پاکستان اور دہشت گردی 

پاکستان اور دہشت گردی 
پاکستان اور دہشت گردی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چند ہفتوں سے پاکستان میں دہشت گردوں کی کاروائیوں میں تیزی آ گئی ہے. مسلح عناصر اب اتنے دیدہ دلیر ہو گئے ہیں کہ وہ ہماری سیکورٹی پوسٹوں پر بھی حملے کرنے لگے ہیں جبکہ ماضی میں زیادہ کاروائیاں دہشت گردی پر ہی مبنی تھیں اور چھپ کر حملے کئے جاتے تھے اس طرح کی دیدہ دلیری دشمن کے خطرناک عزائم کا پتہ دیتی ہے۔ اگرچہ ہماری افواج ان سے کامیابی سے نبٹ رہی ہیں لیکن اپنے گھر کو صاف رکھنے کے لئے ہمارے جوان اور افسر بلاتمیز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں جن کا اصل فرض تو سرحدوں کی حفاظت ہوتا ہے لیکن ہر مشکل موقع کی طرح ہماری دفاعی افواج یہاں بھی اگلی صفوں میں لڑ رہی ہیں۔
پاکستان ایک ایسے خطے میں پایا جاتا ہے جو دنیا کوآپس میں ملاتا ہے۔ اس اہم جغرافیائی خطے میں موجودگی کی وجہ سے ہر ملک اس پر اپنا سیاسی اور سماجی اثرورسوخ بلکہ کنٹرول رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ ہر طرح کا لالچ، دھونس اور رشوت سے بھی گریز نہیں کرتاانہوں نے اپنے ایجنٹ بھی چھوڑ رکھے ہیں۔جو ان کے مفاد کے لئے ہر قسم کی سیاسی، علاقائی، اخلاقی اور مذہبی دھونس اور دھاندلی کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے پاکستان میں آغاز سے ہی لیڈرشپ کا فقدان رہا ہے اور بانی پاکستان کی ناوقت وفات نے ملک میں ایک ایسا خلا چھوڑ دیا جہاں سازشیوں کو پنپنے کا موقع مل گیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت نے اس میں جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ سیاسی نظام کو سازشوں اور علاقائیت کی منافقت نے مزید خرابی کی طرف دھکیل دیا گیا  پھرسکندر مرزا نے کمزور جمہوریت کے کفن میں کیل ٹھونک دی۔ 
 لوگوں کی آزادی رائے پر پابندی لگائی گئی اور اسی روش نے علاقائی نفرت کو جنم دیا اورملک دو لخت کر دیا گیا۔ یہاں ہی بس نہ ہوئی بلکہ بعد میں جمہوریت کو اپنے مفاد کے لئے جمہوری لوگوں نے ہی شبخون مارا اور دانستہ یا دانستہ بڑے بڑے نام اس میں شامل ہو گئے۔


ملک میں اصل خرابی کا آغاز ضیاء الحق کے دور میں ہوا جب وہ ایک پرائی جنگ میں کود پڑے۔اسلام کے نام پر ایک کافرملک کی مدد کی۔ بدلے میں پاکستان میں دھماکوں کا آغاز ہوا لیکن اس کی انتہاء  آئندہ آنے والوں سالوں میں ہوئی جب ہمارا حلیف اپنا مطلب نکال کر افغانستان کو چھوڑ گیا اور اس کے تیار کردہ مجاھدین کے جب ذرائع آمدن بند ہوگئے تو وہ کہیں طالبان بن گئے تو کہیں داعش۔ ملک کی رٹ کو کبھی اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر نشانہ بنایا گیا تو کہیں ملک کی  سرحدوں کو چیلنج کر کے حملے کئے گئے۔


یہاں پر ہی بس نہ ہوئی بلکہ بلوچستان میں محرومی کے احساس نے وہاں کے لوگوں میں بغاوت کے عنصر کو فروغ دیا۔ بلوچستان کے لوگ پہلے ہی سرداروں کے ظلم کی وجہ سے پسے ہوئے تھے وھاں کے باشندوں نے جب اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی تو کئی ایسے عناصر جو پاکستان کو تسلیم ہی نہ کرتے تھے نے ان کے محرومی کے جذبات کو ہوا دی۔ اسی کے ساتھ کچھ ایسے وڈیرے بھی شامل ہو گئے کہ جن کے مفادات کو ضرب لگتی تو وہ ان کو اپنے مقاصد ک کے لئے استعمال کرتے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں چلیں اور اسی میں اکبر بگتی جیسی قدآورشخصیت جان گنوا بیٹھی۔ محرومیوں کے احساس کو کم کرنے کے لئے حکومت وقت نے گراس روٹ لیول تک کام نہ بلکہ ان کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی یا سرداروں کی مدد لی گئی لیکن ان میں  کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو امن کے قیام کی راہ میں رکاوٹ تھے۔
اس احساس محرومی کا فائدہ دشمن قوتوں نے اٹھایا اور ان حقوق سے محروم لوگوں کی برین واشنگ کر کے غیر محسوس انداز میں یہ باور کرایا کہ ان کی آزادی کا پاکستان سے علیحدگی ہی حل ہے،جبکہ ان کے ایجنٹ کھلے عام ہر فورم پربیرون ملک اور پاکستان میں مخالف رائے کااظہار کرتے رہے۔ لیکن حکومتی لیول پر اس کا توڑ نہ کیا گیا۔ اور آج حال یہ ہے کہ دشمن کو پاکستان کے اندر ٹھکانے مل گئے ہیں چاہے وہ دشمن انڈیا ہو، امریکہ یا کوئی دوسرے ممالک ہوں وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ صرف طاقت کے استعمال سے آپ ان عناصر کو ختم نہیں کر سکتے۔ خود دیکھ لیں کہ دہشت گردوں کو پکڑنے میں ہماری کتنی قیمتی جانیں قربان ہو رہی ہیں۔ وہ تو شہادت کا درجہ پا رہے لیکن یہ عمل کب تک جاری رہے گا۔


اس وقت سیاسی اور فوجی اداروں کو مل کر مختلف محاذوں پر کام کرنا ہے۔ کیوں کہ بلوچستان میں غریبوں کے لئے تعلیم تقریبا ممنوع ہے اس کے لئے  ایسا لائحہ عمل بنایا جائے کہ بچوں کو نچلی سطح تک تعلیم دی جائے اوررکاوٹ کے عنصر کو کنٹرول کیا جائے۔ بلوچستان میں لیوی کے سسٹم کو ختم کر کے پولیس کا نظام نافذ کیا جائے اوراس میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جائے تا کہ وہ خرابی کو اندر سے کنٹرول کر سکیں۔ جب تک حکومت کے ڈائرکٹ نمائندے وہاں نہ ہوں گے۔سرکارکی مقرر کردہ لیوی کچھ نہ کر سکے گی۔ وہاں ایسا سسٹم بنائیں جو فرد کی بجائے حکومت کے ماتحت ہو۔
افغانستان میں طالبان کی کامیابی کی بڑی وجہ ان کا مختلف دیہاتوں کے باشندوں پر کنٹرول کا ہونا تھا اور ڈر یا اثر کی وجہ سے حکومت کو معلومات حاصل نہ ہوتی تھیں۔ مجھے2007ء تورخم سے کابل اور پھر قندھار جانے کا موقع ملا۔ کابل سے قندھار سڑک کے زریعہ سفر کیا سڑک بہت عمدہ تھی۔ مین روڈ پر فوجیوں کی گشت دیکھی اس میں باہر کے ممالک کے  فوجی بھی جگہ جگہ نظر آئے۔ جب میں نے استفسار کیا تو وہاں دوستوں نے بتایا کہ ان کی حکومت سڑک کے تھوڑے فاصلہ تک ہے چھوٹے مقامات پر ان کا اس طرح کا کنٹرول ہے کہ لوگ ان کے خلاف بولنے کی جراٰت نہیں کرتے۔ وہاں تو ایک دوسرا نظام تھا لیکن پاکستان میں ایک حکومت ہے جس کی جڑیں عوام میں اور لوگ محب وطن ہیں جن کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔


 اس وقت حکومت کا سب سے  اہم کام لوگوں کو احساس تحفظ دینا، تعلیم اور باعزت روزگار مہیا کرنا ہے۔ یہ کام ایک دن کا نہیں لیکن اس کی شروعات کی فوری ضرورت ہے ورنہ ہندوستان کیا آپ کے دوست جو سی پیک سے خائف ہیں اور اندرونی افراتفری کو ہوا دے رہے ہیں کہ اس روٹ کی کامیابی سے ان کے کاروبار کے راستے بند ہو جائیں گے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں مڈل کلاس کو اوپر لایا جائے اور وہ تعلیم اور روزگار کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ کیا حکومت، فوج اور محب وطن پاکستانی مل کر کالی بھیڑوں کو ڈھونڈ کر ان کی گوشمالی کر کے اس مملکت خداداد کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لگا سکیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -