ڈاکٹر عاصم کے بعد عزیر بلوچ، پیپلزپارٹی کے بڑے؟
تجزیہ:چودھری خادم حسین
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے نشر اور شائع ہونے والی خبریں تو وقت کے ساتھ دم توڑ گئیں اور اب یہ اطلاع ہے کہ نیب نے بھی تحقیقات مکمل کر لیں اور پانچ ریفرنس تیار کر کے ڈائریکٹر جنرل کی منظوری کے لئے بھیج دیئے ہیں۔ اس کا واضح مطلب تو یہ ہے کہ اب یہ معاملہ احتساب عدالت میں اور ڈاکٹر عاصم جیل جائیں گے جس کے بعد ان کے ورثاء کی طرف سے اعلیٰ عدالتوں سے پھر رجوع کیا جائے گا اور ضمانت کے لئے کوشش کی جائے گی۔ ریفرنس عدالت میں جانے کے بعد ہی یہ اندازہ ہوگا کہ نوعیت کیا ہے اور جو شور تھا اس کے حوالے سے کچھ ہوا اور آصف علی زرداری شریک جرم ٹھہرے یا سب خبریں ہی تھیں۔ اس معاملے میں اب بھی انتظار ہی کرنا چاہئے کہ جلد ہی سب سامنے آ جائے گا اور پتہ چل جائے گا کہ انتے مہینوں کی تگ و دو کا نتیجہ کیا ہے۔
اب اس سے زیادہ اہمیت عزیر بلوچ کو دی جا رہی ہے جو 90 روزہ ریمانڈ پر رینجرز کے پاس ہے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ عزیر بلوچ نے اپنے سرپرستوں کے نام بتا دیئے ان میں سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور، قادر پٹیل اور ثانیہ بلوچ کو نامزد کیا۔ یہ سوئے اتفاق ہی ہے کہ ٹیلیویژن پر لیاری میں جشن اور جلسے کے حوالے سے جو فوٹیج چلتی رہی اس میں یہ تینوں ہی نمایاں ہیں اور اب خبر میں بھی ہیں جبکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے ذوالفقار مرزا، نبیل گبول اور جاوید ناگوری کے ساتھ تعلقات کا اقرار کیا ہے اب اس خبر سے یہ تاثر ابھرا کہ سرپرستی تو پہلے تین افراد کرتے اور دوسرے تینوں سے صرف دوستی تھی مطلب یہ کہ پہلے تین تو شریک جرم تھے اور دوسرے تین جرم میں شریک نہیں دوستی کا دم بھرتے تھے۔ اللہ اللہ خیر صلا خبر نے مسئلہ حل کر دیا۔
ہم اب بھی انتظار کو ترجیح دیں گے کہ استغاثہ عدالت میں کیس دائر کرے اور جن کے خلاف بھی ہو وہ اپنا دفاع خود کریں، اس استغاثے ہی کو خبر مانا جائے گا اور پھر جو کارروائی ہو گی وہی خبر بنے گی۔ شاید اسی لئے بلاول نے واشنگٹن میں کہا جب معاملہ عدالت میں آئے گا تو پارٹی ردعمل دے گی۔ ادھر جو ایک اور دلچسپ موڑ ہے وہ یہ کہ وزیر اعلیٰ سندھ پھر برہم ہو کر بولے اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ نیب کو مداخلت بے جا سے روکا جائے جو انتقامی سیاست میں ملوث ہے انہوں نے سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر احتجاج کیا ہے۔ نیب کے ذرائع کے حوالے سے تو یہ خبر دی گئی ہے کہ شرجیل میمن کے خلاف سرکاری اشتہاروں میں پانچ ارب روپے کے خورد برد کی تحقیقات ہو رہی ہے اور اس کی تفصیل عدالت عالیہ کو مہیا کر دی گئی ہے اس طرح یہ بات سنجیدگی کا پہلو لئے ہوئے ہے۔ اگر چہ شرجیل میمن انکار کرتے اور عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ان کی طرف سے عدالت عالیہ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست زیر سماعت ہے کہ وہ خود آکر شامل تفتیش ہونا اور الزامات کا سامنا کر کے جواب دینا چاہتے ہیں۔ یہ دلچسپ صورت حال ہے اور پیپلزپارٹی کے راہنما اس پر مختلف فورموں کے ذریعے احتجاج بھی کر رہے ہیں تاہم نظریہ آتا ہے کہ عدالتی کارروائی اور تفتیش کا سامنا تو کرنا پڑے گا، چاہے وہ گرفتاری کی صورت میں ہو یا نہ ہو، اس سے پہلے فریال تالپور کے شوہر ضمانت پر ہیں۔
اس سلسلے میں کسی قطعی رائے سے گریز اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہئے لیکن ایک بات بہت واضح ہے کہ ملک کے تمام راہنما اور سیاسی ادارے موجودہ نظام احتساب اور طریق تفتیش پر اپنے اپنے حوالے سے تنقید کرتے رہے اور کرتے ہیں۔ اب تک عدالت عظمیٰ اس حوالے سے محفوظ ہے تاہم سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے حوالے سے ناگفتنی بھی کہی جاتی ہے۔ اور حوالہ یوسف رضا گیلانی کا ہے۔ بہر حال ہماری تو ایک ہی گزارش رہی کہ جو احتساب بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پاس ہے اس پر جلد اور فوری غور کر کے احتساب کا نیا نظام متفقہ طور پر بنا لیا جائے جو قومی اسمبلی سے باقاعدہ منظوری کے بعد سینٹ سے منظور ہو اور قانون بن جائے تاکہ اعتماد کے قابل ہو اور اعتراض نہ ہو سکے کہ احتساب کے حق میں پورا ملک ہے عوام ہرشعبہ اور ہر ایک کا احتساب چاہتے ہیں کہ حقیقی متاثرہ فریق ہیں۔
پی۔ آئی۔ اے کا معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید پیچیدہ ہو گیا۔ حکمرنوں نے ریاستی طاقت کے ذریعے جو دراڑ ڈالی اسے کامیابی سے تعبیر کر کے اب مصلحت کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ایکشن کمیٹی نے عمرہ زائرین کے نام سے فلائٹ آپریشن شروع کرنے میں تعاون کا اعلان کر دیا اور پھر مذاکرات کی دعوت اور مطالبہ کیا ہے تاہم وزیر اعظم نے ایک سخت گیر آجر کا رویہ اپنا لیا، بالکل ماضی کی طرح! اب ایکشن کمیٹی کو خود اپنے عمل کا جائزہ لے کر عملیت پسندانہ پالیسی اپنانا ہو گی۔ غالباً اب عدلیہ سے رجوع کرنا پڑے گا۔