آہ مشرف، واہ مشرف، جا مشرف

  آہ مشرف، واہ مشرف، جا مشرف
  آہ مشرف، واہ مشرف، جا مشرف

  


 نو سال تک پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے والا شخص غریب الوطنی میں دارِفانی سے کوچ کر گیا۔ پرویز مشرف طاقت ور صدرِ پاکستان تھے۔ ایسا ہر فوجی صدر جب تک وردی میں ہوتا ہے تب تک ناقابلِ تسخیر ہی ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کو چلتا کیا تومشرف صاحب کو عوامی محبت اور نفرت کے ترازو میں تلنا پڑ گیا۔  شروع میں پرویز مشرف کو ان کے احتساب کے نعرے سے متاثر ہونے والے حلقوں اور مسلم لیگ کے مخالفین کی طرف سے پذیرائی ملی۔ جس میں گزرتے وقت اور احتساب سے کمپرومائز کے باعث کمی آتی چلی گئی۔کمپرومائز کی بات ہوئی تو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ان کے ساتھ کمپرومائز کرنے کی کوشش کی۔ ان کو ٹیڑھے چلتے دیکھا تو آرمی چیف کے ساتھ جوائنٹ سروسز چیف کا عہدہ بھی تفویض کر دیا، آرمی چیف کی تقرری چیف ایگزیکٹو کا اختیار ہے اسی طرح اسے عہدے سے ہٹانے کا بھی اختیار ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ اخلاقی طور پر ایسا کرنا مناسب  تھا یا نہیں جب وہ بیرونِ ملک تھے،  بلاشبہ جسے عہدے سے فارغ کیا جائے وہ سبکی محسوس کرتا ہے، جہانگیر کرامت سے بھی استعفیٰ طلب کیا گیا، مشرف سے میاں نواز شریف استعفیٰ طلب کرتے تو شاید وہ سب کچھ نہ ہوتا جو اُس وقت ہوا جس کے اثرات پاکستان کی سیاست سے تادیر زائل نہیں ہوں گے، جنرل ضیاء الدین بٹ کی مراعات بدستور بند ہیں۔اسی طرح میاں نواز شریف کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال تھے۔ ان کی میجر جنرل بننے کی پروموشن ڈیو تھی۔ اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ ان کے ڈیوز  بھی کلیئر نہیں ہوئے۔


پرویز مشرف کو3نومبر2007ء کی ایمرجنسی پلس کے نفاذ پر آئین شکنی کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سنا دی گئی تھی، جبکہ انہوں نے12اکتوبر1999ء کو جس اقدام کا ارتکاب کیا  وہ تین نومبر کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین تھا، اس اقدام کو عدلیہ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دے دیا۔یہ ہمارے نظام کا حسنِ ہے۔ پرویز مشرف کے کریڈٹ پر بہت کچھ ہے، ڈس کریڈٹ کی بات کریں تو ابھی ایک فہرست بن جاتی ہے۔ جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے روا رکھا جانے والا ناروا سلوک بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر خان کو حراست میں لینے سے دو ماہ قبل خان کے دست راست ڈاکٹر محمد فاروق کو گرفتار کیا گیا۔ وہ بدستور اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔
پرویز مشرف کے مارشل لاء میں ایوب اور ضیاء دور کے مارشل لاؤں جیسی سختی  قہر جبراورشدت نہیں تھی۔ پی پی پی کے جیالے اپنی قیادت کے لیے پھانسی پر بھی جھول جاتے تھے۔ ضیاء الحق دور میں کوڑے تو جیالوں کے ساتھ صحافیوں کو بھی پڑے۔ مشرف دور میں قید و بند کا سلسلہ ضرور شروع ہوا جو قید بند تک ہی محدود رہا۔ مسلم لیگ ن کے کچھ لیڈروں اور ورکرز نے مشرف کے مارشل لاء کو مقابلتاً نرم پایا تو احتجاج اور مظاہرے ہونے لگے۔مسلم لیگ ن میں بھی اپنی قیادت پر جاں نچھاور کرنے والے موجود ہیں مگر پی پی پی کی نسبت کم ہیں۔ اُدھر مشرف نے خود کو سیاسی کیا تو اپنی ساکھ کھونے لگے۔ آرمی چیف کے عہدے سے الگ ہوئے تو بے وقعت ہو گئے۔+


پرویز مشرف نے مسلم لیگ ن میں سے نئی پارٹی نکالنے کی کوشش کی، پہلے ایک گروپ تشکیل پایا جسے ہم خیال گروپ کا نام دیا گیاجو مسلم لیگ قائداعظم کے قالب میں ڈھلا جس کی سربراہی میاں اظہر کے حصے میں آئی۔ پرویز الٰہی پنجاب کے صدر بنے۔ مسلم لیگ قائداعظم جو ق لیگ کے نام سے شہرت پذیر ہوئی اس کی زیادہ تر تشکیل کے مراحل ہمایوں اختر خان کی کینٹ میں رہائش گاہ پر طے ہوئے۔تین چار مرتبہ مجھے بھی اجلاسوں کی کوریج کا موقع ملا۔ جب ہم خیال گروپ سے باقائدہ پارٹی کی طرف معاملات بڑھ رہے تھے تو مسلم لیگ ش(شجاعت) کی بازگشت بھی سنائی دی تھی۔ پرویز مشرف کو اپنی سیاسی جاں نشینی کے لیے ایک پارٹی کی ضرورت تھی۔ پرویز مشرف اس پارٹی سے مسئلہ کشمیر کے حل کاکام لینا چاہتے تھے۔ اُس دور کے چودھری شجاعت کے بیانات کو تازہ کرنے کے لیے یاداشتوں کو آواز دیں تو وہ بڑے دکھی دل کیساتھ کہتے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ ہر صورت کسی بھی طرح حل ہونا چاہیے۔ آخر کب تک کشمیریوں کا خون بہتا رہے گا۔ پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے آزاد اور خود مختار کشمیر تک کی تجویز بھی دے دی۔ ایسی تجاویز کے وکیل چودھری شجاعت حسین اور ان کے ساتھی تھے۔ پرویز مشرف کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے بھی ایک موقع کمٹڈ نظر آئے مگر پھر چراغ بجھتے چلے گئے۔


 پرویز مشرف کی حب الوطنی کسی بھی پاکستانی خصوصاً کسی سولجر سے کم نہ تھی۔ اس پر کرپشن کے الزام تھے نہ مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے۔ بے نظیر کے وارث اِن پر وہ اُن پر الزام ضرور لگاتے رہے۔ مشرف کا نعرہ سب سے پہلے پاکستان تھا افسوس اس کی وہ عملی تصویر نہ بن سکے۔ ان کی اندرونی اور بیرونی ممالک میں بڑی بڑی جائیدادیں ہیں۔ وہ پاکستان  یا پاکستان کے کسی ادارے کوبعد از مرگ و قف کر دیتے تو سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کی تعبیر  بن جاتے۔ان کی موت پر افسوس ہے، آہ مشرف!۔ان کے کریڈٹ پر معیشت کی بہتری ڈالر پورے دور میں ساٹھ کا رہا،میڈیانے کئی سنگ میل عبور کئے،مربوط بلدیاتی سسٹم دیا  واہ مشرف۔ہر کسی نے اپنے وقت پر جہاں سے چلے جانا ہے، اُن کا وقت آگیا تھا جا مشرف، اللہ مغفرت فرمائے۔ رویوں کا جبر دیکھئے پارلیمان میں کچھ لوگوں نے مشرف کیلئے دعائے مغفرت کی مخالفت کی۔لال مسجد والوں سے زیادہ کس پر ظلم ہوا ہوگا۔مولانا عبدالعزیز نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔

مزید :

رائے -کالم -