تیل کا کھیل
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس نے پھر ایک ’’بڑی طاقت‘‘ بننے یا امریکہ کے خلاف ’’بڑے اتحاد‘‘ کا حصہ بننے کے لئے انگڑائیاں لینا شروع کی ہیں۔ ابتدا میں کچھ کامیابیوں کے بعد یوکرائن کے مسئلے پر امریکہ اور یورپ نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ روس نے بھی ایشیا میں نئے اتحادی بنا لئے ہیں اور ان کی امداد شروع کر دی ہے۔ یورپ اور امریکہ نے بھی روس پر سخت پابندیاں عائد کرنا شروع کر دی ہیں۔ روس کی کرنسی کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں کافی نیچے آ گئی ہے۔ یورپ نے روس میں اپنی سرمایہ کاری بھی قریب قریب ختم کر دی ہے، جس سے مہنگائی اور بیروزگاری بڑھی ہے۔ سب سے بڑا وار تیل کی قیمت کم کرنے کا ہے، جس کا نقصان سعودی عرب کو بھی ہوا، لیکن ہمارے جیسے ملکوں کو تو بہت ہی فائدہ ہوا ہے۔ تیل کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں 40سے 45ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ روس کی برآمدات کا 70فیصد تیل کی آمدن سے ہے اور قومی بجٹ کا نصف تیل کی آمدن سے ہے۔ (ہمارے سیاست دانوں کی عقل دیکھئے، ایک طرف نعرہ ہے کہ دھرنے کا نتیجہ ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ عوام کو ریلیف دی گئی ہے)۔
روس کے صدر پیوٹن نے جیسا کہ شروع میں کہا گیا ایک ’’بڑے اتحاد‘‘ کا حصہ بننے کے لئے چین اور ایران کا سہارا لینا شروع کیا ہے، کیونکہ روس کے خلاف پابندیوں میں اثاثوں کو منجمد کرنا، روس سے سامان خریدنا بند کرنا وغیرہ شامل ہے، روس کو اسلحہ بیچنا بھی بند ہے، روس کے بینک یورپ سے قرضہ نہیں لے سکتے۔انرجی ٹیکنالوجی دینا بند کر دیا ہے کہ روس پر اتنا دباؤ بڑھے کہ وہ ایک بار پھریو ایس ایس آر کا خواب دیکھنا بند کر دے اور یوکرائن پر قبضے کا خیال ترک کر دے، لیکن شاید ایسا ہو نہ سکے، کیونکہ ان ساری پابندیوں اور اُن کے اثرات کے باوجود روس کے عوام اپنا کھویا ہوا وقار اور فخر دوبارہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی طرف سے دباؤ کے باوجود روس کے صدر نے روس اور عوام کو دوبارہ کھویا ہوا مقام دِلانے کا پختہ عزم کر رکھا ہے، لیکن سیاسی اور معاشی حقائق بھی اپنی جگہ ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے روس و چین کا جونیئر پارٹنر بننا ہو گا۔
2015ء میں روس کے صدر پیوٹن ایشیا کے ذرائع اور وسائل حاصل کرنے کی طرف توجہ دیں گے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور اور شنگھائی ان کی توجہ کا مرکز ہیں، جس سے یورپ کی عائد شدہ پابندیوں کا اثر بہت حد تک کم ہو جائے گا۔ پچھلی دہائی میں روس میں ایشیائی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ ایشیا کا سرمایہ کار بہت محتاط ہے اس لئے روس میں ایشیائی سرمایہ کاری تو ہو گی، کیونکہ سرمایہ کار کو تو منافع چاہئے، لیکن روس کے حالات کے پیش نظر اس کی رفتار بہت کم ہو گی۔ اس وقت جاپان ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، لیکن وہ بھی روس پر عائد شدہ پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، بلکہ اپنے مغربی اتحادیوں کو خوش کرنے کے لئے ان سے بھی چار قدم آگے ہی جائے گا، کیونکہ اس کی معاشی خارجہ پالیسیاں انہی کے مفادات کے تحت ترتیب دی جاتی ہیں۔
چنانچہ موجودہ حالات میں روس کے پاس چین ہی واحد آپشن ہے۔ روس کے صدر اور وزیراعظم دونوں ہی ہم خیال ہیں کہ چین کے ساتھ جتنے زیادہ قریبی حالات اور دوستی ہو گی، بین الاقوامی سطح پر روس کا امیج اتنا ہی بہتر ہو گا، چنانچہ ایک سال سے صدر پیوٹن کا مشرق کی طرف جھکاؤ مغرب کے لئے ایک ’’واضح‘‘ اشارہ ہے، جس کے کئی معنی ہیں۔ چین نے بھی جنوبی ایشیا کے مستقبل کو بھانپتے ہوئے کوشش کی ہے کہ روس میں یورپ نے جو خلا پیدا کیا ہے اسے جلد از جلد پُر کیا جائے۔ ماسکو میں 13اکتوبر 2014ء میں چین اور روس کے درمیان 30سے زیادہ معاہدوں پر دستخط ہوئے، جس میں سائبیریا کے ذریعے روس کو گیس مہیا کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے، جس سے روس کی توانائی کی ضرورت پوری ہو گی۔ اس کے علاوہ150ارب یوآن، یعنی24.3 ارب ڈالر کی امداد شامل ہے، جس کے ذریعے روس کی معیشت سنبھل پائے گی۔ روس کی کرنسی روبل اور چین کی کرنسی یوآن کے درمیان تبادلہ ہو سکے گا، جس سے بین الاقوامی بنکوں کی ضرورت نہیں رہے گی اور یہ مغرب کے بنکوں کے لئے ایک دھچکا ہو گا اور ہے۔
روس اور چین کے قریبی تعلقات اس خطے کی ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سیاست کو بھی متاثر کریں گے۔ روس چین کوS-400 انٹی ائر کرافٹ میزائل مہیا کرے گا اور2015ء میں ہی پہلے تین ماہ میںSU-35 لڑاکا طیارے بھی دے گا۔ اس کے علاوہ جدید ترین AMUR-1650 آبدوزیں بھی دے گا اور چین کے سیٹلائٹ پروگرام میں مدد کرے گا۔یہ سب بہت بڑی تبدیلیاں ہیں، کیونکہ جاپان، تائیوان، فلپائن اور ویت نام پہلے ہی اس خطے میں چین کی طرف سے مشرق اور جنوب میں بعض سمندری اقدامات سے خوفزدہ ہیں اور روس کی طرف سے جدید ترین اسلحہ کی چین میں آمد ان کے خوف اور خطے کی کشیدگی میں اضافہ کرے گی۔
مئی2014ء میں چین اور روس کی طرف سے 400ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے گئے، جس کے تحت 38ارب کیوبک فٹ گیس مہیا کی جائے گی۔ پیوٹن نے اس معاہدے کو تاریخی اور روس چین دوستی کا سنگ بنیاد قرار دیا ہے۔موجودہ صدر پیوٹن سابقہ صدر بورس یلسن کے 1990ء کی دہائی کے کارناموں سے روس کی جان چھڑانے کے لئے نئے معاہدے، نئے نئے اقدامات، نئی نئی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے روس کی سب سے بڑی پوٹاش کھاد بنانے والی فیکٹری ’’Uralkali‘‘ کے12.5فیصد حصص چین کو فروخت کر دیئے ہیں۔ 2013ء میںRonseftکمپنی نے چین کے ساتھ270ارب ڈالر ایڈوانس لے کر 25سال تک 360 میٹرک ٹن کروڈ آئل فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے پہلے چین کی نیشنل پٹرولیم کارپوریشن نے روسی کمپنیYamal کے20فیصد حصص خرید کئے، جن کی قیمت ظاہر نہیں کی گئی۔ ان اقدامات سے روس کی معیشت کو بھی سہارا ملا اور چین کو سیاسی ساتھی مل گیا، جو مستقبل میں چین کی خارجہ پالیسی کے لئے ضروری تھا۔ ان سارے معاہدوں میں پیوٹن کے ساتھی بھی کافی مالدار ہو گئے ہیں۔۔۔ (دنیا کے اکثر حکمرانوں اور اُن کے خاندانوں کی طرح)
چین کے صدر زی جن پنگ روس کے ساتھ مل کر دنیا میں ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک نئے بنک شنگھائی ڈویلپمنٹ بینک کی بنیاد رکھی۔(NDB) جو Brics کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔Brics جو برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے قائم کیا تھا۔ ستمبر2014ء میں صدر پیوٹن نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی صدارت سنبھالی ہے، جس کے قیام کا اصل مقصد اجتماعی سلامتی کو فروغ دینا ہے، یعنی ناٹو کی طرز پر ایشیا کو امریکی اثرو رسوخ سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ چین کی معیشت بہت مضبوط ہے اور روس کی بہت کمزور، چین اس سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ گیس کے معاملے میں بھی ماہرین کی رائے ہے کہ سائبیریا گیس پائپ لائن منصوبے سے بھی روس سے زیادہ چین کو فائدہ ہو گا اور اس کی جیو پولیٹیکل پوزیشن اور مضبوط ہو گی اور روس کو ملنے والا فائدہ، یعنی55ارب ڈالر نہ ہونے کے برابر ہے۔
9نومبر2014ء کو روس اور چین کے صدور نے ایک میمورنڈمMOU پر دستخط کئے، جس کے تحت چین کو 30ارب ڈالر کیوبک میٹر گیس ملے گی اور اس کے ساتھ ہی پیوٹن نے یورپی گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ اس سارے پس منظر میں روس کی یہ خواہش نظر آتی ہے کہ وہ مغرب پر انحصار کی بجائے ایشیا، یعنی مشرقی اتحادیوں کے ساتھ نئے اور مضبوط تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر چین کے ساتھ جو ایک تیزی کے ساتھ ابھرتی معاشی اور فوجی طاقت ہے، لیکن یہ فیصلہ روس کے لئے اس لحاظ سے فائدہ مند رہے گا کہ مغرب، یعنی یورپ آئے روز معاشی بحران میں مبتلا رہتا ہے، جبکہ روس چین کے ساتھ تعلقات سے اپنی گرتی معیشت کو مضبوط سہارا مہیا کر سکتا ہے۔
چین کو بھی اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ان معاہدوں کی ضرورت تھی اور جدید ترین اسلحہ کے حصول سے اس کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو گا،جو اس کی بین الاقوامی سیاسی حیثیت کو بھی مضبوط کرے گا۔ چین کا سرکاری میڈیا روس کے صدر پیوٹن کے ان ’’دانشمندانہ‘‘ فیصلوں کی تعریف میں دن رات مصروف رہتا ہے کہ امریکی اجارہ داری کے خاتمے یا کم از کم مقابلے کے لئے جرأت مندانہ فیصلے ہیں۔بین الاقوامی سیاست میں یوکرائن کے مسئلے پر روس کی معیشت کو کمزور کرنے کے لئے تیل کی قیمت کم کرنے کے لئے جو فیصلے کئے گئے ان کے کتنے دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تیل کا یہ کھیل کیسے اور کہاں اور کب اپنے اختتام تک پہنچے گا؟