1980ء حج میں صرف سات دن باقی ہیں، ابو ظہبی سے میرے ایک بڑے محترم دوست جو وہاں بہت بڑے سرکاری عہدہ پر فائز تھے اُن کا خط ملا کہ ابو ظہبی آ جاؤ، تو بائی روڈ حج کو چلتے ہیں۔ مَیں اگلے روز ہی ابو ظہبی پہنچ گیا۔ اب حج میں چھ دن باقی ہیں جا کر روانگی کا پروگرام معلوم کیا پتہ چلا کہ دو تین روز لگ سکتے ہیں۔ طبیعت میں بڑی گرانی پیدا ہو گئی، چونکہ گھر سے حج کے لئے نکل چکا ہوں تو دل چاہ رہا ہے کہ پَر لگ جائیں اور اڑ کر مکہ معظمہ پہنچ جاؤں۔ جب چار دن باقی رہ گئے تو مَیں نے حج کا احرام باندھا اور تلبیہ پڑھتا ہوا ایئر پورٹ جا پہنچا۔جدہ کی فلائٹ لی وہاں پہنچ کر ٹیکسی لی اور الحمد للہ مکہ معظمہ پہنچ گیا۔
اس وقت حرم شریف کے چاروں طرف تنگ بازار اور تنگ گلیاں ہیں۔ ظہر کی نماز ختم ہوئی تھی، رش بہت زیادہ تھا۔ نماز بھی ادا کرنی ہے، رہائش بھی تلاش کرنی ہے اور عمرہ بھی کرنا ہے۔ سوچا مدرسہ صولتیہ میں سوٹ کیس رکھ کر یہ سارے کام پورے کرتا ہوں۔ مدرسہ میں داخل ہو کر ایک کونے میں سوٹ کیس رکھا۔ دفتر میں جناب مولانا شمیم صاحب مہتمم نظر آئے، ان کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ پوچھا کب آئے ہو؟ کہا ابھی۔ فرمایا حج فلائٹس تو اب بند ہیں پھر کیسے آئے ہو۔ مَیں نے کہا لمبی کہانی ہے۔ بس بلاوہ لے آیا۔ حضرت سوٹ کیس رکھ کر جا رہا ہوں۔ نماز اور رہائش کے بندوبست کے بغیر عمرہ کر لوں، پھر آرام سے آپ کے پاس بیٹھوں گا۔ فرمایا رہائش کی فکر چھوڑ دیں۔باہر سے ایک گدا اور تکیہ لا کر خادم کو دے دیں وہ خود کہیں لگا دے گا۔ آپ اپنے کام پورے کریں، مَیں نے حکم کی تعمیل کی۔ گدا خادم کو دے کر پہلے کھانا کھایا، پھر نماز ادا کی اور اللہ کی کرم نوازی سے عمرہ میں مصروف ہو گیا۔نمازِ عصر سے پہلے الحمد للہ طواف سے فارغ ہو گیا۔ مقام ابراہیم پر دو نفل ادا کئے اور نماز عصر سے فارغ ہو کر سعی کی نیت کر کے صفا پر پہنچا۔ حرم شریف میں اور صفا و مروہ پر رش ناقابل بیان تھا۔ مغرب تک مَیں نے سعی کے سات چکر پورے کر لئے۔ بال کٹوا کر الحمد للہ عمرہ سے فارغ ہو گیا۔ عشاء تک حرم شریف میں رہا۔نمازِ عشاء سے فارغ ہو کر مَیں پہلے اپنے معلم کے مکتب پر گیا۔ انہوں نے پوچھا اور کون آیا ہے۔ مَیں نے کہا مَیں اکیلا ہوں۔ میرا اندراج اس طرح کریں کہ دس افراد کا پورا خیمہ منیٰ میں میرے پاس ہو، رہی آپ کی فیس کی بات تو وہ مَیں دے دوں گا۔ اس طرح پورا خیمہ میرے نام بُک ہو گیا۔ وہاں سے مَیں اپنی پسند کی اس جگہ پہنچا جہاں بہترین مطبخ (انڈے قیمہ کا پراٹھا) بنتا ہے۔ فریج میں سے دہی کا ڈبہ نکالا، گرم گرم مطبخ پلیٹ میں آیا، سیون اَپ کا ڈبہ کھولا اور الحمد للہ سیر ہو کر اللہ کریم کا کھربوں بار شکر ادا کرتا ہوا مدرسہ صولتیہ واپس آ گیا۔ خادم نے میرے بستر کی نشاندہی کی، تھکا ہوا تھا۔ جلدی بستر پر دراز ہو گیا۔ تہجد کے وقت پتہ چلا کہ ساتھ والے بستر پر جامعہ اشرفیہ کے جناب مولانا موسیٰ خاں صاحب آرام فرما تھے۔
تہجد کے وقت حرم شریف چلا گیا، فجر پڑھ کر واپس آیا تو مولانا شمیم صاحب نے عمرہ کی ادائیگی اور خیر خیریت دریافت فرمانے کے بعد فرمایا کہ پاکستان کے وزیر حج جناب زکریا کا مدار بھی اسی مدرسہ میں قیام فرما ہیں۔ مجھے بہت لوگوں کو دیکھنا ہے۔ آپ زکریا صاحب کا خیال رکھیں اور ناشتہ بھی ان ہی کے ساتھ کریں۔ ناشتہ تو کر لیا ہم دونوں آرام کے لئے اپنی اپنی جگہ چلے گئے۔ مَیں نمازِ ظہر کے لئے نکلا تو بعد نمازِ عشاء واپس آیا۔ زکریا کامدار اپنے معمولات میں کہیں مصروف رہے ہوں گے اگلے روز ہم پھر ناشتے پر ساتھ تھے۔
8ذوالحج کو بعد نمازِ فجر منیٰ کے لئے قافلے روانہ ہوتے ہیں، مگر بہت سے لوگ آسانی کی خاطر7ذوالحج کی نماز عشاء سے فارغ ہو کر منیٰ چلے جاتے ہیں۔ میرا بھی یہ پروگرام تھا۔نماز عشاء اور کھانے سے فارغ ہو کر مَیں مدرسہ صولتیہ آیا۔ تھوڑی دیر کمر سیدھی کی۔ حج کا احرام باندھا تھا اور تلبیہ پڑھنا شروع کیا۔ سفید داڑھی والے ایک صاحب احرام کی حالت میں میرے سامنے آ کھڑے ہوئے، سلام کیا، جب مَیں نے جواب دے دیا تو بولے عبدالخالق مجھے پہچانا نہیں؟ مَیں نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا: مَیں منیر الحق ہوں۔اب مَیں نے پہچانا کہ یہ میرا سنٹرل ماڈل سکول کا ہم جماعت ہے، گلے ملے۔ خیر خیریت دریافت کی۔انہوں نے کہا ہم دہران سے آئے ہیں۔ ہمیں کوئی معلم نہیں مل رہا مدرسہ والے کچھ مدد کر سکتے ہیں؟ مَیں نے افراد کی تعداد پوچھی تو وہ پانچ تھے۔ مَیں معلم کے پاس جانے کے لئے تیار تھا، انہیں بھی ساتھ لے گیا۔ ان کے پانچ نام اپنے خیمہ میں درج کرائے اور معلم کو فیس ادا کرا دی۔ یہ سب بڑے شکر گذار ہوئے۔ اب ہم چھ افراد نے ساتھ منیٰ جانا تھا۔ معلم گاڑی کے بندوبست میں لگا ہوا تھا۔ اتنے میں احرام میں ایک اور صاحب سامنے آئے۔ بھائی جان السلام علیکم! جی وعلیکم السلام! مجھے پہچانا! جی نہیں، مَیں لاہور میں ڈی یس پی امان اللہ کا بھائی محمود ہوں،ہم گلے ملے۔ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کی۔محمود کہنے لگے ہم ابوظہبی سے آئے ہیں ہمیں، کوئی معلم نہیں مل رہا۔ مَیں نے پوچھا:آپ کتنے افراد ہیں،کہنے لگے، چار۔ مَیں حیران تھا کہ میرا دس افراد کا خیمہ کس طرح پورا ہو رہا ہے۔ ان سے پاسپورٹ اور فیس لے کر معلم کو دی، معلم بھی دس پورے ہونے پر حیران تھا۔ اللہ کریم کار ساز ہیں، سب کا بندوبست ایسے ہی ہونا تھا۔ محمود کے ساتھ ان کی والدہ ایک دوست اور ان کی زوجہ تھی۔ گاڑی آ گئی۔ ہم اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہوئے اور تلبیہ پڑھتے ہوئے منیٰ پہنچ گئے۔
8اور9ذوالحج کی شب منیٰ میں گزاری۔ 9ذوالحج کو بعد نماز فجر قافلے یوم عرفہ گزارنے کے لئے عرفات روانہ ہونا شروع ہوئے۔ ہم دس افراد بھی طلوع آفتاب کے دو تین گھنٹے بعد الحمد للہ رکن اعظم کی ادائیگی کے لئے عرفات پہنچ گئے۔ یوم عرفہ کے لئے جس طرح اللہ کریم کا حکم ہے اس طرح گزارنے کی کوشش میں رکے رہے، دُعائیں،گریہ زاری، معافیات، رحمت کی طلب، الغرض 30لاکھ افراد قبولیت کی امید لئے بعد وقتِ مغرب مزدلفہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ہر طرف رقت آمیز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ توبہ استغفار، سسکیاں سارے ماحول کو آبدیدہ کئے ہوئے تھیں۔مزدلفہ پہنچ کر رمی کے لئے کنکریاں چننے کا کام شروع ہوا۔ نمازِ مغرب اور عشاء اکٹھی ادا کر کے رات کھلے آسمان کے نیچے گزاری۔رات کچھ سو کر، کچھ جاگ کر گزاری، ہر طرف ایک ہی صدا ہے ’’اللہ میاں معافی دیدیں‘‘ تہجد پڑھی، فجر پڑھی اور واپس منیٰ کے لئے روانہ ہو گئے۔ ابھی تک ہم دس افراد ہیں۔ منیٰ واپس پہنچ کر خواتین کو خیمہ میں چھوڑ کر ہم شیطان کو کنکریاں مارنے نکلے۔ یہاں ہم سب بچھڑ گئے، میں نے قربانی کی، حلق کرایا اور واپس اپنے خیمہ کی طرف چل پڑا۔ خیمہ میں پہنچا تو دونوں خواتین سو رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مَیں باہر نکل آیا۔ اتنے میں دیکھا کہ پیچھے سے آگ کا دریا بہتا ہوا آ رہا ہے۔ میں واپس خیمہ میں بھاگا اور دور سے چلایا امی اٹھو، آگ لگ گئی ہے۔ دونوں خواتین گھبرا کر اٹھیں، مَیں نے دونوں کے بازو پکڑے اور کبری خمسہ کی طرف بھاگنا شروع کیا۔آگ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چیخ و پکار ہے، افراتفری ہے۔ مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے سب محفوظ مقام کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ مَیں خواتین کو کبری خمسہ تک لے گیا۔ اب ہم آگ سے کافی دور تھے۔خواتین کو ایک جگہ بٹھا کر مَیں نے کہا:یہاں سے ہلنا نہیں، ورنہ دوبارہ ملنا مشکل ہو گا۔ آپ یہیں بیٹھیں اور مَیں دوسرے ساتھیوں کو تلاش کرتا ہوں۔ پھر اپنے خیمے کی طرف چلنا شروع کیا۔محمود اور ان کے دوست روتے ہو ئے مل گئے، انکل امی، انہیں تسلی دی خیریت سے آگے بیٹھی ہیں۔مردوں کو خواتین تک پہنچایا۔ سب ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے۔ انکل آپ کا کس طرح شکریہ ادا کریں۔ بھئی میرا نہیں اللہ کا شکر ادا کرو۔ عافیت میسر آ گئی۔ اس کا کرم ہے، الحمد اللہ ہم سب خیریت سے ہیں۔اس افراتفری میں ابوظہبی والے بھائی بھی مل گئے، اس وقت ایک افواہ پہ پھیلی ہوئی تھی کہ نو مسلم فلپینی مردوں کے کیمپ میں کچھ بچے ذبح کر کے کھائے گئے ہیں، جن لوگوں کے بچے نہیں مل رہے تھے وہ روتے پیٹتے دیکھے گئے۔ منیٰ میں حالات نارمل ہوئے تو جس کا جدھر مُنہ اٹھا چلا گیا۔ حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے۔ ایک لحاظ سے لوگ حج سے تقریباً فارغ ہو چکے تھے۔ تین دن کنکریاں مارنا اور طوافِ زیارات کا جس کو جس وقت موقع ملا ہو گا، اس نے کر لیا ہو گا۔ مَیں بہرحال پھر اکیلا تھا۔ بقیہ وقت دیگر نو افراد کی بجائے معلم کے ساتھ گزارا۔ طوافِ زیارت کے بعد واپس مدرسہ صولتیہ پہنچ گیا۔مدرسہ صولتیہ میں پاکستان کے نامور قاری۔۔۔ قاری احمد میاں سے ملاقات ہو گئی۔ لاہورمیں وہ دارالعلوم اسلامیہ کے استاد ہیں تو مَیں اس کی شوریٰ کا رکن ہوں۔ ہم دونوں ہی اکیلے تھے۔ اگلے روز ہم نے مدینہ منورہ ساتھ جانے کا پروگرام بنایا۔ بعد نماز عشاء ہم مدینہ منورہ پہنچے۔ قاری احمد میاں نے مدینہ منورہ کی پرانی آبادی کی تنگ گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک گھر پر دستک دی۔ قاری محمد ابراہیم باہر آئے۔یہ دونوں قراء حضرات دارالعلوم اسلامیہ میں پڑھاتے تھے تو مَیں 1960ء میں وہاں ناظرہ قرآن پڑھتا تھا۔ ہم تینوں کا تعلق ایک ہی مکتب سے تھا۔ مَیں1961ء سے اس کی شوریٰ میں رکن ہوں ۔
قاری احمد میاں مدینہ منورہ رُک گئے، کیونکہ وہ اُن دنوں مدینہ یونیورسٹی میں کوئی کورس کر رہے تھے۔ مَیں اکیلا تھا،عمرہ کا احرام باندھا،مکہ معظمہ آ کر عمرہ کیا۔ جناب مولانا شمیم اور اپنے معلم کو مل کر طواف و داع کی ادائیگی کے بعد جدہ اور پھر کراچی کی پرواز پر پاکستان پہنچ کر رب العزت کا شکریہ ادا کیا۔لاہور آیا تو ایک روز ڈی ایس پی امان اللہ کے والد صاحب نے بلا لیا، گھر پر سب کو حج کے واقعات سنائے اور مجھے بڑی دعائیں دیں۔ امان اللہ نے کہا حج پر جو خدمت مَیں ماں کی کرنا چاہتا تھا اس کی سعادت نہیں ملی۔ مَیں نے کہا یہ اللہ کریم کا نظام اور کرم ہے اس میں کیا راز تھا۔ مولا کے راز مولا ہی جانے۔ مرحومہ کے قل پر بھی ہم یہی باتیں کرتے رہے۔اللہ کریم ہم جیسوں کو جنت میں اکٹھا فرمائے۔(آمین)
اس حج کے چند مہینے بعد وزیر حج زکریا کامدار صاحب لاہور تشریف لائے۔وہ چمبہ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں سے مجھے فون کیا،مَیں جا کر ملا۔فرمانے لگے، جن لوگوں کو مکہ معظمہ حج کے انتظامات اور حاجیوں کی خدمت پر مامور کیا جاتا ہے، مَیں ان سے مطمئن نہیں ہوں۔ مَیں نے سوچا ہے کہ یہ ذمہ داری مَیں آپ کو دوں۔ آپ کے یہاں اور وہاں تعلقات بھی ہیں اور کام کرنے کا جذبہ اور لگن بھی ہے۔’’ حضرت مَیں خود کو اس کام کا اہل نہیں سمجھتا، لہٰذا مَیں معذرت چاہتا ہوں۔ آپ موجودہ سے بہتر کو تلاش کریں گے تو انشا اللہ بہتر مل ہی جائے گا۔1980ء کے حج کے حوالے سے یہ عجیب واقعات تھے جو مَیں نے قلم بند کئے۔اللہ کریم ہر ہر مقام کی ہر غلطی اور کوتاہی کو معاف فرمائے، (آمین) *