2013 ءمیں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ میں نما یاں کمی دیکھنے میں آئی
کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای) میڈیا مانیٹرنگ سیل کی جانب سے مرتب کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 2013ءکے دوران صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ، اس سال گیارہ صحافی ملک میں جاری دہشت گردی کا شکار ہوئے جن میں چھ صحافیوں کو نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے قتل کیا، جبکہ پانچ صحافی بم دھماکوں کو کوریج کرتے ہوئے جاں بحق ہوئے ، جبکہ2012 ءمیں 16 ءصحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اگر ہم 2000 ءسے اب تک پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی بنا پر قتل کئے جانے والے صحافیوں کی تعداد پر نظر ڈالیں تو یہ 98 تک جا پہنچتی ہے ۔ گزشتہ سال جن 6 صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی تھی ،ان میں روزنامہ جنگ و جیو ٹی وی کے نمائندے ملک محمد ممتاز کو 27فروری کو شمالی وزیرستان میں نا معلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔روزنامہ انتخاب کے رپورٹرمحمود خان آفریدی کو بلوچستان کے ضلع قلات میں یکم مارچ کو دفتر سے گھر جاتے ہوئے قتل کیا گیا تھا۔
بلوچی جریدہ طوار کے کراچی کے نمائندے عبدالرزاق سربازی کو پہلے لیاری کے علاقے سے مارچ کے مہینہ میںاغواءکیا گیا اور پھر 44 روز بعد کراچی ہی میں سرجانی ٹاون میں ان کی تشدد زدہ لاش پھینک دی گئی تھی، روزنامہ ایکسپریس ٹر یبیون کے رپورٹر احمد علی جویا کوبہاولنگر میں 24 مئی کو نامعلوم افراد گولیاں مارکر ہلاک کرکے فرار ہوگئے تھے۔روزنامہ کرک ٹائمز کے رپورٹر ایوب خٹک کو خیبر پختو نخوا کے شہر کرک میں دہشت گردوںنے ان کے گھر کے باہر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا ،کراچی کے ایک مقامی اخبار کے رپورٹر شیخ علی محسن کو نیو کراچی کمے علاقے میں ان کے گھر کے قریب دہشت گرد عناصر گولیاں مار کر قتل کرکے فرار ہوگئے تھے۔ بم دھماکوں کے نتیجے میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے جو پانچ افراد جاں بحق ہوئے،ان میں 12 جنوری کو پشاور میں علمدار روڈ پر ہونے والے دو بم دھماکوں کی کوریج کرنے کے دوران سماءٹی وی چینل کے رپورٹر سیف الرحمان،کیمرہ مین عمران شیخ،این این آئی نیوز ایجنسی کے فوٹو گرافرمحمد اقبال اور آ ئی این پی نیوز ایجنسی کے فوٹو گرافر محمد حسن دیگر لوگوں کے ہمراہ شہید ہوگئے تھے۔ روزنامہ پاکستان کے نمائندے طارق اسلم 17 اپریل کو ایک سیاسی جماعت کی کارنر میٹنگ کی کوریج کے موقع پر ہونے والے بم دھماکے کی بنا پر جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ صحافیوں کے قتل کے واقعات میں ملوث اب تک نہ توکسی مجرم کو گرفتار کیا جاسکا ہے اور نہ ہی عدالتوں سے کسی قاتل کو سز ا دلائی جاسکی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے شکار کسی بھی صحافی کے لواحقین کی حکومت کی جانب سے بار ہا یقین دہانی کے باوجود کوئی مالی امداد بھی فراہم نہیںکی گئی ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے گزشتہ ماہ صحافیوں کی جانب سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاوس کے باہر دھرنے کے موقع پر ایک بار پھر یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ صحافیوں کے مسائل جلد حل کئے جائیں گے اور شہید صحافیوں کے خاندانوں کی مالی معاونت شروع کی جائے گی ،لیکن اس ضمن میںابھی تک کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ۔سی پی این ای میڈیا سیل کی رپورٹ کے مطا بق میڈیا کے لوگوں کو اس سال ہراساں کرنے اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے جو دیگرواقعات پیش آئے، ان میں کراچی میں روزنامہ ایکسپریس گروپ کے دفتر پر ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے دوبار حملے کئے گئے ،جن کے نتیجے میں عملے کے چار افراد زخمی ہوئے اور قیمتی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
لاڑ کانہ میںمقامی اخبار کے نامہ نگار حافظ محمد حسینی کی جانب سے ایک جاگیر دار کے جرائم کو بے نقاب کرنے پر اس کے خاندان کے چار افراد کو قتل کردیا گیا۔حیدرآباد کے صحافی احمد شیخ کے بیٹے اور بہو کو نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔حیدر آباد ہی کے علاقے میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کرنے والی اے آر وائی ٹی وی کی ٹٰیم پر منشیات فروشوں نے حملہ کرکے زخمی کردیا۔بلوچی جریدہ طوار کے کراچی آفس پر نامعلوم مسلح حملہ آور کمپیوٹر اور دیگر قیمتی سامان لوٹ کر لے گئے۔ایک سیاسی تنظیم کی دھمکی پر بلوچستان کے مختلف شہروں میں اردو اور بلوچی ٹی وی چینلوں کی نشریات 44 یوم بند رکھی گئیں۔ایک انگریزی اخبار کے نامہ نگار عباس جلبانی کے بیٹے کو ٹھٹھہ کے علاقے میں قتل کر دیا گیا۔سرکاری خبر رساں ایجنسی کے سینئر رپورٹر خوشنود علی شیخ ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے، ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس حادثة کے پیچھے بھة خور عناصر کا ہاتھ تھا۔
گزشتہ سال کے پہلے مہینے میں پنجاب کے شہر بہاولپور میں تین مقامی اور قومی اخبارات کے دفاتر پر مسلح غنڈوں نے حملہ کرکے عملے کو زدو کوب کیا اور توڑ پھوڑ کی۔بلوچستان کے صحافی شاہد زہری پر حب شہر میں قاتلانہ حملہ کرکے انہیں زخمی کردیا گیا تھا،سندھ کے شہر دھابیجی میں سینئر صحافی سیف الملوک کو خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے غائب کردیا تھا اور صحافیوں کے شدید احتجاج کرنے پر ایک ہفتے بعد حیدرآباد کے ایک پولیس سٹیشن میں ان کی کسی مقدمہ میں گرفتاری ظاہر کی گئی تھی۔ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دباو ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری کئے جانے والے فتوے میں کہا گیا کہ وہ جہاد کررہے ہیں اور اس صورت حال میں میڈیا کے جو عناصر، ان کے خلاف پرا پیگنڈہ کررہے ہیں، وہ واجب القتل ہیں۔ اس طرح کی دھمکی حال ہی میں منتخب ہونے والے کالعدم تحریک طالبان کے امیر مولوی فضل اللہ کی جانب سے بھی جاری کی گئی ہے ۔
سب سے زیاد خراب صورت حال بلوچستا ن کی ہے، جہاں ایک طرف تو ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر پابندی لگادی گئی ہے تو دوسری جانب کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ ان کی خبریں شائع نہ کرنے والے صحافیوں کو قتل کردیا جائے گا۔اس ساری صورت حال میں صحافی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ اپنی جان دینے کے بجائے تو ہین عدالت کے جرم میں جیل جاکر سزا کاٹ لینا بہتر ہے، مگر بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک معزز جج نے یہ ریمارکس دئے ہیں کہ دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے والے صحافت کے پیشے کو خیر باد کہہ دیں، یہی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ صحافیوں اور میڈیا ہاﺅسز پر دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافے کے پیش نظر کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اور کولیشن آن میڈیا سیفٹی کے نمائندوں کے دسمبر کے مہینے میں ہونے والے ایک مشترکہ اجلاس میں اس بات پراتفاق کیا گیا کہ صحافیوں اور میڈیا ہاﺅسز کی سیکیو رٹی اور تحفظ کے لئے ریاستی اداروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے تمام میڈیا ہاوسز اپنا سیکورٹی پروٹوکول خود مرتب کریں اور شورش زدہ علاقوں میںکوریج کے لئے جانے والے صحافیوں کو ضروری تربیت دینے کے علاوہ خبریں شائع کرتے وقت ان کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔٭