دستِ ہمت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
باقی باتیں تو رہیں ایک طرف، مجھے تو یہ سوال پریشا کر رہا ہے کہ ات ا بڑا شخص، بڑے بڑے م اصب پر فائز رہ ے والا اور مستقبل کے حوالے سے خود کو قوم کا جات دہ دہ قرار دی ے کے خبط میں مبتلا سابق چیف آف آرمی سٹاف اور ملک کے سابق آمر مطلق کی پہچا رکھ ے والا کوئی کما ڈو ایسا فیصلہ کیوں کرتا ہے، جو اسے ہیرو سے یکدم زیرو کی سطح پر لے آئے۔ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ یقی ا ایک س گی معاملہ ہے، لیک ا ہوں ے اس کا سام ا کر ے کی بجائے جس طرح دوسرا راستہ اختیار کیا ہے، اُس ے اُ کے ماضی و مستقبل کی ساری ز دگی کو متاثر کیا ہے۔ ابھی تک اُ کا تشخص ایک بہادر شخص جیسا تھا۔ وہ خود کہتے تھے کہ مَیں کسی سے ہیں ڈرتا اور کما ڈو ہوں، ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر ے کی جرا¿ت رکھتا ہوں، مگر جب وقت آیا تو ا ہوں ے اس کے برعکس بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ ما بھی لیا جائے کہ خصوصی عدالت میں پیشی کے لئے جاتے ہوئے ا ہیں دل کی تکلیف کے باعث امراضِ قلب کے ہسپتال جا ا پڑا، تب بھی یہ امر حیرا ک ہے کہ ا ہوں ے ہسپتال سے اپ ے حامیوں کے لئے ایسا کوئی پیغام جاری ہیں کیا، جس میں ا ہوں ے اس عزم کا اظہار کیا ہو کہ وہ کیس کا سام ا کر ے کے لئے تیار ہیں اور ثابت کریں گے کہ ا ہوں ے جو کچھ کیا، وہ قومی مفاد میں تھا۔
پرویز مشرف کی عمر70سال کے قریب ہے۔ اس عمر میں تو خوف ویسے بھی رخصت ہو جاتا ہے، کیو کہ آخرت کی فکر ہو چکی ہوتی ہے۔ پرویز مشرف ے عمر کے اس مرحلے میں جرا¿ت م دی کی راہ اختیار کر ے کی بجائے جا بچا ے کے لئے جو راستہ اختیار کیا، وہ ا ہیں تاریخ کا ایک معتوب کردار ب ا ے کے لئے کافی ہے۔ اس میں کوئی شک ہیں کہ پرویز مشرف کے چاہ ے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، اُ کے لئے ہسپتال کے باہر مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور پھول بھی رکھے جاتے ہیں، سیاسی حمایت بھی ا ہیں حاصل ہے اور مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی اُ کے خلاف یکطرفہ مقدمہ چلا ے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
یہ سب باتیں بہت مثبت ہیں۔ ا پر ا حصار کر ے کی بجائے پرویز مشرف ے اپ ے پرا ے ادارے کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس سے پ اہ ما گی ہے اور ا افواہوں کو پختہ کیا ہے کہ مسلح افواج اپ ے سابقہ سپہ سالار کو بچا ے کے لئے عملاً سام ے آ چکی ہیں، حالا کہ سیکرٹری دفاع ے واضح طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کا پرویز مشرف کے خلاف مقدمے سے کوئی تعلق ہیں، مگر اس کے باوجود یہ حقیقت بھی جھٹلائی ہیں جا سکتی کہ اس وقت پرویز مشرف عسکری ادارے میں سول ا تظامیہ کی دسترس سے باہر ہیں اور اُ سے کسی کا رابطہ ممک ہیں ہے۔ اُ کے وکلاءجو پہلے مقدمہ لڑ ے اور اُس میں دوسرے بہت سے لوگوں کو گھسیٹ ے کی بات کر رہے تھے، اب یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پرویز مشرف کو بیرو ملک علاج کی اجازت مل ی چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں وہ مقدمے کا سام ا کر ے سے معذوری کا اظہار کر رہے ہیں۔ شاید وہ بھی مجبور ہیں، کیو کہ اُ کے موکل ے ا ہیں یہی کہا ہو گا کہ مَیں اس جھ جھٹ میں ہیں پڑ ا چاہتا، مجھے بیرو ملک جا ے کی اجازت دلوا ے پر کام کیا جائے۔
میرے زدیک پرویز مشرف کو جس قسم کی سیاسی حمایت مل رہی ہے اور جس طرح یہ مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ اُ کے خلاف ت ہا کارروائی کی بجائے ایسے تمام افراد کو اس مقدمے میں شامل کیا جائے، جو اس وقت پرویز مشرف کی حکومت میں شامل تھے یز یہ کہ مقدمہ3 ومبر کی بجائے12اکتوبر سے شروع کیا جائے، تو اسے غ یمت سمجھ ا چاہئے۔ یہ ایسی ”روداد“ ہے کہ جسے کمک ب ا کر پرویز مشرف اپ ے مخالفی پر ”حملہ آور“ ہو سکتے ہیں۔ ا ہیں صرف یہی تو ثابت کر ا ہے کہ ایمرج سی لگا ے کے عمل میں وہ اکیلے ہیں تھے، جبکہ خود چودھری شجاعت حسی یہ اقبالی بیا دے رہے ہیں کہ پرویز مشرف ے ایمرج سی لگا ے سے پہلے سب سے مشورہ کیا تھا اور حمایت حاصل ہو ے کے بعد یہ حکم جاری کیا تھا۔ اگر تو پرویز مشرف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپ ے عمل کا دفاع کر ے سے قاصر ہیں تو اور بات ہے، اس کا مطلب ہے وہ تاریخ کے صفحات پر اپ ا ام ایک اکام اور شکست خوردہ شخص کی حیثیت سے لکھوا ا چاہتے ہیں۔
اگر ایسا ہیں ہے اور وہ خود کو حق بجا ب سمجھتے ہیں، تو پھر ا ہیں فرار کا راستہ اختیار ہیں کر ا چاہئے۔ اس وقت اگر پرویز مشرف، اُ کے وکلاءاور فوج میں موجود اُ کے خیر خواہوں کا م صوبہ یہ ہے کہ کسی طرح جا بچائی جائے، چاہے اس کے لئے کت ی ہی بڑی سیاسی و اخلاقی قیمت دی ی پڑے میرے زدیک وہ ایک بہت گھاٹے کا سودا کر ے جا رہے ہیں۔ ایک بات جسے پرویز مشرف اور اُ کے حامیوں کے لئے پیش ِ ظر رکھ ا ضروری ہے، وہ یہ کتہ ہے کہ پرویز مشرف اگر بیماری کی آڑ میں بیرو ملک چلے بھی گئے اور غداری کا یہ مقدمہ رک بھی گیا، تب بھی وہ فاتح ہیں، شکست خوردہ ہی رہیں گے، بلکہ یہ صورتِ حال اُ کے لئے زیادہ قصا دہ ہو گی۔ ایک تو وہ کبھی دوبارہ ملک واپس ہیں آ سکیں گے، دوسرا اُ کی اخلاقی سطح پر سیاسی موت واقع ہو جائے گی اور تیسرا یہ کہ اُ کی شخصیت پر ایک ایسے ڈرپوک اور بزدل کی چھاپ لگ جائے گی، جو مشکلات و مصائب کا سام ا کر ے کی جرا¿ت ہی ہیں رکھتا۔
اب بھی لوگ اُ کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ایسا شخص جو ا در سے کمزور ہے، اگر امریکی ائب وزیر کی ایک ٹیلی فو کال پر ڈھیر ہو گیا، تو اس میں اچ بھے کی کوئی بات ہیں، اُس ے اگر اپ ی جا اور اقتدار بچا ے کے لئے ملک کو امریکہ کی دھکائی ہوئی آگ میں جھو ک دیا، تو ایسا ہو ا ہی تھا کہ اس میں حرفِ ا کار کی جرا¿ت ہی ہیں تھی۔ اس وقت حرفِ ا کار کی جرا¿ت ہوتی تو آج بھی وہ یہ راستہ اختیار کر ے سے ا کار کر دیتے، جو اُ کے لئے ذلت و ہزیمت کا باعث ب رہا ہے۔ جب تک پرویز مشرف یہ کہتے رہے: ”مَیں ملک چھوڑ کر ہیں جاﺅں گا، ہر قسم کے حالات کا سام ا کروں گا، اپ ی مرضی سے آیا ہوں، مجھے پتہ تھا میرے ساتھ یہ سب کچھ ہو گا“۔ اُ کا سیاسی قد بڑھ رہا تھا۔ لوگ ا ہیں قدر اور ستائش کی ظر سے دیکھ ے لگے تھے، مگر جو ہی ا ہوں ے مقدے کی پہلی پیشی سے بچ ے کے لئے اپ ے موقف کے برعکس یو ٹر لیا، اُ کی شخصیت دھڑام سے زمی پر آ گری ہے۔
پرویز مشرف پرمقدمہ چلتا ہے یا ہیں، سزا ہوتی ہے یا بری ہو جاتے ہیں؟ یہ باتیں اب زیادہ اہم ہیں رہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آہ ی بت پاش پاش ہو رہے ہیں۔ قا و ، جمہوریت اور آئی کی بالادستی اپ ا لوہا م وا رہی ہے۔ ایک سابق آمر کی بہادری اور دلیری کا پول کھل رہا ہے، وردی میں خود کو مطلق الع ا سمجھ ے والا آج ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے، جسے کم سے کم ا لفاظ میں قابل ِ رحم کہا جا سکتا ہے۔ صورت حال کو اس ظر سے دیکھ ے کی بجائے کہ پرویز مشرف کو طاقتور حلقوں کی طرف سے بچایا جا رہا ہے، اس ظر سے دیکھ ا چاہئے کہ وہ بچ ے کے لئے کس بُری طرح سے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔ ایک آمر کے لئے یہ ملک کس قدر سکڑ گیا ہے یا وہ امراض قلب کے ہسپتال میں رہ سکتا ہے یا پھر اُسے بیرو ملک پ اہ مل سکتی ہے۔ کیا آ کھ والوں کے لئے اس سارے م ظر امے میں بہت سی شا یاں موجود ہیں ہیں؟ آخر میں موجودہ صورت حال کے حوالے سے ایک شعر:
دست ہمت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
پست ہمت یہ ہ ہووے، پست قامت ہو تو ہو