بلوچ پہاڑوں سے اُتر آئیں،کیوں؟ (6)
آج یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اِن کالموں میں اِس کا تجزیہ کررہے ہیں کہ وہ وجوہات کیا تھیں، جنہوں نے نوجوانوں کو پہاڑوں کی راہ دکھائی اور ساتھ ساتھ اِس کا بھی تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں کہ جب بلوچستان میں مسلح تصادم شروع ہوا تو وہ کون سا دور حکومت تھا اور کون حکمران تھا ؟اور سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ بعض بلوچ دانشوروں، سیاستدانوں اور نوجوانوں میں یہ خیال کیسے پیدا ہوا اور اِس کے اندرونی اور بین الاقوامی اسباب کیا ہےں کہ یہ سوال مختلف مرحلوں میں اُبھرتا رہا اور پھر سیاست کے میدان سے اُوجھل ہوتا رہا۔
ہم اِس پہلو سے کچھ لمحوں کے لئے ماضی کی طرف لوٹیں گے تاکہ اِس کا سراغ لگا سکیں کہ سب سے پہلی بغاوت خان میر احمد یار خان (مرحوم) کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم خان نے کی، وہ مکران کے گورنر بھی رہ چکے تھے ، اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان کی سرحدی پٹی کی طرف چلے گئے تھے۔ اُن دنوں نواب بگٹی، نواب خیر بخش مری، سردار عطاءاللہ مینگل کی عمریں 20 یا 22 سال کی ہوں گی اور وہ ابھی سیاست میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ خان قلات کی ریاست کو اُس وقت جھٹکا لگا، جب ریاست لسبیلہ کے والی نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ یوں یکے بعد دیگرے خان کو اکیلا چھوڑ کر پاکستان میں شامل ہوگئے ۔خان میر احمد یار خان مرحوم اِن تینوں کی نسبت زیادہ مستحکم تھے اور اُن کا احترام زیادہ تھا۔ بلوچ ریاستی حکمرانوں میں صرف والئی قلات پاکستان میں شمولیت کے لئے آمادہ نہ تھے ۔ اُنہوں نے بڑی ذہانت سے دیوان عام اور دیوان خاص بنایا تھا ۔خان (مرحوم) اِس کے ذریعے اپنی سیاست کررہے تھے، جو بات وہ نہیں کہہ سکتے تھے، اُن کی تصاویر کے ذریعے اپنا مدعا بیان کرتے تھے۔ اِن ایوانوں میں مختلف قبیلوں کے سردار ،ٹکری اور معتبرین شامل تھے اور اُن کے ساتھ کانگریس کے ہمنوا بھی موجود تھے۔ پاکستان کے خلاف اُن کی تقاریر اب ریکارڈ کا حصہ ہیں۔خان ایک طرف مسلم لیگ کو منظم کررہے تھے ،فنڈ فراہم کررہے تھے تو دوسری طرف درپردہ کانگریسی ہم خیال سیاسی قائدین کی پشت پناہی بھی کرتے تھے، لیکن خان مرحوم کی تمام سیاسی چالیں ناکام ہوگئیں،اِس لئے کہ تاجِ برطانیہ کے نزدیک ریاست قلات کی کوئی حیثیت نہیںتھی ، لارڈ ماﺅنٹ بیٹن برصغیر ہند کی تقسیم کا فارمولہ طے کرچکے تھے اور کانگریس نے بھی اِس کو تسلیم کرلیا تھا۔ کچھ ایسا ہی سیاسی نقشہ صوبہ سرحدمیں نظر آرہا تھا۔ اِس کی سب سے دلچسپ داستان بر صغیر کے ممتاز عالم دین اور سیاستدان مولاناابوالکلام آزاد نے اپنی خود نوشت میں بیان کی ہے۔ وہ اپنی کتاب ”ہماری آزادی“ میں لکھتے ہیں کہ:” گاندھی جی کے ماﺅنٹ بیٹن پلان کو قبول کرلینے پر مجھے تعجب اور افسوس ہوا تھا، لیکن ہم سمجھ رہے تھے کہ عبدالغفار خان پر اِس کا کیا اثر ہوگا؟ ایسا لگتا تھا کہ اُن کے ہوش و حواس بالکل گم ہوگئے تھے، چند منٹ تک اُن کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا ،پھر اُنہوں نے ورکنگ کمیٹی میں اپیل کی اور اُسے یاد دلایا کہ ُانہوں نے کانگریس کا ساتھ دیا، اب کانگریس نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا تو صوبہ سرحد پر اِس کا بہت خراب اثر پڑے گا، خراب رِدّ عمل ہوگا، جبکہ کانگریس نے صوبہ سرحد اور اُس کے لیڈروں سے مشورہ بھی نہیں کیا اور تقسیم کی مخالفت کرنا چھوڑ دیا۔
خان عبدالغفار خان نے کئی بار دہرایا کہ اگر کانگریس نے خدائی خدمتگاروں کو بھی بھیڑیوں کے سامنے نوچنے کے لئے ڈال دیا ،تو یہ صوبہ سرحد کے ساتھ غداری ہوگی۔ گاندھی جی کے دل پر خان عبدالغفار خان کی اپیل کا بہت اثر ہوا اوراُنہوں نے کہا کہ وہ اِس سلسلے میں ماﺅنٹ بیٹن سے بات کریں گے“ (388 صفحہ).... گاندھی کی ملاقات ہوئی، لیکن ناکام رہی، کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ جب کانگریس نے تقسیم کا فیصلہ تسلیم کرلیا تو خان عبدالغفار خان اور اُن کی پارٹی کا مستقبل کیا ہوسکتا تھا؟ ماﺅنٹ بیٹن پلان کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمان اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہونا تھے،جبکہ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ سرحد میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی ،اِسے ہر حال میں پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ اِس کی جغرافیائی سرحد کسی بھی طورپر ہندوستان سے نہیں ملتی تھی ۔ماﺅنٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ استصواب ہوگا کہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتا ہے یا ہندوستان میں (390صفحہ)
حقیقت یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں خان بھائیوں کی طاقت اتنی نہیں تھی جتنی کہ کانگریس سمجھتی تھی۔ تقسیم کی تحریک کے بعد اُن کا زور اور بھی گھٹ گیا تھا۔ اب چونکہ پاکستان کی منزل قریب آرہی تھی ،اِس لئے صوبہ سرحد میں ایک جذباتی انقلاب کی لہر دوڑ گئی تھی۔ڈاکٹر خان صاحب (صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے)،صوبہ سرحد میں پختونستان کا مطالبہ پیش کرکے ہی اپنی قیادت کو برقرار رکھ سکتے ہیں، لیکن لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کسی نئے مطالبے کو سننے پر آمادہ نہیں تھے۔ کانگریس کی کارروائیوں میں یہ خان صاحبان کی آخری شرکت تھی۔اُنہوں نے دیکھا کہ کانگریس نے تقسیم کے فارمولے کو تسلیم کرلیا ہے تو اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ اُنہوں نے آزاد پختونستان کا نعرہ بلند کیا، وہ لوٹ گئے اور اُنہوں نے رائے شماری کا بائیکاٹ کردیا، لیکن اُن کی مخالفت سے کچھ نہیں ہوا ۔آبادی کے بہت بڑے حصے نے رائے شماری میں حصہ لیا۔ پاکستان کے حق میں ووٹ دیا اور برطانوی حکومت نے اِسے فوراً تسلیم کرلیا ....(393صفحہ)
مولانانے اپنی کتاب میں لکھا کہ: ”تقسیم کے بعد خان بھائیوں نے حالات کے مطابق اپنے رویے میں تبدیلی کرلی۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ آزاد پختونستان کے مطالبے سے اُن کی مراد ایک الگ ریاست کا قیام نہیں ، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ صوبہ سرحد کو ایک رکن کی حیثیت سے مکمل صوبائی خود مختاری حاصل ہو اور مزید وضاحت کی کہ پاکستان کا دستور صحیح معنوں میں وفاقی ہو ،جس میں اُن صوبوں کو،جو اُس کے رکن ہوں، پوری صوبائی خود مختاری دی جائے۔ خان بھائیوں کا مطالبہ یقینا جائز تھا اور مسلم لیگ کے لاہور ریزلیوشن سے ہم آہنگ تھا، جسے لیگ نے خود منظور کیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد خان غفار خان کا مطالبہ یہ تھا کہ صوبہ سرحد انگریزوں کا دیا نام ہے، اُس کو تبدیل کیا جائے، پختونستان رکھا جائے ،پاکستان کے حکمرانوں نے نام کے حوالے سے ایک طوفان کھڑا کیا ۔ اب خان غفار خان کے پوتے نے ذہانت سے وہ کام کرلیا، جو دادا اور باپ نہیں کرسکے تھے۔ نام اگر 1948ءمیں رکھ دیا جاتا تو اتنا گردو غبار تو نہ اُٹھتا اور نہ غداری کے مقدمات قائم ہوتے اور نہ جیلیں بھری جاتیں۔
1955ءکے بعد سے سردار مینگل، نواب خیر بخش مری، نواب بگٹی ، گل خان نصیر ، شہزادہ عبدالکریم بھی تو صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرتے رہے ۔ اِس کے نتیجے میں جیل کی سلاخیں تھیں اور تختہ دار تھا۔ سوال یہ ہے کہ بلوچوں کو اِس بہیمانہ رویے کے بعدکیا کرنا چاہئے تھا اور اُنہیں کس طرح اپنا رِدّ عمل ظاہر کرنا چاہئے تھا؟ اِس پس منظر میں تو اُن کا ردِّ عمل فطری لگتا ہے۔ اسلام آبا دکے حکمرانوں نے خلوص نیت سے کام کیا ہوتا تو بلوچ اِس راستے کو بالکل ہی اختیار نہ کرتے، لیکن اُن کے مخلصانہ مطالبہ کو شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا ۔اِس میں کچھ بین الاقوامی حالات کو بھی دخل حاصل ہے۔ صوبہ بلوچستان میں خان میر احمد یار خان (مرحوم) اور صوبہ سرحد کے خان برادران کے ردِّ عمل میں ایک بڑا فرق نظر آئے گا۔ خان برادران نے پاکستان کو تسلیم کرلیا ،اِس لئے کہ وہ سیاستدان تھے، لیکن خان کا رویہ مختلف تھا۔ صدیوں سے ریاست قلات پر اُن کی حکمرانی تھی، وہ والی تھے ،اِس لئے وہ دل میں خلش رکھتے تھے۔ ایک طرف حکمرانوں کی حمایت کرتے تھے تو دوسری طرف مسلح جدوجہد کی بھی مکمل حمایت موجود تھی۔ اِس کا تو عینی شاہد ہوں۔
1970ءمیں جماعت اسلامی خضدار میں انتخابی جلسے کا اہتمام ہوا ،اُن کے ہمراہ میرا پہلا سفر تھا، خضدار کے جلسے میں میری تقریر بھی تھی۔ مولاناعبدالعزیز (مرحوم) نے خطاب کیا ۔اِس کے بعد واپس آرہے تھے کہ قلات سے پہلے دوسری طرف فراریوں کی ایک جیپ تیزی سے قلات سے خضدار کی طرف جارہی تھی۔ ہماری جیپ کے قریب آنے سے پہلے مسلح افراد نے بندوق سے اشارہ کیا کہ ُرک جائیں ۔پچھلی نشست پر عبدالحمید مینگل (مرحوم)، مولانا عبدالمجید مینگل (مرحوم) اور خلیفہ عبدالرحیم ابابکی تھے ، اگلی نشست پر مولانا عبدالعزیز (مرحوم) تھے۔ ہم سب کو اچانک خیال آیا کہ یہ ہم پر فائر کریں گے۔ جب دونوں گاڑیاں قریب آگئیں تو علی محمد مینگل اگلی نشست پر تھے، اُن کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی، اِس لئے ہم نے پہچان لیا۔ اُس نے براہوی میں بات کی کہ آپ لوگ کون ہیں؟ عبدالمجید مینگل نے بتایاکہ ہم جماعت اسلامی کے لوگ ہیں اور اپنا تعارف کرایا، اِس کے بعد اُس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور سلام کیا اور روانہ ہوگیا ۔وہ خان سے مل کر آرہا تھا اور خان کی پناہ میں تھا، اِس لئے خان بلوچ مسلح جدوجہد کرنے والوں کا حامی تھا اور وسائل فراہم کرتا تھا۔(جاری ہے) ٭