزوریاں ڈھونڈنے میں مگن ہیں، لیکن اپنے اپنے کردار پر نظرتک نہیں ڈالتے۔ ہم کو بحیثیت مسلمان ناشکرے انسان کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر غور کرنے کی ضرورت ہے، باری تعالیٰ فرماتے ہیں.... اگر مَیں تمہارا رزق بند کر دوں، تو وہ کون ہے، جو تمہیںرزق دے گا۔ اسی طرح ہمارے پیارے نبی پاک نے فرمایا کہ تم اپنے اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو ،جس طرح بھروسہ کرنے کا حق ہے، و ہ تمہیں اس طرح رزق دے گا، جس طرح وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے۔ آپ سب لوگ دیکھتے ہیں کہ تمام پرندے صبح بھوکے اپنے گھونسلوں سے روانہ ہوتے ہیں اور شام کو اپنا اپنا پیٹ بھر کر اپنے اپنے گھونسلوں میں آتے ہیں، تو سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ رزق دینا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔
ہم کو تو بحیثیت مسلمان سب سے پہلا سبق ہی اللہ تعالیٰ پر بھروسے کا ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رزق اور زندگی اپنے ذمے لے رکھی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی انسان نہیں سمجھتا۔ انسان اپنی عقل اور طاقت کے زور پر زیادہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک رزق وہ ہے، جو انسان کے پیچھے بھاگتا ہے، ایک رزق وہ ہے، جس کے پیچھے انسان بھاگتا ہے، تو پھر وہ دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ اس مقام پر انسان چاہے حلال رزق کمائے یا حرام،اس کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، چونکہ حلال اور حرام کے درمیان ایک ہی چیز حائل ہوتی ہے، وہ ہے ضمیر۔ جب خواہشات، لالچ، مفادات کا حصول ضمیر پر حاوی ہو جاتا ہے، تو پھر حرام حلال کے درمیان کا فرق بھول جاتا ہے۔ انسان کی حرص جب بڑھ جاتی ہے، تو انسان اس کو ضروریات کا نام دیتا ہے، اس خواہش کو پورا کرتے کرتے انسانوں کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے انسانوں، خصوصاً پاکستانی مسلمانوںکوان کے سابق حکمرانوں کی زندگیوں کی کہانیاں دکھا دی ہیں، بڑے بڑے جابر حکمرانوں کے چند منٹوں میں نام و نشان مِٹ جاتے ہیں، امیر ترین لوگوں کو دربدر کر دیا تاکہ وہ لوگ اور ان کو جاننے والے اپنی زندگیوں میں سبق حاصل کریں، لیکن تمام حالات و واقعات کے باوجود پاکستانی لوگ اور حکمران بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑ میں شامل ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ہم کو ضرورت کے مطابق رزق اور وسائل عطا کر دے، تو پھر ہم کو صبر و شکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کامیاب وہ لوگ ہیں، جو اللہ کی عطا پر قناعت کرتے ہیں اور دوسرے انسانوں کی خدمت کا فریضہ بغیر کسی لالچ کے جاری رکھتے ہیں۔ حکمران جانے والے حکمرانوں سے بہتر اصول اپنانے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ جو فریضہ اللہ تعالیٰ ان کو ادا کرنے کا موقع دیتا ہے۔ وہ اپنے اپنے مفادات کے حصول میں ضائع کر دیتے ہیں، ہم مسلمان ہیں، اگر ہم اپنے خلفائے ر ا شدین کی تاریخ کو دیکھیں ،ان کے طرزِ حکمرانی کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارہ کریں، تو ہمیںبھی غیر مسلم لوگوں کا دست ِ نگر نہ ہونا پڑے، لیکن ہم نے اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی بجائے عیاش، خود خرض، مفاد پرست اور ہوس کے شکار لوگوں کی تقلید شروع کر رکھی ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت کا واقعہ تاریخ میں درج ہے کہ ان کے دور میں کوفہ میں امن و امان کا مسئلہ بہت خراب ہوا، پاکستان خصوصاً شاید کراچی اور بلوچستان سے بھی زیادہ قتل و غارت اور لوٹ مار ہوتی ہو گی،عوام کے مطالبے پر کوفے کے گورنر کو تبدیل کرنا پڑا، تو حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک صحابی حضرت سلمان فارسی ؓکو کوفے کا گورنر لگانے کا حکم صادر فرمایا اور پہلے گورنر کو تبدیلی کا پروانہ جاری کر دیا، جس روز حضرت سلمان فارسی ؓ نے کوفے کے دارالخلافہ میں پہنچنا تھا، لوگ قطار میں استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے، تو حضرت سلمان فارسی ؓ، چونکہ بہت عمر رسیدہ بزرگ تھے، وہ ان لوگوں کے درمیان سے دھکے کھاتے سیدھے ایک مسجد میں چلے گئے۔ عصر کی نماز کی اذان دی یا دلوائی اور امامت کے لئے آ گئے یا نماز میں کھڑے ہو گئے اور نماز کے بعد لوگوں کو، نمازیوں کو بتایا کہ مجھے خلیفہ حضرت عمر فاروق ؓ نے گورنر بنا کر بھیجا ہے۔ یہ میرا پروانہ ہے، تو لوگ بہت حیران بھی ہوئے۔
اللہ اور اُس کے رسول نبی پاک کے احکامات کو ماننے والے خوش ہوئے، ان کی گورنری کی پہلی رات گزری، بالکل اُسی طرح ، جس طرح سابقہ گورنر کی حکومت میں گزری تھی، بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اتنے بوڑھے بابے نے کیا کرنا ہے، لوگوں نے مسجد میں شکایت کی کہ یہاں کی انتظامیہ میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی، تو اُسی رات نماز عشاءکے بعد آپ حضرت سلمان فارسی ؓ کو ایک کتا نظر آیا آپ نے کتے کو حکم دیا کہ شہر سے اپنے سارے ساتھیوں کو بلا کر لاﺅ، چنانچہ شہر کے سارے کتے حاضرِ خدمت ہو گئے۔ آپ ؓ نے حکم فرمایا: آج رات12بجے کے بعد جو بھی شخص گھر سے باہر نظر آئے، اس کا گوشت تم پر جائز ہے، چنانچہ کتوں نے سارے شہر میں پہرہ دیا، جو بھی شخص گلیوں ، بازاروں میں ملا، سب کو کاٹا، کچھ بھاگ گئے، اگلے روز مسجد میں شہریوں نے گورنر حضرت سلمان فارسی ؓ سے عرض کی کہ حضور !کتے گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیتے، ان کو حکم کرو کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں، ہسپتالوں میں جانا ہوتاہے، روزگار کے سلسلے میں باہر نکلنا ہوتا ہے، چنانچہ گورنر حضرت سلمان فارسی ؓ نے شہر کے کتوں کو حکم دیا کہ جو بھی آدمی ملے اُس کی نیت دیکھ لیا کرو، تاریخ بتاتی ہے کہ شہر میں امن و امان صحیح ہو گیا اور عوام نے محسوس کیا کہ گورنر تبدیل ہوا ہے۔
حضرت سلمان فارسی ؓ ایرانی شہری تھے، وہ سرکار مدینہ کی تلاش میں فروخت ہوتے ہوئے مکہ میں پہنچے تھے۔ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی آنکھوں کے اوپر سے کھال اٹھا کر یکھتے تھے۔یہ بہرحال ایک مسلمانوں کی تاریخی بات تھی، ہم چونکہ اپنے اسلاف کی تاریخ بھول گئے ہیں، اسی لئے اربوں کی تعداد میں مسلمانوں کو ایک چھوٹی سی ریاست اسرائیل نے دبا رکھا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان انتشار کا شکار ہیں، وہ غیر مسلموں کے دستِ نگر ہیں، حالانکہ دنیا میں بہت سے مسلمان ممالک ہر قسم کی معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں، وہ دوسرے غریب مسلمان ملکوں کی مدد کر سکتے ہیں، لیکن نہیں کرتے، چونکہ غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کے درمیان انتشار ڈالتی رہتی ہیں، یہی پاکستان کا حال ہے، ہم اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہیں، ہم اپنے وسائل پر بھروسہ نہیں کرتے، ہر آنے والا جانے والے کو بُرا بھلا کہہ کر اپنا وقت پورا کرتا ہے۔ اگر پاکستان کے بڑے بڑے لوگ، حکمران، سیاست دان اور مذہبی رہنما خود کو بطور نمونہ پاکستانی عوام کے سامنے پیش کر یںتو بہت کچھ بدل جائے گا۔پاکستانی حکمران عوام سے قربانی مانگتے ہیں، لیکن خود قربانی دینے سے گریز کرتے ہیں، اسی لئے عوام ان پر اعتبار اور بھروسہ نہیں کرتے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستانی لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی بجائے ایک پاکستانی قوم بنایا جائے، پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ کے نعرے ختم کئے جائیں، ملک کے حالات بہت ہی گھمبیر ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی ، قتل و غارت، لوٹ مار نے ملک کی سلامتی کو مشکوک کر دیاہے، ذمہ دار لوگوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی سخت ضرورت ہے، سیاست بعد کی بات ہے، انسان بنو۔
مکرمی: حکومت کی طرف سے گندم کی خریداری کے جو مراکز قائم کئے جاتے ہیں ان میں گندم فروخت کرنے کے لئے پٹواری سے زمین کی فرد لینا ضروری ہے جو عام کاشتکار کے لئے مشکل کام ہے۔ گندم خریداری مراکز میں گندم کا وزن کروانے میں دوتین دن لگ جاتے ہیں، جس سے ٹرانسپورٹ کاخرچ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح گندم فروخت کرنے کے لئے کاشتکار کو کافی پریشانی ہوتی ہے۔ کاشتکارسردیوں کی یخ بستہ راتوں میں پانی لگاکر گندم کی فصل تیار کرتا ہے ،پھر اسے فروخت کرنے کے لئے کاشتکار کو کافی مشکلات درپیش آتی ہیں.... لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب سے عاجزانہ التماس ہے کہ گندم کی خریداری کی سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے اور گندم کی خرید وفروخت کھلی مارکیٹ میں کی جائے۔
رانا محمود احمد جنرل سیکرٹری
پریس کلب پل گیارہ سرگودھا
مکرمی ! دنیا بھر کے تعلیمی حلقوں کی یہ معروف روایت ہے کہ یونیورسٹیاں جن افراد کو قومی یا سماجی خدمات کی بناءپر پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دیتی ہیں، وہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھتے، لیکن ہمارے ہاں یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض جرائد واخبارات ایسے افراد کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ مستقل استعمال کررہے ہیں، جیسے ڈاکٹر نواز شریف ، ڈاکٹر مجید نظامی .... وغیرہ، جو صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ ڈگری ان افراد کے لئے باعث اعزاز اور باعث مشہوری نہیں، بلکہ ان کی خدمات اس طرح کی کسی ڈگری سے زیادہ قابل عزت اور قابل احترام ہیں، لہٰذا جو صحافی اور دانشور ان حضرات کے لئے ڈاکٹر کا سابقہ استعمال کررہے ہیں ، ان سے درخواست ہے کہ وہ اس سے احترازفرمائیں اور ایک اچھی روایت کو قائم رہنے دیں کہ ڈاکٹر لکھنا ان پروفیسروں کا حق ہے جو شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں یا پھر طبیب ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد امین
136نیلم بلاک ،علامہ اقبال ٹاﺅن ، لاہور