مکی آرتھر، ورلڈ کپ اور سلیکشن کمیٹی
رواں سال مئی کے آخر میں ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز ہونے جارہا ہے جو انگلینڈ میں کھیلا جائے گا اس ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کے جن پچیس کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں سینئر کھلاڑی سلمان بٹ کو نظر انداز کرنا سراسر ذیادتی ہے اپنی سزا پوری کرنے کے بعد وہ مسلسل ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کر رہے ہیں مگر شاید سلیکشن کمیٹی کو ان کی پرفارمنس ایک آنکھ نہیں بھاتی اور ان کی جگہ ایسے کھلاڑیوں کو سلیکٹ کیا جا رہا ہے جن کی ٹیم پرفارمنس اور ڈومیسٹک پرفارمنس مستقبل قریب میں کرکٹ سے دوری کا باعث ہو گی ،ان پچیس کھلاڑیوں میں ایسے کئی کھلاڑی شامل ہیں جن کی حالیہ پرفارمنس پر اگر بات کی جائے اور سلمان بٹ کی کارکردگی کی بات کی جائے تو شاید سلمان بٹ کی پرفارمنس ان سے لاکھ درجے بہتر ہو گی کیونکہ سلمان بٹ قومی ٹیم کے ایک مستند بلے باز اور کپتان رہ چکے ہیں
اور ان کی پرفارمنس پر کسی کو شک بھی نہیں ہے ،مگر ہمارے ہاں شخصیت پسندی کی بنیاد پر نئے کھلاریوں کو ترجیح دی جا رہی ہے ،اسد شفیق ،وقاص مقصود، عمید آصف ،میر حمزہ جیسے کھلاڑیوں سے بہتر سلمان بٹ کو بھی پچیس رکنی ٹیم میں شامل کر لیا جاتا اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں ورلڈ کپ سے قبل آزما لیا جاتا تو شاید ان کی پرفارمنس کا بھی پتہ لگ جاتا اور باقی پلیئر کی پرفارمنس جانچنے میں آسانی بھی ہو جاتی۔مکی آرتھر کے کپتان سرفراز احمد کے حق میں حالیہ بیان نے کرکٹ پنڈتوں اور ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے
کہ آخر ایسی کیا وجہ ہوئی جو کوچ کو ان کا دفاع کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی حالانکہ افریقہ کی پوری سیریز میں دونوں کی جنگ ایسے جاری رہی کہ پی سی بی کو کوچ کے آگے گٹھنے ٹیکنے پڑ گئے اور باقی میچز کی کپتانی کے لیے شعیب ملک کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا،ون ڈے اور بیس اوورز کی سیریز میں شکست کے بعد ان سے کپتانی کا تاج واپس لے کر سرفراز کے ماتھے پھر سجا دیا گیا،ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ کپتان کی ناقص پرفارمنس نے اسے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ،مگر موجودہ صورتحال میں کپتان سرفراز کی راہ میں حائل ایک کانٹا مکی آرتھر کو بھی رام کر لیا گیا اور انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کپتان کے حق میں بیان داغ دیا ،جب کہ کپتان کی پرفارمنس سب کے سامنے ہے شاید اسی وجہ سے ہمارے سینئرز نے کرکٹ بورڈ کے رحم و کرم پر رہنے کے بجائے خود ہی استعفیٰ دے دیا کیونکہ یہ یہاں کا دستور ہے
کہ ہم اپنے سینئرز کو ریٹائرمنٹ کے لیے اکساتے ہیں اور انہیں نظر انداز کر کے ان سے ان کی باقی کرکٹ بھی چھین لیتے ہیں اس کی مثال محمد یوسف،شعیب اختر،عبدالرزاق اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑیوں کی صورت میں موجود ہے۔پی سی بی کے پیٹرن انچیف عمران خان شاید اتنے مصروف رہ رہے ہیں
کہ انہیں ملکی معاملات کے باعث کرکٹ میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ بقول عمران خان کہ احسان مانی کرکٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان ہیں اور آئی سی سی کے صدر بھی رہ چکے ہیں اسی لیے وہ اس ذمہ داری پر پورا اترنے کے قابل ہیں،تو میری ان سے گذارش ہے کہ انہیں کرکٹ بورڈ میں اس عہدہ پر براجمان کرتے وقت انہیں بتا دیا جاتا کہ آپ کی جو ذمہ داری ہے اس میں اپنے اختیارات کو استعمال کر کے پاکستان کی کرکٹ کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں اور کسی کے ساتھ ناانصافی کرنے کی بجائے میرٹ کو ترجیح دی جائے،
ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ بہتر کیا جائے اور یہاں پرفارم کرنے والے کھلاڑی کے لیے بورڈ تشکیل دے کر سلیکشن کمیٹی کے سامنے سفارشات پیش کی جائیں،سلیکشن کمیٹی جائزہ رپورٹ کے مطابق کھلاڑی کو سلیکٹ کرنے کی اہل ہو ،مگر شاید پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ یہاں میرٹ نہیں سفارش چلتی ہے ۔