پنجاب اسمبلی:حکومت کیلئے یومِ پسپائی، سیاستدانوں کی زبان اور’ ایمان ‘ میں کھلا تضاد
لاہور ( محمدنوازطاہر /پریس گیلری سے )پنجاب اسمبلی کا دوروز کے وقفے سے شروع ہونے والا اجلاس حکومت کیلئے ’پسپائی ‘ کا باعث بن گیا۔ سپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں اجلاس شروع ہوا تو371کے ایوان میں صرف 27اراکین موجود تھے جس پر اپوزیشن رکن سردار علی رضا دریشک نے کورم کی نشاندہی کردی تاہم وزراءاور کورم پورا کرنے کیلئے ’مقرر افسروں‘ نے ٹیلی فون کی مدد سے ارکان کو نصف گھنٹے میں ڈھونڈ دھونڈ کر کورم پورا کرلیا۔اس مقصد کیلئے اسمبلی میںموبائل فون جام کرنے والا سسٹم بھی عارضی طور پر ’مفلوج‘کردیا گیا۔اجلاس شروع ہوتے ہی صحافی پریس گیلری سے واک آﺅٹ کرگئے اور جب سپیکر کی قائم کردہ کمیٹی صحافیوں سے مذاکرات کیلئے پہنچی اور صحافیوں نے وفاقی وزیر خرم دستگیر کیخلاف گوجرانوالہ پریس کلب کے صدر و سیکرٹری کوقتل کی دھمکیاں دینے پر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تو حکومتی ارکان ادھر ادھر ہوگئے اور ایوان میں بھی خرم دستگیر کا نام لینے سے گریز کیا گیا تاہم اپوزیشن رکن سردار شہاب الدین نے مداخلت کرتے ہوئے ایوان کو صحافیوں کے مطالبے سے آگاہ کیا تو وزیر قانون نے ’عذر ‘ پیش کیا کہ جو منتخب نمائندہ اس ایوان کا حصہ نہیں اس کا نام لینے سے گریز کیا جائے، خرم دستگیر والا معاملہ انہیںغلط فہمی کی بنیاد لگتا ہے تاہم یہ معاملہ صحافیوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کرلیا جائے گا ۔اجلاس کے دوران جب اپوزیشن رکن سردار شہاب الدین نے ضلعی ترقیاتی کمیٹیوں میں اپوزیشن کو نمائندگی نہ دینے اور الیکشن ہارنے والے حکومتی امیدواروں کے ذریعے ترقیاتی کام کرنے کا معاملہ اٹھایا تو وزیر قانون نے قانونی نکتہ اٹھایا کہ منتخب حکومت کو ترقیاتی کاموں کی نشاندہی، تکمیل اور مانیٹرنگ کیلئے انتظامی کمیٹیاں بنانے کا اختیار حاصل ہے، یہ کمیٹیاں پارلیمانی نہیں انتظامی ہیں جن میں اپوزیشن کو شامل کرنا یا نہ کرنا حکومت کی مرضی ہے اور وہ ان میں کسی کوبھی شامل کرسکتی ہے ،اگر اپوزیشن اراکین چاہیں تو حکومت کا حصہ بن جائیں ،انہیں کمیٹیوں سے آگے بھی کچھ آفر کیا جائے گا۔سردار شہاب الدین نے استفسار کیا کہ یہ کس قانون اور ضابطے کے تحت بنائی جاتی ہیں تو وزیر قانون نے کسی قانون و ضابطے کے بجائے واضح کیا کہ بجٹ منظور کرتے ہوئے تمام اختیار گورنر کو دیا جاتا ہے جو وفاقی نمائندہ ہوتا ہے جبکہ چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ ہوتا ہے جس کی رضا سے یہ اخرجات ہوتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے میاں اسلم اقبال نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے وزیر قانون کو فوجی صدر پرویز مشرف اور پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کا دوریاد دلایا کہ اس دور میں حکومت نے میرے اپنے حلقے میں ن لیگ کے ایم این اے کو اپوزیشن ممبر کی حیثیت سے فنڈ دیے اور ان کی نگرانی میں ترقیاتی کام مکمل کروائے میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ جا کر دیکھیں یہ تختیاں ابھی تک لگی ہوئی ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن 90کی دہائی میں نہ جائے،اگر حکومت جمہوری روایات کو بلڈوز اور من مانی کرنا چاہتی ہے تو اپوزیشن بھی تعاون نہیں کرے گی ، اپوزیشن یہ ایوان نہیں چلنے دی گی اور اس کا بائیکاٹ کرکے ایوان سے باہر اسمبلی لگائے گی ۔ اس دھمکی کے بعد وزیرقانون نے کہا کہ آپ جہاں مرضی اسمبلی لگائیں لیکن میاں اسلم اقبال کے’ چیلنج ‘ پر خاموشی اختیار کرلی۔اس مرحلے پر ان کی مدد کیلئے ذعیم قادری اٹھے جن کا کہنا تھا کہ ترقیاتی فنڈزکا مطالبہ تحریکِ انصاف کے منشور کی نفی ہے ،ایک طرف تحریکِ انصاف ترقیاتی فنڈز کی مخالفت کرتی ہے تو دوسری جانب اس کا تقاضا کرتی ہے تو اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے واضح کیا کہ تحریکِ انصاف کا یہی منشور ہے اور وہ سمجھتی ہے ترقیاتی فنڈز اراکین اسمبلی کو رشوت ہے، یہ نہیں ہونے چاہئیں لیکن حکومت بلدیاتی الیکشن کروائے اور یہ فنڈز بلدیاتی اداروں کے سپرد کرے، ہم ان کا مطالبہ نہیں کریں گے مگر یہ بھی مناسب نہیں کہ ترقیاتی فنڈز شکست خوردہ لوگوں کو دیے جائیں، یہ منتخب نمائندوں اور اس ایوان کے تقدس کی نفی ہے ، وزیراعلیٰ ایوان میں آئیں اور جواب دیں ۔بحث و مباحثے کے بعد ایک بار پھر یہ طے پایا کہ وزیرقانون اپوزیشن اراکین کی ملاقات کیلئے وزیراعلیٰ سے وقت مانگیں گے ۔پریس گیلری اس کارروائی پر مسلم لیگ ن کی مشرف دور کی ترقیاتی فنڈز اور جمہوری روایات کی پاسداری نہ کرنے کی تقریریں دہراتی رہی اور اس نکتے پر بحث کرتی رہی کہ اپوزیشن کے زوردار مطالبے اور دھمکی کے بعد وزیرقانون جب وزیراعلیٰ اور اپوزیشن اراکین کو ایک ساتھ بٹھا کر ترقیاتی فنڈز اور ترقیاتی کمیٹیوں میں شامل کرنے کی بات کریں گے تو وہ قانون اور ضوابط کہاں جائیں گے جن کا وہ کچھ دیر پہلے حوالہ دے رہے تھے ؟ تحریکِ انصاف کا منشور کہاں جائے گا جو ترقیاتی فنڈز کو نامناسب قراردیتا ہے البتہ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن مختلف ہوگی جس نے اپنے دور میں یہ پریکٹس نہیں دہرائی تھی۔پریس گیلری کا اتفاق اسی بات پر رہا کہ سیاستدانوں کی زبان اور ’ایمان‘ حکومت اور اپوزیشن میں بدل جاتا ہے یہ جمہوریت کا تو کھلا تضاد ہے لیکن پاکستانی سیاست میں’ پورا حق ‘ ہے۔