سانحہ اوجڑی کیمپ نے زندگی بدل دی، شاہد خاقان عباسی بھی اسی وجہ سے سیاست میں آئے: بیگم وزیراعظم ڈاکٹر ثمینہ

سانحہ اوجڑی کیمپ نے زندگی بدل دی، شاہد خاقان عباسی بھی اسی وجہ سے سیاست میں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد(مانیٹر نگ ڈیسک)خاتون اول ڈاکٹر ثمینہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اوجڑی کیمپ کا حادثہ ہمارے لئے بہت بڑا تھا جس نے ہمار ی زندگیوں کو تبدیل کر دیا،شاہد خاقان عباسی کا سیاست میں آنے کی وجہ بھی یہ واقعہ ہی بنا۔ڈیلی پاکستان آن لائن کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں خاتون اول ڈاکٹر ثمینہ شاہد خاقان عباسی کا کہناتھا کہ میرے سسر چاہتے تھے کہ ان کا بڑا بیٹاسیاست میں آئے لیکن اس حادثے کی وجہ سے شاہد خاقان عباسی کو آنا پڑا۔انہوں نے بتایاکہ شاہد خاقان عباسی بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں ،کھانے میں انہیں کسی بھی قسم کا گوشت پسند نہیں وہ دالیں اور سبزیاں زیادہ پسند کرتے ہیں ، ان کی پسندیدہ سبزی بھنڈی ہے۔ اہلیہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ گھرکے کسی بھی کام میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ان کے پاس تو وقت نہیں ہوتا لیکن اگر انہوں نے کہیں جانا ہوتو وہ اپنی پیکنگ خود ہی کر لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے اور وزیراعظم سیاحت کو بہت شوق ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ ٹورزام میں ایکسپرٹ ہیں تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ ہم جہاں بھی ساتھ گئے ،میں نے دیکھا کہ وہ وہاں جا کر سب سے پہلے اس سیاحتی مقام کاکتابچہ لے کر پوری معلومات حاصل کرتے ہیں،انہیں شاپنگ کرنے کا شوق نہیں بلکہ وہ صرف سیاحت چاہتے ہیں ،اسی وجہ سے جب ہم نے کہیں شاپنگ پر جانا ہوتا ہے تو ہم ان کے بغیرہی جاتے ہیں۔ بچوں کی وابستگی شروع سے ہی میرے ساتھ رہی لیکن ان کے رول ماڈل شاہد خاقان عباسی ہی ہیں۔بچوں کی ابتدائی تعلیم میں توان کو خود پڑ ھاتی رہی۔خاتون اول کہتی ہیں کہ وزیر اعظم کی طبیعت میں غصہ بالکل نہیں ہے میں نے ان کو آج تک غصے میں نہیں دیکھا،یہ ان کی مزاج کی ہی خصوصیت ہے کہ آج تک ہمارا کبھی بھی جھگڑا نہیں ہواان کی اسی بات نے انہیں سیاسی زندگی میں بہت سپورٹ کی۔ڈاکٹر ثمینہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ہماری فیملی میں سادگی ہمارے آباؤ اجداد سے آئی جو آج تک قائم ہے ،کبھی بھی انہوں نے سیاسی طور پر بھی آگے آنے کی کوشش نہیں کی ،جب وہ وفاقی وزیر تھے تب بھی ہمارے پا س کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں تھا ،ایک وقت میں ان کی والدہ نے سیکورٹی کے لئے تو کہا توانہوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ آپ کوسیکورٹی چاہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں تو ان کا جواب تھا کہ میرا محافظ بھی اللہ تعالی کی ذات ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ سیاست سے دور رکھا کیونکہ میرا خیا ل ہے کہ سیاست میں آنے کی وجہ سے آپ اپنی فیملی کووقت نہیں دے پاتے لیکن اب میر ے خیالات بدل گئے ہیں ،میرے بڑے دو بیٹے تو شاید سیاست میں نہ آئیں لیکن چھوٹے بیٹے کی تعلیم سیاست کے حوالے سے ہی ہے اس کا خود کا ارادہ بھی ہے لیکن ان کے والد اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ،پاکستان کوگزشتہ ستر سالوں میں سیاسی طورپر نقصان پہنچایا گیا اگر ملک میں جمہوریت قائم رہتی تو آج یکسرمختلف ہوتے۔ڈاکٹر ثمینہ سے جب ویلفیئر کیلئے کیے جانے والے کاموں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے گھر میں 14 سال ایک آدمی کو معذور حالت میں دیکھا ہے جو بالکل کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا،وہ شاہد صاحب کے بڑے بھائی۔ ہم ان کو دن رات دیکھتے تھے، ان کی معذوری ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی ، ان کی ماں ان کو دن رات دیکھتی تھیں، میں سلام پیش کرتی ہوں اس ماں کو جس نے 14 سال اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا اور امید نہیں چھوڑی حتی کہ وہ ان کے سامنے دنیا سے چلے گئے۔ ایسے لوگ تو کچھ نہیں کرسکتے ، جو کسی حد تک معذور ہیں انہیں ہم ملک کے لئے بہتر کاموں میں ہاتھ بٹاسکتے ہیں تاکہ وہ اپنے لئے بھی کچھ کریں اور ملک کے بھی کام آسکیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ فلاحی کاموں کے حوالے سے معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں جس پر جواب دیتے ہوئے خاتون اول کا کہناتھا کہ میں یہ کہنا چاہوں گی کوئی بھی کام ، کسی بھی کام کی بیک گراؤنڈ میں تعلیم ہوتی ہے۔ تعلیم بنیادی چیز ہے ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ناخواندہ ہیں اور خصوصاً چھوٹے بچے ہیں۔ اس لئے سب سے زیادہ کام تعلیم کے میدان میں ہونا چاہیے اور پاکستان کے ہر بچے کو حق حاصل ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔آپ فلاحی کاموں کے حوالے سے معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں ؟اس پر جواب دیتے ہوئے خاتون اول کا کہناتھا کہ میں یہ کہنا چاہوں گی کوئی بھی کام ، کسی بھی کام کی بیک گراؤنڈ میں تعلیم ہوتی ہے۔ تعلیم بیسک چیز ہے ہمارے ملک میں، بہت سے لوگ ناخواندہ ہیں اور خصوصاً چھوٹے بچے ہیں۔ اس لئے سب سے زیادہ کام تعلیم کے میدان میں ہونا چاہیے اور پاکستان کے ہر بچے کو حق حاصل ہے کہ وہ بیسک تعلیم حاصل کرے۔ میں تو یہی کہوں گی کہ سب سے اہم تعلیم ہے اور اس کے بعد صحت ہے ، یہ دونوں نکللکٹڈ ہیں ہمارے ملک میں، ان دونوں کے اوپر بہت سا کام کرنا ہے ہمارے ملک میں۔ڈاکٹر ثمینہ کا کہناتھا کہ شاہد خاقان صاحب گھر آکر کبھی بھی اپنے آفس کا یا سیاسی معاملات پر بات نہیں کرتے لیکن مجھے یاد ہے کہ جب پہلی دفعہ انہیں لوگوں نے سیاست میں آنے پر مجبور کیاتو اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی، انہوں نے مجھ سے مشورہ کیا تھا، حالانکہ میری بھی عمر اس وقت زیادہ نہیں تھی،انہوں نے پوچھا کہ کیا مجھے یہ کام کرنا چاہیے ؟،میرا خیال ہے کہ میں نے انہیں جواب نفی میں دیا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ان کو اس میدان میں لانا تھا اور لوگوں کی خدمت کروانا تھی اس لئے انہوں نے خود فیصلہ کرلیا۔ میں تو ان کو سپورٹ ہی کرسکتی ہوں اور میں سپورٹ کرتی ہوں، مجھے احساس ہورہا ہے کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا۔میں پاکستان کو بہت عروج پر دیکھتی ہوں، پاکستان میں کسی ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے،ماشاء اللہ ہمارے بچے جتنے ذہین اور لائیک ہیں پوری دنیا سے مقابلہ کرسکتے ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں یہاں بہترین ڈاکٹرز، انجینئرز ہر طرح کی امپورٹنٹ فیلڈ میں یہاں سے تعلیم حاصل کرکے باہر چلے جاتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ برین ڈرین کو روکا جا سکے اور وہ پاکستان میں ہی خدمات انجام دیں ۔ان کا کہناتھا کہ غریب عوام کی رسائی سرکاری ہسپتالوں تک ہے، ہماری بدقسمتی سے پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت کوئی اتنی اچھی نہیں ہے۔ سب سے پہلے ان ہسپتالوں پر بہت توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ پرائیویٹ علاج کو افورڈ نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہاکہ نواز شریف اور خصوصی طور پر شہباز شریف کا ہیلتھ پر بہت زبردست فوکس ہے، اس لئے سپیشلائزڈ کیئر کے لئے منسٹر خواجہ سلمان رفیق اور پرائمری کے خواجہ عمران نذیر کا بہت فوکس ہے، سیکرٹری ہیلتھ نجم احمد شاہ بہت کام کررہے ہیں۔ آپ دیکھتی ہیں کہ ایک صوبے کا ہیلتھ سسٹم بہتر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، ملکی لیول پر باقی جگہ بھی یہ سسٹم ہو جائے گا وقت کے ساتھ۔