شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیر،ناکارہ بوئنگ طیارے خریدے تھے
شوکت اشفاق:
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بعد سینئر رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے ہڑتالی ملازمین پر فائرنگ اور اس کے نتیجے میں دو افراد کے جاں بحق ہونے کے واقعہ کی عدالتی کمیشن بنا کر تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے قبل ازیں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی اس معاملے کی تحقیقات اور پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین سے مذاکرات کے ذریعے معاملہ کو حل کرنے پر زور دے چکے ہیں لیکن لگتا ہے کہ حکومت اس مرتبہ اس معاملے میں کسی کا مشورہ یا مطالبہ ماننے کو تیار نہیں ہو گی وجہ اس کی شاید یہ رہی ہو کہ حکومت اصولی فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ پی آئی اے کو نجی شعبے میں دے دے گی اور یقیناًاس کے بعد سٹیل ملز سمیت دوسرے اداروں کی باری بھی آئے گی حکومت سمجھتی ہے کہ یہ حکومت کے لئے معاشی بوجھ بنے ہوئے ہیں اس وقت تو شاید ایسا ہی ہو کہ یہ ادارے گذشتہ دو سے زیادہ دھائیوں سے حکومتی خزانے پر بوجھ بن کر رہ گئے ہیں مگر کبھی یہ ادارے نہ صرف ملک کے لئے نیک نامی کا باعث تھے بلکہ منافع بخش بھی تھے خصوصاً پی آئی اے دنیا کی ان چند ائیر لائنز میں شمار ہوتی تھی جو تجربہ کار ہوا بازوں، مہمان داری سے واقف عملہ اور ماہر تکنیکی افراد پر مشتمل متعلقہ شعبہ جات پر مشتمل تھی جس کے کلائنٹس میں متعدد امریکی ائیر لائنز سمیت یورپ کی ائیر لائنز بھی شامل تھیں جو کراچی کو بطور ٹرانزٹ سٹیشن کے طور پر استعمال کرتے تھے اورری فیولنگ کے ساتھ طیاروں کی دیکھ بھال بھی پی آئی اے کے تکنیکی عملے سے کرایا کرتے تھے ’’باکمال لوگ‘ لا جواب پرواز‘‘ کے ساتھ یہ قومی ائیر لائین معیار کی علامت سمجھی جاتی تھی یہی وجہ تھی کہ امارات، سنگا پور، ہانگ کانگ کی پیسفک ائیر لائنز مالٹا کی قومی ائیر لائنز سمیت دنیا کی 17 ائیر لائنز کو زیرو سے ہیرو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن خود ایسے خود غرضانہ مسائل کا شکار ہو گئی کہ اب اپنے ملک کی حکومت ہی اس کی شناخت ختم کرنے کے درپے ہے یہ کب ہو گا یہ تو آنے والا وقت کی بتا سکتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے آج جو اس قومی ائیر لائین کو نج کاری کے ذریعے نیست و نابود کرنے کے چکر میں ہیں یہ وہی ہیں جنہوں نے اس ادارے میں خوشحالی کو دیکھتے ہوئے اس پر اخراجات کا اتنا بوجھ لاد دیا کہ دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں سے ایک کہلانے والی یہ ائیر لائین اس قدر بد نام ہو گئی ہے کہ آئے روز دنیا کے مختلف ممالک سے جہاں جہاں اس کی فلائٹس جاتی رہیں ہمیں کوئی نہ کوئی منفی خبر ضرور ملتی تھی حتی کہ شراب پی کر کاک پٹ میں سوار ہونا کیبن کریو کا مختلف ملکوں میں غائب ہونا اور سمگلنگ جیسے کام عام ہو چکے تھے اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس ادارے کو چلانے کے لئے ماہرین سے زیادہ سیاسی لوگوں کو بھرتی کر لیا گیا تھا اور یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے آخری دور میں شروع ہوا جب انہوں نے مارشل لائی جمہوریت متعارف کرائی اور اسٹیبلشمنٹ کے وفا داروں کو کونے کھدروں سے نکال کر عنان حکومت تھما دی جنہوں نے اختیارات ملتے ہی اپنے عزیز رشتہ داروں کو ایسے منافع بخش اداروں میں بھاری تنخواہوں پر بھرتی کرنا شروع کر دیا جو 1988 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مزید تیز ہو گیا پیپلز پارٹی کے دور میں سرکاری اداروں میں نوکریوں کی بندربانٹ کے بارے میں کسے خبر نہیں ہے البتہ اس مرتبہ یہ نوکریاں بیچی بھی گئیں پھر یہ سلسلہ مسلم لیگ ن کے لئے وفاقی اقتدار میں بھی چلتا بلکہ دوڑتا رہا بلکہ اس مرتبہ تو اس ادارے کے ساتھ ایسی زیادتی کی گئی جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی اور ہانگ کانگ ائیر لائنز سے چھ ایسے بوئنگ 747 طیاروں کا سودا کر لیا گیا جو اس ائیر لائین نے استعمال کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے ’’گروانڈ‘‘ کر دئیے تھے اور بوئنگ کمپنی نے ان کا لائسنس بھی منسوخ کر رکھا تھا لیکن اس وقت کے وزیر ہوا بازی (جو آج بھی خیر سے پٹرولیم کے وزیر ہیں) شاہد خاقوان عباسی نے بھاری کمشن کے عوض یہ سودا کر لیا اور دعویٰ کیا کہ وہ بوئنگ کمپنی سے ان جہازوں کا لائسنس ریونیو کروا لیں گے حالانکہ جب ان طیاروں کی ڈیل ہو رہی تھی تو بوئنگ کمپنی نے پی آئی اے اور حکومت کو وارننگ بھی دی تھی لیکن کمیشن کے چشمہ نے اس وقت انہیں اندھا کر رکھا تھا اور یہ جہاز پاکستان آ تو گئے لیکن ایک آدھ جہاز کے علاوہ ان میں کوئی جہاز بھی اڑنے کے قابل نہ ہو سکا اور نہ ہی ان جہازوں کے لئے یورپ اور امریکہ کے لئے فلائٹس کی کلیرنس ہو سکی یوں اربوں روپے نہ صرف برباد ہو گئے بلکہ ان کی دیکھ بھال پر بھی مزید اربوں روپے خرچ کر دیئے گئے۔
اس کے بعد پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی جس نے باقی اداروں کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر پی آئی اے پر بوجھ لاد ا اور اس میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کچھ بہتری آنے لگی تو جنرل صاحب اس وقت تک ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کو شریک اقتدار کر چکے تھے، ان کی حکومت کے بعد پھر اس ادارے کا جو زوال شروع ہوا اس کی مثال بھی شاید نہ مل سکے اور اب یہ وقت آچکا ہے کہ وقت کی اچھی شہرت کی حامل اس عظیم ائیر لائنز کے پاس کل 17 جہاز تھے اور اس کے ملازمین کی تعداد 18000 سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جس کا حکومت یہ حل نکال رہی ہے کہ اسے نجی شعبے میں دے دیا جائے۔ ملازمین کے بارے میں حکومت کا موقف یہ ہے کہ نج کاری کے باوجود ان کو نکالا نہیں جائے گا حالانکہ نج کاری کی تاریخ گواہ ہے کہ جس ’’سیٹھ‘‘ نے بھی ادارہ ’’اچکایا‘‘ اس نے پہلا کام ملازمین کو ادارے سے الگ کرنے کا کیا اور اب بھی ایسا ہی ہو گا حکومت اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے کے درپے ہے جبکہ ملازمین چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ اسی طرح سرکاری تحویل میں چلتا رہے اور حکومت اسے سرکاری فنڈنگ کرتی رہے جو یقیناًحکومت کے لئے مشکل ہو گا اور بات بھی صحیح ہے لیکن نج کاری کے بعد اتنی بڑی تعداد میں بے روز گاری کا جو طوفان آئے گا حکومت نے اس پر بھی غور نہیں کیا اور نہ ہی اس اہم قومی ادارے کی ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن نے اس پر غور کیا۔ کوئی مثبت قدم دونوں اسٹیک ہولڈرز نے نہیں اٹھایا ورنہ ان کے پاس برطانوی ائیر لائن کی مثال موجود ہے جب حکومت برطانیہ اپنی ائیر لائین میں مالی نقصان کی وجہ سے ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو نوکریوں سے فارغ کرنے کے درپے تھی لیکن اس وقت ائیر لائین کی ٹریڈ یونین نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہیں اس شرط پر کم کرنے کی آفر کی تھی کہ وہ کسی بھی ملازم کو نوکری سے نہیں نکالیں گے جو حکومت نے تسلیم کر لیا اور اب ملازمین کی محنت سے ائیر لائین نے نہ صرف اپنا کھویا ہوا بزنس دوبارہ حاصل کر لیا بلکہ ملازمین کی ملازمتیں بھی بچ گئیں اور حکومت کو معاشی فائدہ بھی حاصل ہوا کیا ایسا رول ماڈل اپنے ہاں ممکن نہیں ہے اور کیا حکومت اور پی آئی اے کے ہڑتالی کوئی ہوش کے ناخن لے کر کسی مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر ایسا اچھا فیصلہ کر لیں اور ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے ملک و قوم کے لئے کوئی کام کر لیں، کیونکہ دھمکیوں اور ایک دوسرے کو آنکھیں اور نیچا دکھانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے لگا اور حکومت بھی یاد رکھے کہ ابھی کراچی اسٹیل ملز کی نج کاری ہونا باقی ہے وہاں اس سے بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔