شاہد کو سیاسست کا جنون کی حد تک شوق ہے

شاہد کو سیاسست کا جنون کی حد تک شوق ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انٹرویو:ڈاکٹر عفان قیصر، ڈاکٹر نازش:
خاتون اول کی زندگی بارے :
میری پیدائش مری کے ایک گاؤں دیول شریف کی ہے، میرے والد صاحب آرمی میں تھے، وہ ایسی جگہوں پر تعینات ہوتے تھے کہ ہمیں ان سے الگ رہنا پڑتا تھا، اس لئے ہم زیادہ ان دنوں میں گاؤں میں رہتے تھے۔ میری ابتدائی تعلیم مختلف شہروں میں ہوئی جہاں پر میرے والد پوسٹڈ ہوتے تھے۔ ایف ایس سی میں نے لاہور کالج فار ویمن سے کیا۔ اس کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں چھ سال میں نے تعلیم حاصل کی۔ 1984ء میں مَیں نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی ، اس کے بعد میں نے راولپنڈی میں آکر ، جہاں پر میرے والدین رہتے تھے، وہاں ہولی فیملی ہسپتال میں ہاؤس جاب کی۔ اس کے دو سے تین سال بعد تک میں نے گورنمنٹ جاب کی لیکن کچھ ذاتی وجوہات کی بناء پر میں اس کو جاری نہیں رکھ سکی جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔ باقی کی زندگی اپنی فیملی اور اپنے بچوں کے لئے وقف کردی۔
پاکستان:۔بہت خوشی ہوگی فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے ان تمام ڈاکٹرز کو آپ کی بات سن کر جو سن رہی ہیں کہ ملک کی خاتون اول فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں۔ آپ کی شادی کب ہوئی؟
خاتون اول:۔ میری شادی ہاؤس جاب کے دوران ہی 1986ء میں ہوئی، ہماری شادی بہت سادگی سے ہمارے گاؤں میں کی گئی۔ ان دنوں میرے سسر منسٹر تھے لیکن انہوں نے کہا کہ سب کچھ بہت سادگی سے ہونا چاہیے اس لئے گاؤں میں ہماری شادی ہوئی اور اس کے بعد ہم سعودی عرب چلے گئے۔ کچھ عرصہ ہم وہاں رہے۔ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش راولپنڈی کی ہے۔ اس کے بعد میں دوبارہ سعودی عرب چلی گئی اور وہیں پر رہتے ہوئے 1988ء میں اوجڑی کیمپ کا حادثہ ہوا۔ اس کی وجہ سے ہمیں پاکستان واپس آنا پڑا۔
پاکستان:۔جب آپ کی شادی ہوئی تو شاہد صاحب اس وقت کیا کرتے تھے ؟
خاتون اول:۔وہ الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی امریکہ سے اور وہ اپنے فادر کے پراجیکٹ پر سعودی عرب میں کام کررہے تھے، اس سے پہلے وہ امریکہ میں بھی کام کرچکے تھے، وہ اپنی انجینئرنگ کے سلسلے میں وہاں پر جاب کرتے تھے۔
پاکستان:۔آپ نے اوجڑی کیمپ والے حادثے میں کن مشکلات کا سامنا کیا۔
خاتون اول:۔وہ ہماری زندگی کا بہت بڑا حادثہ تھا ،میرے ماموں جو کہ میرے سسر بھی تھے، ان کے ارد گرد گھومتی تھی ۔ اس حادثے میں جہاں اور بہت قوم کا نقصان ہوا ، لیکن پرسنلی ہمیں ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ہی نقصان ہواہے ۔ میرے فادر ان لا کی ڈیتھ ہوگئی تھی میزائل کا ایک ٹکڑا لگنے سے اور میرے جیٹھ جو ہیں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے اور ان کا چھ مہینے لندن میں علاج کیا گیا، ان کا برین ڈیمج ہوا تھا لیکن وہ 14 سال زندہ تو رہے لیکن کوما میں تھے۔ 14 سال کے بعد ان کی بھی ڈیتھ ہوگئی۔ اوجڑی کیمپ کا حادثہ ہماری پوری فیملی کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس نے ہماری زندگی بدل کر رکھ دی۔
پاکستان:۔دور دور تک کہیں لگتا تھا کہ سیاست میں آنا پڑے گا، یا یہ اوجڑی کیمپ کا ہی واقعہ تھا جو انہیں سیاست میں لے آیا:؟
خاتون اول:۔میرے جو فادر ان لا تھے وہ اپنے بڑے بیٹے کو زیادہ چاہتے تھے کہ وہ سیاست میں آئیں۔ شاہد صاحب کا تو یہ تھا کہ وہ کبھی بھی کسی بھی سیاسی ایکٹیوٹی میں یا لائم لائٹ میں آنے کا شوق نہیں تھا۔ بس اپنے کام سے ان کو دلچسپی تھی۔ اس حادثے کے بعد ہماری زندگی ایسی بدلی کہ باپ رہا نہ بھائی پھر ان کو مجبواً یہ فریضہ سرانجام دینا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو بہت عزت دی، کئی دفعہ انہوں نے الیکشن لڑا، جیتے اور آج وہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ سب اللہ کی مہربانی ہے۔
پاکستان:۔سر کو کھانے میں زیادہ کیا پسند ہے؟ اور آپ ان کیلئے شوق سے کیا بناتی ہیں؟
خاتون اول:۔ان کی کھانے پینے کی عادات سادہ ہیں، وہ کسی قسم کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے، نہ چکن نہ میٹ، سبزی اور دال ان کو دے دی جائیں۔ میں جب تک بناتی تھی وہ بھنڈی بڑے شوق سے کھاتے ہیں، میں دال بھی بنالیتی تھی۔
پاکستان:۔کھانا زیادہ آپ کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا پسند کرتے ہیں یا کک کا کوئی بھی بنالے؟
خاتون اول:۔کوئی بھی ہوجائے، کوئی ایسی رسٹرکشن نہیں ہے۔
پاکستان:۔گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
خاتون اول:۔اپنے ذاتی کام خود کرتے ہیں، جیسے کہ کہیں جانا ہو تو اپنی پیکنگ وغیرہ خود کرلیتے ہیں۔
پاکستان:۔گھومنے پھرنے کا شوق ہے؟
خاتون اول:۔مجھے بھی شوق ہے لیکن شاہد صاحب کو بے انتہا ٹورازم کاشوق ہے۔ وہ بہت ہی ٹورازم سپیشلسٹ ہیں۔ پہلے وہ کبھی بھی باہر جاتے تھے تو اس جگہ کی کتاب خریدتے تھے اور اس جگہ کو کتاب کے ذریعے ایکسپلور کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہم کافی سال پہلے مصر گئے تھے اور اسی کتاب سے ہم نے ایکسپلور کرکے بہت کچھ دیکھا تھا۔ ہم تین شہروں میں گئے تھے، الیگزینڈریا، قاہرہ اور لکسر ۔ اسی طرح وہ کہیں بھی جائیں تو انہیں بہت نالج ہوتی ہے، بہت شوق ہے ان کو۔ وہ کہتے ہیں لائٹ ٹریول کرنا چاہیے اور کوئی شاپنگ نہیں ہونی چاہیے ٹور کے دوران۔مجھے عادت ہوگئی ہے اس لئے میں زیادہ آرگیو نہیں کرتی ۔ عورتوں کو تو شاپنگ پسند ہوتی ہے۔
شاہد کے ٹورازم میں وہ کسی شاپنگ مال میں جانا پسند نہیں کرتے، جب مالز وغیرہ میں جانا ہو تو ہم الگ جاتے ہیں، ان کے ساتھ نہیں۔
پاکستان:۔آپ کے کتنے بچے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟
خاتون اول:۔میرے ماشاء اللہ تین بیٹے ہیں، بڑا بیٹا امریکہ سے ماسٹرز کر کے آیا ہے اور اب اسلام آباد میں اپنا بزنس کرتا ہے۔ دوسرا بیٹا امریکہ سے گریجوایٹ ہے اور یہاں پرایک کمپنی میں جاب کرتا ہے۔ تیسرا بیٹا ابھی حال ہی میں یو سی ایل اے سے گریجوایٹ ہے او رواشنگٹن ڈی سی میں جاب کررہا ہے۔
پاکستان:۔بچوں کی اٹیچمنٹ زیادہ کس سے ہے؟
خاتون اول:۔بچوں کی اٹیچمنٹ میرے ساتھ ہے ، بلکہ کوئی بات انہوں نے کہلوانی ہو تو وہ میرے ذریعے اپنے بابا سے کہلواتے ہیں۔ ان کے رول ماڈل ان کے بابا ہیں۔
پاکستان:۔کبھی آپ نے اپنے بچوں کو فورس کیا ہو کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کی طرف، یا انہیں کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتے تھے؟
خاتون اول:۔بچوں کے کسی شوق میں مداخلت نہیں کی، شروع میں مَیں بچوں کو خود پڑھاتے تھی سکول لیول تک ، جب تک مجھ سے ہوسکا۔ لیکن کبھی نہیں ان سے کہا کہ یہ پڑھنا ہے یا وہ۔ گائیڈکرنا ہمارا کام ہے، شوق بچوں کے اپنے ہوتے ہیں۔ اس لئے بچوں نے یہاں بھی اور باہر بھی بہت اچھی تعلیم حاصل کی ۔
پاکستان:۔شاہد صاحب کا گھر میں مزاج کیسا ہے؟
خاتون اول:۔آج تک میں نے انہیں غصے میں نہیں دیکھا، ان کو غصہ نہیں آتا بالکل، بہت ٹھنڈے مزاج ہے ہیں، اللہ کا بہت کرم ہے کہ ہمارا کبھی بھی جھگڑا نہیں ہوا۔
پاکستان:۔آپ اور شاہد صاحب کس گلوکار کو پسند کرتے ہیں؟
خاتون اول:۔اس چیز میں ہم دونوں کے شوق بالکل مختلف ہیں، میں تو کوئی بھی ہلکی پھلکی موسیقی سن لیتی ہوں۔ شاہد صاحب کو غزلیں زیادہ پسند ہیں۔ مہدی حسن کو وہ زیادہ پسند کرتے ہیں۔ منی بیگم کوپسند کرتے ہیں ۔
پاکستان:۔کبھی کوئی فلم یاد ہو جو آپ نے اکٹھے دیکھی ہو آپ نے؟
خاتون اول:۔میں نے اپنی زندگی میں ایک فلم دیکھی ہے۔ ہم ایک دفعہ ، 20 سال پہلے سنگاپور گئے تھے وہاں ٹائی ٹینک دیکھی تھی نئی نئی ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ کوئی فلم دیکھی ہو۔
پاکستان:۔پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہیں آپ؟
خاتون اول:۔جی میں بالکل دیکھتی ہوں، مجھے بہت پسند ہیں پاکستانی ڈرامے۔ اب بہت زیادہ ورائٹی آگئی ہے ، کچھ سیریلز ہیں جو بہت اچھے چل رہے ہیں۔ بہت اچھے ڈرامے بن رہے ہیں، ہر جگہ دیکھے جاتے ہیں۔
پاکستان:۔پاکستانی اداکار کون سا پسند ہے آپ کو؟
خاتون اول:۔پاکستانی اداکار بہت ورسٹائل ہیں، نعمان اعجاز مجھے بہت پسند ہیں، پھر فیصل قریشی ہیں وہ بہت اچھے ہیں۔ لڑکیاں بھی بہت اچھی آرہی ہیں اور بہت اچھی ایکٹنگ کرتی ہیں۔
پاکستان:۔ماضی کے پرانے ہیرو جیسے وحید مراد، ندیم اور اس کے علاوہ محمد علی اور آپ کو کوئی پرانی فلم یااداکار یا اداکارہ جو پسند ہو؟
خاتون اول:۔یہ جن کے نام لئے یہ سب مجھے پسند ہیں۔ ارمان فلم وحید مراد کی تھی وہ بڑی پسند تھی، اس وقت جو فلمیں بنتی تھیں اب تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
پاکستان:۔سادگی کی انسپریشن شاہد صاحب اور آپ میں بہت زیادہ ہے یہ کہاں سے حاصل کی؟
خاتون اول:۔میں اس میں اپنی فیملی بیک گراؤنڈ کا ذکر کروں گی۔ میری انسپریشن میرے والد صاحب تھے۔ وہ بہت کم عمر لے کر آئے تھے لیکن بہت زیادہ اور صحیح قوم سے محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے اپنا ساری زندگی وقف کی ہوئی تھی ، بہت سادہ زندگی گزاری۔ میں جب پیچھے دیکھتی ہوں کہ ہم لوگوں کا جو لائف سٹائل تھا اس وقت تو مجھے یقین نہیں آتا کہ اتنی سادگی تھی۔ اور شاہد صاحب کا یہ ہے کہ ان کی اپنی طبیعت میں بہت سادہ سادگی ہے، بچپن سے ہی۔ کبھی بھی انہوں نے آگے آنے کی کوشش کہ وہ فیڈرل منسٹری یا کسی بھی عہدے پر وہ لائم لائٹ آنا پسند نہیں کرتے۔
میں ایک چیز بتانا چاہوں گی کہ جب وہ فیڈرل منسٹر تھے تو ہمارے گھر کے باہر ایک گارڈ بھی نہیں ہوتا تھا ، ایک دفعہ ان کی والدہ نے کہا کہ آپ گارڈ رکھ لیجئے کیونکہ یہ ضرورت ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امی آپ کو گارڈ کی ضرورت ہے تو انہوں نے کہا مجھے تو ضرورت نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ امی مجھے بھی ضرورت نہیں میرا گارڈ تو اوپر بیٹھا ہے۔
اس سے زیادہ میں کیا کہوں، باقی بھی ان کی زندگی سادگو کا نمونہ ہے او رمیں نے ان سے 32 سالوں میں بہت کچھ سیکھا ہے۔
پاکستان:۔بطور خاتون اول آپ کیسے دیکھتی ہیں کہ آنے والے وقت میں کے بچے سیاست میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
خاتون اول:۔پاکستان میں ہماری روح ہے، اگر پاکستان ہے تو ہم لوگ ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ میرے بچے پڑھ لکھ کر پاکستان واپس آگئے ہیں اور پاکستان کو سرو کررہے ہیں۔ میرے دو بیٹے آچکے ہیں اور تیسرا دو تین سال میں یا اس سے پہلے پاکستان آجائے گا۔
جہاں تک سیاست میں آنے کا تعلق ہے ، میں نے بچوں کو ڈسکریج کیا ہے اس چیز کے لئے۔ کیونکہ میرا جو خیال تھا کہ فیملی لائف بہت ڈسٹرب ہوتی ہے او ربچوں کو ماں اور باپ دونوں کو بہت ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے بچوں کی خود پرورش کی ہے کیونکہ ان کے باپ کے پاس ٹائم نہیں ہوتا تھا اس لئے میں نے بچوں کو کہا کہ اس چیز سے آپ کنارے پر رہیں تو بہتر ہے۔ اب میرے تھوڑے خیالات بدل گئے ہیں کہ اگر پڑھ لکھ کر کوئی انسان پاکستان کو صحیح معنوں میں سرو کرنا چاہتا ہے ، ڈیڈی کیشن سے کرنا چاہتا ہے تو بالکل وہ سیاست میں آکر بھی کرسکتاہے اور کسی اور طریقے سے بھی کرسکتا ہے۔ لیکن سیاست میں آکر وہ بہتر طریقے سے کرسکتا ہے کیونکہ وہ قوم کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لئے میرے بڑے دو بیٹوں کو تو شوق نہیں ہے لیکن چھوٹا بیٹا جو ہے وہ پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل پولیٹکس تو اس کا کوئی ارادہ ہے۔
پاکستان:۔آپ نے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے زندگی میں، پاکستان کی سیاست کو لوگ اسی طرح دیکھتے ہیں کہ بڑی قربانیاں دیتی پڑتی ہیں، آپ کی فیملی کی قربانیاں سب کے سامنے ہیں۔ آپ پاکستانی سیاست کو کیسی دیکھتی ہیں؟
خاتون اول:۔میں بتاچکی ہوں کہ فیملی لائف بہت ڈسٹرب ہوجاتی ہے لیکن جہاں تک قوم کو سرو کرنے کا تعلق ہے ، کیونکہ قوم پہلے نمبر پر ہے اس لئے اُس کے لئے یہ قربانی دینی پڑتی ہے اور دینی چاہیے۔ تو پاکستان کی سیاست کا جہاں تک تعلق ہے ، سیاست کا عمل چلتے رہنا چاہیے چاہے وہ کسی طرح کی بھی سیاست ہو، یہ بیچ میں جو خلل آئے ہیں ہماری 70 سالہ تاریخ میں انہوں نے پاکستان کو بہت ڈیمیج کیا ہے۔ اگر یہ پولیٹیکل سنیریو چلتا رہتا تو شاید آج پاکستان کے حالات بہت بہتر ہوتے۔
اگر اس چیز کو جاری رکھنا ہے ہم نے تو ہمیں بہت ساری قربانیاں اور دینی پڑیں گی لیکن جمہوریت کا سلسلہ ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے، اسی طرح سے ہم قوم کی خدمت کرسکتے ہیں۔ فوج اپنا کام کرے اور حکومت اپنا کام کرے۔
پاکستان:۔ہم دیکھتے ہیں آپ بہت زیادہ ویلفیئر کی طرف ہیں وہ شاید آپ کی سادگی سے سب چیزیں ایکسٹریکٹ ہوئی ہیں۔ آپ بہت ویلفیئر کے کامون پر کام کررہی ہیں جس میں سپیشل چلڈرن کے لئے بہت کام ہے۔ اس فلاح و بہبود کے لئے آپ کی انسپریشن کون ہے۔
خاتون اول:۔ایک انسپریشن تو آپ کو ڈیلی لائیو میں کئی طرح کی انسپریشن ملتی ہیں۔ میں نے اپنے گھر میں 14 سال ایک آدمی کو معذور حالت میں دیکھا ہے جو بالکل کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ شاہد صاحب کے بڑے بھائی۔ ہم ان کو دن رات دیکھتے تھے، ان کی معذوری جو تھی وہ انتہائی تکلیف دہ تھی ہمارے لئے۔ ان کی ماں ان کو دن رات دیکھتی تھیں، میں سلام پیش کرتی ہوں اس ماں کو جس نے 14 سال اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا اور امید نہیں چھوٹی اللہ سے، حتیٰ کہ وہ ان کے سامنے دنیا سے چلے گئے۔ ایسے لوگ تو کچھ نہیں کرسکتے ، جو کسی حد تک معذور ہیں انہیں ہم ملک کے لئے بہتر کاموں میں ’انوالو ‘کرسکتے ہیں تاکہ وہ اپنے لئے بھی کچھ کریں اور ملک کے بھی کام آسکیں۔
پاکستان:۔آپ وزیراعظم صاحب سے فلاحی کاموں کے ٹاپک پر ڈسکشن کرتی ہیں تو وہ آپ کو سپورٹ کرتے ہیں ان معاملوں میں، آپ کا ٹاپک آف سکشن رہتا ہے اکثر؟
خاتون اول:۔بہت زیادہ ٹائم تو نہیں ملتا لیکن کبھی کبھار بالکل یہ ہوتا ہے آپس میں تبادلہ، وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، میں نے بلکہ جب یہ اٹینڈ کیا تھا معذور بچوں کا فنکشن، اس کے بعد میں نے ان سے درخواست کرکے ان لوگوں کے ڈیلی گیشن کی ملاقات کروائی تھی ان سے۔ اس کے علاوہ پشاو رمیں جو حادثہ ہوا تھا ان کے والدین سے بھی ملاقات کروائی تھی۔ تو انشاء اللہ اوور نائٹ تو کچھ نہیں ہوتا ، آہستہ آہستہ ان کی فلاح و بہبود کے لئے بہت کچھ کریں گے۔
پاکستان:۔آپ اپنے فلاحی کاموں کے سلسلے میں معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں فلاح کے سلسلے میں، کیونکہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے اس کے قیام کا مقصد بھی یہ تھا۔
خاتون اول:۔میں یہ کہنا چاہوں گی کوئی بھی کام ، کسی بھی کام کی بیک گراؤنڈ میں تعلیم ہوتی ہے۔ تعلیم بیسک چیز ہے ہمارے ملک میں، بہت سے لوگ ناخواندہ ہیں اور خصوصاً چھوٹے بچے ہیں۔ اس لئے سب سے زیادہ کام تعلیم کے میدان میں ہونا چاہیے اور پاکستان کے ہر بچے کو حق حاصل ہے کہ وہ بیسک تعلیم حاصل کرے۔ میں تو یہی کہوں گی کہ سب سے اہم تعلیم ہے اور اس کے بعد صحت ہے ، یہ دونوں نکللکٹڈ ہیں ہمارے ملک میں، ان دونوں کے اوپر بہت سا کام کرنا ہے ہمارے ملک میں۔
پاکستان:۔آپ دیکھتی ہیں، میں تو کہوں گا کہ آپ سپیشل پرسن، چائلڈ کے لئے کام کررہی ہیں۔ لیکن ایک چیز دیکھی گئی ، شاید تعلیم کی کمی، شعور کی کمی سے ہم ذہنی معذور بھی ہوچکے ہیں۔ بہت سارے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے زینب کا حالیہ واقعہ تھا۔ اس پر آپ کی کیا ٹیک ہے کہ ہمیں کس طرح اپنے آپ کو گروم کرنا چاہیے کہ ہم اس طرح کے واقعات سے بچیں۔
خاتون اول:۔میں پھر وہی کہوں گی کہ جو اس طرح کی حرکت کرتا ہے وہ تعلیم سے بے بہرا ہوتا ہے۔ بیسک جو گھر کا ماحول، ماں کی گود سے نکلتا ہے۔ ماؤں کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے تاکہ وہ بچوں کو ابتدائی اصول، ویلیوز سکھاسکیں کہ ہم نے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے۔ میں تو بس یہی کہوں گی کہ تعلیم بے انتہا ضروری ہے۔
پاکستان:۔ایک فرد کی تعلیم اس فرد تک ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم ایک ماں کی تعلیم ہے جو کہ پھر قوم کی تعلیم ہے۔
آپ ڈاکٹر ہیں آپ ماشاء اللہ ہائلی ایجوکیٹڈ ہیں ، کبھی خاقان عباسی صاحب آپ سے سیاسی معاملات پر مشورہ کرتے ہوں، ایسا کچھ ہوتا ہے کہ کبھی بڑی ضرورت محسوس ہو یا ساری ذمہ داری انہوں نے خود اٹھارکھی ہے۔
خاتون اول:۔اس کا جواب نہیں میں مَیں دوں گی، کیونکہ وہ گھر آکر کبھی بھی اپنے آفس کا یا سیاسی معاملات پر کبھی بھی بات نہیں کرتے لیکن مجھے یاد ہے کہ جب پہلی دفعہ انہیں لوگوں نے مجبور کیا، اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی، میرے ماموں کی وفات کے بعد۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ کیا تھا، حالانکہ میری بھی عمر اس وقت زیادہ نہیں تھی کہ مجھے یہ کام کرنا چاہیے کہ نہیں او رمیرا خیال ہے کہ میں نے اس وقت نفی میں ان کو کہا تھا۔ لیکن پھر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ان کو اس میدان میں لانا تھا اور لوگوں کی خدمت کروانا تھی اس لئے انہوں نے خود فیصلہ کرلیا۔ میں تو ان کو سپورٹ ہی کرسکتی ہوں اور میں تو فلی سپورٹ کرتی ہوں، مجھے احساس ہورہا ہے کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا۔
پاکستان:۔پوری قوم کے لئے صحیح تھا، آپ قوم کا اثاثہ ہیں، آپ لوگوں کی بہت گرانقدر خدمات ہیں قوم کے لئے۔ آپ آنے والے سالوں میں پاکستان کو کہاں دیکھتی ہیں۔
خاتون اول:۔میں پاکستان کو بہت عروج پر دیکھتی ہوں، پاکستان میں کسی ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ ماشاء اللہ ہمارے بچے جتنے ذہین اور لائیک ہیں پوری دنیا سے کمپیٹ کرسکتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں یہاں بہترین ڈاکٹرز، انجینئرز ہر طرح کی امپورٹنٹ فیلڈ میں یہاں سے تعلیم حاصل کرکے باہر چلے جاتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ان کو کوئی ایسا انسینٹو دیا جائے کہ یہ برین ڈرین نہ ہو اور پاکستان کو سرف کریں۔
پاکستان:۔بطور خاتون اول پاکستان اور ڈاکٹر کے، ایک ڈاکٹر کا آپ سے سوال ہے کہ ہماری قوم کو صحت میں بہت زیادہ ارتقاء کی ضرورت ہے۔ ہم نیشنل این ایچ ایس کا سسٹم دیکھ لیں، امریکہ کا، برطانیہ کا سسٹم دیکھ لیں بہت گروم ہوچکے ہیں، ایسی ایس سپیشلسٹ کا کام ہورہا ہے جن کا پاکستان میں تصور تک نہیں ہے۔آپ ہیلتھ کے انفراسٹرکچر کو کیسے دیکھتی ہیں پاکستان میں اور کس طرح ٹیک رکھتی ہیں کہ کس طرح پراگریس کرنی چاہیے۔
خاتون اول:۔انفراسٹرکچر کا جہاں تک تعلق ہے سب سے پہلے اس کا فائدہ غریب عوام کو ہونا چاہیے اور غریب عوام کی رسائی سرکاری ہسپتالوں تک ہے۔ ہماری بدقسمتی سے پاکستان کے سرکاری ہسپتال ان کی حالت کوئی اتنی اچھی نہیں ہے۔ سب سے پہلے ان ہسپتالوں پر بہت توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ ہر انسان جو ہے بلکہ زیادہ تر لوگ جو ہیں وہ پرائیویٹ علاج کو افورڈ نہیں کرسکتے۔ آج کل جو ہیلتھ منسٹر ہیں سائرہ تارڑ صاحبہ وہ بہت کانشیس خاتون ہیں، اور بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں، اللہ نے موقع دیا تو ہم سب مل کر پاکستان میں ہیلتھ کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، خصوصاً غریب عوام کے لئے تاکہ انہیں قریب ترین اچھے علاج کی سہولت ملے اور انہیں مفت دوائیاں بھی میسر ہوں اور آسانی سے علاج کی سہولت ملے۔
پاکستان:۔ہم پنجاب کے لیول پر دیکھتے ہیں گرانقدر خدمات رہی ہیں ایکس پرائم منسٹر نواز شریف صاحب کی سپیشلی شہباز شریف صاحب کی ان کا ہیلتھ پر بہت زبردست فوکس ہے، اس لئے سپیشلائزڈ کیئر کے لئے منسٹر خواجہ سلمان رفیق اور پرائمری کے خواجہ عمران نذیر صاحب کا بہت فوکس ہے، سیکرٹری ہیلتھ نجم احمد شاہ صاحب بہت کام کررہے ہیں ہیلتھ پر پنجاب میں۔ آپ دیکھتی ہیں کہ ایک صوبے کا ہیلتھ سسٹم بہتر ہورہا ہے، نظر آرہا ہے بہتری کی طرف ہے، ملکی لیول پر باقی جگہ بھی یہ سسٹم ہو جائے گا وقت کے ساتھ۔
خاتون اول:۔جی انشاء اللہ اگر کوشش کی جائے اور جس طرح شہباز شریف صاحب مینج کررہے ہیں اگر باقی صوبوں کے بڑے افسران وہ بھی محنت کریں اور یہ تو پرائرٹیز میں آتی ہے ہیلتھ اور ایجوکیشن، اس کی طرف تو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، کیوں نہیں امپروو ہوگا،لیکن اس کے لئے ڈیڈی کیشن اور محنت کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے آج کل پاکستان میں سب سے بہترین ، ابھی پرفیکٹ تو نہیں کہوں گی، سب سے اچھا ہیلتھ کیئر پنجاب میں ہے اور میں چاہوں گی کہ ہمارا دارالخلافہ اسلام آباد اس میں تو بیسٹ چیز ہونی چاہیے، لیکن اس کو بہت زیادہ امپروومنٹ کی ضرورت ہے، باقی صوبوں میں بھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان:۔پاکستان میں پیوند کاری (ٹرانسمپلانٹ) کی ہم بات کررہے ہیں، کسی کا جگر فیلیئر ہے، کالا یرقان بہت زیادہ ہے، اسی طرح گردے فیل ہوجاتے ہیں۔ آپ کی اس پر کوئی ٹیک ہے کہ ہمیں کس طرح پیوندکاری کو گرو کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارا پڑوسی ملک پیوندکاری کے شعبے میں بہت آگے جاچکا ہے وہاں ہارٹ، لنک تک کے ٹرانسپلانٹ ہورہے ہیں جبکہ پاکستان میں جگر کے وہ بھی اکا دُکا جگہ ہیں کڈنی کے ٹرانسپلانٹ کے، کوئی ایسی خاص سہولت نہیں ہے اور پاکستان میں ہر آٹھواں فرد ہیپاٹائٹس کا شکار ہے اور جگر فیلیئر کے ریٹ بہت زیادہی ہیں۔ آپ اس پر کیا کہیں گی۔
خاتون اول:۔میں بہت بڑی سپورٹر ہوں اس چیز کی کیونکہ میں ڈائریکٹلی افیکٹڈ ہو اس چیز سے، میری چھوٹی بہن کو لنک ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی اور ہم اس کو انڈیا لے کر گئے جہاں پر ان کی چنائی کے شہر مدراس میں اویئر نیس ہے آرگن ڈونیشن کی ۔ اس کے ساتھ تو خیر بدقسمتی سے سوٹ ایبل ڈونر نہیں ملا اور اس کی وہیں ڈیتھ ہوگئی لیکن اس سے مجھے بہت زیادہ اسپریشن ملی کہ یہ کام لوگوں میں اویئر نیس پھیلانے سے یہ کام ہم کرسکیں گے کہ آپ کی ایفرٹ سے کسی اور کی زندگی بچ سکتی ہے۔
پاکستان:۔اس پر آپ عبدالستار ایدھی صاحب کی ٹیک دیکھیں کہ جب وہ جہان فانی سے رخصت ہوئے تو جاتے جاتے اپنے کورنیا، اپنی آنکھیں اور جو بھی ڈونیٹ ایبل اعضاء تھے ، 80 سال کی عمر سے اوپر شخص بھی اپنے آرگن ڈونیٹ کرکے گئے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ ملکی فلاح میں ڈاکٹرز موجود ہیں، سپیشلائزڈ ہیں، پاکستان کی بہت زیادہ پرسنٹیج امریکا میں سرو کررہی ہے ڈاکٹروں کی، ڈاکٹر آجائیں گے باہر سے یہاں ٹریننگ بھی ہوجائے گی۔ مگر ہمیں قومی طور پر اس چیز کو بھی ابھارنا چاہیے کہ ہم اپنے اعضاء کو ڈونیٹ کریں۔
خاتون اول:۔بہت زیادہ ضرورت ہے اس چیز کی، ہم لوگوں میں کچھ مذہبی طور پر غلط باتیں پھیلائی جاتی ہیں ، میرا تو خیال ہے کہ یہ ہیومن بینیفٹس کے لئے اللہ تعالیٰ اُس بات سے کبھی منع نہیں کرتے کہ جس سے کسی انسان کو دوسرے انسان سے فائدہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ اس پر بہت زیادہ کام کرن ے کی ضرورت ہے اور ہماری قوم ایسی ہے کہ اس کو موٹیویشن سے، بار بار سمجھانے سے، ہماری قوم انتہائی ذہین قوم ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پاکستان کی نمبر ون قوم ہے جو ڈونیشنز کرنے میں سب سے زیادہ ہے۔ وہ کیوں نہیں کریں گے، اگر انہیں صحیح طریقے سے گائیڈ کیا جائے تو وہ ضرور کریں گے۔ یہ بہت ضروری کام ہے۔
پاکستان:۔ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، یہ چیز تو ہم نے فزیکلی آپ سے مل کر بھی واقعی احساس ہوا ہے کہ واقعی سچ ہے، کیا آپ اس بات پر یقین رکھتی ہے؟
خاتون اول:۔یہ تو اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنے والی بات ہوگی، اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو میری تو بڑی خوش قسمتی ہے ، لیکن یہ بات سچ ہے کہ میں نے ہر تھک اینڈ تھن میں اپنے میاں کو سپورٹ کیا ہے اور کبھی بھی میں ان کی صحیح رائے سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک گھر کے، ایک معاشرے کے، ایک قوم کی کامیابی کا یہی راز ہوتا ہے کہ عور ت کو مرد کی صحیح سپورٹ کرنی چاہیے۔
پاکستان:۔ہم ایک آخری پیغام آپ کا لیں گے قوم کے لئے، یہ ایک پبلک افیئرنس ہے اور آپ بطور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خاتون اول، فرسٹ لیڈی آف پاکستان قوم کو کیا میسج دینا چاہیں گی۔
خاتون اول:۔میں ایک فرسٹ لیڈی تو نہیں ایک ادنیٰ پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے پوری قوم کو یہ میسج دینا چاہوں گی کہ ہمارے لئے ہماری قوم کے لئے سب سے امپورٹنٹ چیز جو ہے وہ تعلیم ہے۔ ہر بچے کو ، ہر عورت اور مرد کو پور احق حاصل ہے وہ تعلیم حاصل کرے اور اس سے پورے معاشرے کی گروتھ ہوگی، پورے ملک کی فلاح و بہبود ہوگی اور میرا تو خیال ہے کہ بیسک ہمارا پرابلم ہے وہ زیادہ تر جو ہمارے بچے ہیں وہ سکول نہیں جاسکتے ہیں۔ میں سب ماں باپ کو یہی پیغام دوں گی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروائیں، یہ نہ دیکھیں کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی ہے اور بڑا ہے ، بالغ ہے ہر عمر میں آپ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ میں تو بس یہی کہوں گی کہ تعلیم جو ہے سب سے ضروری چیز ہے۔
آپ کے اس پیغام پر مجھے بہت خوشی اس لئے ہے کہ ہم ساری زندگی بچپن میں ارتقاعی سیاسی عمل دیکھتے ہیں ، لوگوں میں یہ کانسپیٹ رہا کہ تعلیم سے ہٹایا جاتا ہے لیکن آج آپ جیسے لوگ قوم کا اثاثہ ہمارے حکمران ہیں اور ہمارے لئے بہت خوش قسمتی کی یہ بات ہے کہ آپ کی توجہ اس بیسک مسائل پر ہے جو اگر ٹھیک ہوگئے تو اس ملک کی قسمت بدل جائے گی۔ تعلیم ، صحت اور روزگار۔ آپ جیسے عظیم حکمران اور ان کی ارتقاعی عمل سے گزری یہ سوچ ایک بہت روشن پاکستان کی نوید ہے۔