سب کچھ خدا پر چھوڑ دیں
2012 ءکی بین الاقوامی سطح کی سب سے انوکھی خبر مصر کے کوپٹک کرسچن پوپ ، ان صاحب کا نام جو بھی ہو،کے چناﺅ کے لئے اپنائے گئے طریق ِ کار کے حوالے سے ہے ۔ اس طرز ِا نتخاب میں دانائی کی بجائے معصومیت کو ترجیح دی گئی ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ایک معصوم بچے کی منشا کو ہی ”رضائے حق“سمجھ لیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ کوپٹک چرچ کے پاس پوپ کے لئے نامزد امیدواروں کی ایک فہرست تھی، لیکن چناﺅ کا معاملہ کچھ الجھ گیا، چنانچہ اس تنازع کو ختم کرنے کے لئے ان افراد کے نام کاغذ کے ٹکروں پر لکھ کر ایک بچے، جس کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی، کو ایک ٹکرا اٹھانے کے لئے کہا گیا۔ اس طرح پوپ کے انتخاب کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔
اس دانائی سے سبق حاصل کرتے ہوئے انڈیا کی تین طاقتور ترین تنظیموں ، کانگرس، بی جے پی اور بی سی سی آئی (بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا )، جو انڈیا کو تو نہیں ،لیکن انڈیا کے سب سے اہم اثاثے، کرکٹ کو کنٹرول کرتا ہے، اپنے سب سے بڑے مسئلے قیادت کا چناﺅ کے حل کے لئے یہی طریق ِ کار اختیار کرنا چاہیے۔بی جے پی کو تو دہرے مسئلے کا سامنا ہے، کیونکہ اسے فوری طور پر ، بلکہ ہنگامی بنیادوں پر ایک صدر کی ضرورت ہے اور اس وقت یہ پارٹی اس بات پر اختلاف کا شکار ہے کہ کچھ دھڑے نتن گادکری کو عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے ،جبکہ کچھ کا خیا ل ہے کہ وہ ویداربھا کے مسائل پر ہی توجہ دے۔
کوپٹک پوپ کے چناﺅ کے وقت چرچ کے بڑوں نے امیدواران کی فہرست کو کم کرتے کرتے حتمی طور پر تین نام فائنل کر لئے تھے۔ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو تین نام فائنل کرنا ایک کٹھن مسئلہ ہو گا، اس لئے اسے کم از کم چھے ناموں کو حتمی انتخاب کے لئے قرعہ اندازی کرنے کے برتن میں ڈالنے کی اجازت ہو نی چاہیے، اس کے بعد ایک آنکھوں پر پٹی باندھے بچے کی ”نگاہ ِ انتخاب “ کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس طرز ِ جمہور میں دھاندلی یا اقربا پروری کی شکایت بھی نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی اُس بچے کے معصوم ہاتھ سے تعصب کی بو آئے گی۔ اگرپارٹی صدارت کے مسئلے میں ”بچگانہ دانائی “ کام دے بھی گئی تو ایک اور مسئلہ منہ پھاڑے کھڑا ہے بی جے پی وزیر ِ اعظم کس کو نامزد کرے گی؟اس مسئلے کا سلجھاﺅ خاصا مشکل عمل ہے، کیونکہ اس میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے تمام رہنما شامل ہو جائیںگے۔ اب جہاں تک این ڈی اے کے رہنماﺅں کا تعلق ہے تو انہیں زمینی عوامل کے علاوہ آسمانی طاقتوں کی نیت پر بھی شبہ رہتا ہے۔ انہیںخدشہ ہے کہ بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر بھگوان اُن سے ناراض ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ گجرات سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا نام چنتا ہے تو این ڈی اے لرز اٹھے گی اور اس میں شامل کم ازکم ایک جماعت سپریم کورٹ کے پاس چلی جائے گی کہ ”نہ تو وہ بچہ اور نہ ہی اس کے ہاتھ کو ہدایت کرنے والا“ ووٹر لسٹ میں شامل تھا، چنانچہ اس چناﺅ کو کالعدم قرار دیا جائے....تاہم کانگرس کو یہ ”طرز انتخاب “ بھائے گا ۔ وہ اس کی لائیو ٹیلی کاسٹ کے جملہ حقوق میڈیا میں فروخت بھی کر سکتی ہے ۔ اس سے تنقید کا کھٹکا بھی جاتا رہے گا ،کیونکہ اگر حتمی چناﺅ کے عمل میں اللہ کی منشا پوری ہونی ہے تو پھر ریاستی معاملات کی ذمہ داری بچارے عام انسانوں پر کیوں ڈالی جائے؟ہاں ایک اور بات یاد آئی ، کہ کانگرس کے معاملے میں بچے کو بھی سہولت ہو گی، کیونکہ قرعہ اندازی والے برتن میں صرف ایک نام کی پرچی ہی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ کانگرس کے اراکین کے دل میں بی جے پی کے کارکنان کی طرح ولولے جوش مارہے ہوں، لیکن کانگرس کے رہنما بہرحال اتنے نا سمجھ نہیں ہیںکہ وہ اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیں۔ بہرحال ایک معاملہ سنگین حالات پیدا کر سکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جب بچہ برتن میں ہاتھ ڈالے تو یہ خالی ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل مسٹر راہول گاندھی سیرو تفریح میں اتنے مصروف ہیں کہ وزیر اعظم بننے کے لئے درکار ”محنت “، یعنی اپنا نام لکھنے، کی بھی فرصت نہیںہے، تاہم اُن کے جانثاران کا کہنا ہے کہ ان کی مصروفیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ انتخابات کے لئے درکار توانائی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اور جب قرعہ اندازی کا مرحلہ آئے گا تو اس میں ایک ہی پرچی ہو گیمسٹر گاندھی کے نام کی۔ ان کی اس بات میں خاصا وزن ہے۔
بی سی سی آئی کا بحران بی جے پی سے بھی زیادہ سنگین ہے، کیونکہ کرکٹ بورڈ کو صرف کپتان ہی نہیں، پوری ٹیم ہی نئی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ایم ایس دھونی انگلینڈ اور آسٹریلیا سے شکست کے بعد بھی دامن بچا لیتے ،لیکن پاکستان کے ہاتھوں شکست کچھ اور معنی رکھتی ہے۔ دھونی کو پاکستان سیریز سے پہلے ٹی وی پر چلنے والے احمقانہ سے اشتہارت دیکھتے ہوئے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ کسی سے بھی کھیل میںہار جیت ہوتی رہتی ہے، سوائے پاکستان کے۔ انڈین کرکٹ میں کچھ گرم جوشی کم ہوتی جارہی ہے، لیکن موجودہ شکست نے تو سب کو ٹھٹھرا کر رکھ دیا ہے۔ اگر ٹیم کے کپتان کے چناﺅ میں ”مصری ماڈل “ کو مدنظر نہ رکھا جائے تو پھر شاید ویرات کوہلی ہی ٹیم میں رہ سکتے ہیں، چنانچہ بہتر ہے کہ ان کو کپتانی دے دی جائے۔ اس کے بعد ایک اور مشکل مسئلہ درپیش ہو گا کہ کارکردگی کی بنیاد پر مزید گیارہ لڑکے کہاںسے لئے جائیں؟ اس لئے مصری ماڈل ہی بہتر ین حکمت ِ عملی ہوگی پہلے فاسٹ اور سیم گیند بازوں ،پھر سپن گیندبازوں اور پھر بلے بازوں کی پرچیاں ڈالی جائیں۔ موجودہ سلیکشن کمیٹی اپنے علاقائی کوٹے میں سے پانچ پانچ کھلاڑیوںکی پرچیاں ڈال سکتی ہے۔ اس محنت کے بعد باقی ذمہ داری اُس آنکھوں پر پٹی بندھے بچے پر ہو گی یا خدا پر۔ بی سی سی آئی کے پاس چونکہ فنڈز کی کمی نہیں، اس لئے بچے کو اس چناﺅ پر خاطر خواہ ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ اگراس طریقے سے غیر متنازعہ ٹیم کا چناﺅ ممکن ہو سکتا ہے تو اخراجات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ یقین ہے کہ وہ بچہ ایک بہتر ٹیم کا انتخاب کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، کیونکہ موجودہ ٹیم سے بدتر کا چناﺅ ممکن ہی نہیں ہے۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے