سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے!
آج جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، اس میں شرافت اور نجابت کا معیار دولت اور تو نگری متصورہوتا ہے، جس کے پاس روپے ،پیسے کی ریل پیل ہوتی ہے، ہر طرف سے دادو تحسین کے ڈونگر ے برستے نظر آتے ہیں، جبکہ غریب اور مُفلس کو کوئی بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتا اور اس کے معصوم بچے زمانے کے پاو¿ں کی دُھول بن جاتے ہیں اور ”جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم “کے مصداق کہیں گالیوں اور جسمانی تشدد کی صورت میں ان کی عزت نفس مجروح ہورہی ہے تو کہیں ان کا جنسی استحصال کر کے انہیں اپنی ہی نظروں میں گرایا جارہا ہے اور مثل آبگینہ اُن کے دل ٹوٹتے نظر آتے ہیں اور بچپن کی معصوم شرارتیں احساس کمتری کے بوجھ تلے دب کر فنا ہو جاتی ہیں۔ بقول شاعر:
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
بہرحال آج ہماری غربت کا ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنے بچوں کو علم کی روشنی سے منور کریں ،تاکہ تنگدستی کی تاریکی دور ہو ،مگر افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہماری آبادی کی اکثریت ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے اور اس کے نزدیک نئی نسل کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنا گویا ”شجرِ ممنوعہ“ کا رنگ اختیار کر چکا ہے ۔راقم الحروف کے ماموں محترم رفیق احمدلسکانی صاحب ضلع ڈیرہ غازیخان میں محکمہ تعلیم میں ملازم رہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بارمَیں فورٹ منرو کے پہا©ڑی علاقے میں.... (یہ مری کی طرح ٹھنڈا اور ایک صحت افزاءپہاڑی مقام ہے ،مگر حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے بنیادی سہولتیں سے محروم جگہ ہے )....محکمہ تعلیم کے کچھ افسران کے ساتھ اُس علاقے کے لوگوں میں علم کاشعور بیدار کرنے کے لئے گیا تو وہاں ایک بلوچ کو ہم نے سمجھایا کہ تمہارے چار لڑکے ہیں، ان میں سے کم از کم ایک کو تو سکول میں داخل کراو¿۔وہ خاموشی سے ہماری باتیں سنتار ہا۔ آخر بولا کہ میرے چار لڑکے ہیں اور میری چارہزار بھیڑیں ہیں۔ ایک لڑکے کے ذمہ ایک ہزار بھیڑیں ہے ،جو وہ چراتا ہے۔ آپ اپنا کوئی آدمی دے دو، جو میری ایک ہزاربھیڑیں چرائے ۔اس کے بدلے میں آپ میرا کوئی بھی لڑکا سکول داخل کراد و،مجھے کو ئی اعتراض نہیں ہو گا۔
جنابِ من !جب ہمارے ہاں لوگوںکی ایسی ذہنیت ہوگی تو کس طرح دنیا کے جدید تقاضوں سے ہم من حیث القوم عہدہ بر آہو سکتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسے لوگوں میں تعلیم کی اہمیت اُجاگر کرنا حکومت کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ۔اس ضمن میں بچوں کے حوالے سے ایک اور اہم بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر بچے کا ذہن اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب نہیں ہوتا اور وہ ابتدائی تعلیم کے بعدفارغ پھرتے نظر آتے ہیں، جس سے بہت سی سماجی بُرائیاں جنم لیتی ہیں ۔اس کا حل ترقی یافتہ ممالک نے یہ رکھا ہوا ہے کہ کثرت سے پولی ٹیکنک ادارے قائم کررکھے ہیں ،جہاں ایسے بچے مختلف ہنر سیکھتے ہیں ،مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسے اداروں کی بہت کمی ہے ،جہاں ایسے بچوں کو مختلف ہُنر سکھائے جائیں، اگر کچھ ہیں بھی تو وہاں کے اخراجات کے متحمل غریب بچے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اس ضمن میں حکومت کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ،کیونکہ اس وقت تیس ملین بچے ایسے ہیں، جو سکول چھوڑ چکے ہیں، جن میں اکثریت نادار بچوں کی ہے ، وہ معاشرے پر بوجھ نہیں بنیں گے۔
اس کے علاوہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے ،جو بھیک مانگتے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور پروفیشنل بھکاریوں کے علاوہ بھی ایسے مستحق اور غریب افراد جو اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھانے سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے قاصر ہیں، ان کے لختِ جگر بھی اب سڑکوں پر آرہے ہیں ،جہاں تک پروفیشنل بھکاریوں کا تعلق ہے تو اگر میاں بیوں بھکاری ہیں تو ان کے ساتھ چار پانچ بچے بھی ہاتھ پھیلائے اور ان کے شانہ بشانہ صدا لگاتے نظر آتے ہیں ۔بقول ہمارے دوست محترم نعیم احمد باجوہ کے ایک بہت بڑی تعداد بچوں کی ایسی ہے، جو سارا دن بھیک مانگ کر رات کو نامعلوم جگہ پر غائب ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر بڑے شہروں کراچی ،لاہوروغیرہ میں ایسا خطرناک مافیا موجود ہے، جو بچوں سے بھیک منگواتا ہے۔یہ حکومت کا فرض ہے کہ ایسے عناصر کا پتہ لگایا جائے، جو ایسے گھناو¿نے جرم میں ملوث ہیں اور انہیں نشان عبرت بنا دیا جائے ،تاکہ نئی نسل کو ایسے بھیڑ یوں سے نجات مل سکے۔
بچوں کے حقوق کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم بات گوش گزار کرنی مقصود ہے کہ پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جن کا جنسی طور پر استحصال کیا جاتا ہے، مثلاًغریب والدین اپنے بچوں کو چھوٹی موٹی فیکٹریوں ،ہوٹلوں ،قہوہ خانوں وغیرہ میں دو تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض بھیج دیتے ہیں، جہاں یہ پھول جیسے انڈرلنگز(Underlings)ٹائپ کے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔پھر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اخبارات میں ہمیں یہ خبریں بھی ملتی ہیں کہ بعض دینی مدارس میں بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے ،حالانکہ یہ وہ جگہیں ہیں ،جہاں اَس نوع کے معائب اور نقائص کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ،بہرحال یہ انتہائی قابل افسوس امر ہے اور درندگی کی انتہائی حد ہے،جس کی طرف ہمارے”نازک مزاج شاہوں “کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔