جشن شادی، میڈیا پربھی اعتراض، معصوم شہدا کو بھول گئے

جشن شادی، میڈیا پربھی اعتراض، معصوم شہدا کو بھول گئے
جشن شادی، میڈیا پربھی اعتراض، معصوم شہدا کو بھول گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ چودھری خادم حسین

جمعیت علماءاسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن تجربہ کار اور زیرک سیاستدان ہیں جو 1985ءسے اب تک مسلسل پارلیمنٹ کا حصہ رہے اور اب تو وہ حکومت کے حلیف اور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں وہ 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ کی منظوری کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں۔ کل جماعتی پارلیمانی کانفرنسوں میں انہوں نے اختلافی آواز بلند نہیں کی تھی لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ان کے تحفظات دور نہیں کئے۔ ان کے بقول دہشت گرد تو دہشت گرد ہوتا ہے اس کا کسی مسلک فرقے یا علاقے سے تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس بناءپر کوئی تفریق کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں دینی مدارس کو مشکوک قرار دینا زیادتی ہے۔ یہ مدارس خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کا کسی دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے زیادہ زور سے کہا کسی نے مساجد کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس کے ہاتھ سلامت نہیں رہیں گے۔ سراج الحق کے مطابق دہشت گردی کے خلاف ہم حکومت کی اعانت کے لئے تیار ہیں لیکن مدارس اور مساجد کی بے حرمتی برداشت نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے دینی جماعتوں کا ایک اجلاس بلایا اور اس کے بعد انہوں نے فقرہ کہا کہ وہ اس کے ماہر بھی ہیں، ”وہ کہتے ہیں کہ کل جماعتی کانفرنسوں نے ترامیمی بل منظور کرکے جمہوریت پر خودکش حملہ کیا ہے“ مولانا فضل الرحمن کی تائید پروفیسر ساجد میر نے بھی کی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے حمائت یافتہ سینیٹر ہیں اور وہ پریس کانفرنس میں موجود تھے۔
اس تمام صورت حال کا پس منظر لال مسجد اور متحدہ کے قائد الطاف حسین ہیں جنہوں نے لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے بیانات کی روشنی میں ان کی گرفتاری اور لال مسجد کو مسمار کرنے کا مطالبہ کیا، اسے مسجد ضرار سے تشبیہ دی، اب صورت حال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور متحدہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور یہ صف آرائی ترامیمی مسودات سے پہلے نہیں ہوئی۔ منظوری کے بعد ہو رہی ہے، وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور خود وزیراعظم محمد نوازشریف نے قانون کے استعمال کی بار بار وضاحت کی اور یقین دلایا ہے لیکن بھروسہ نہیں کیاجا رہا۔
یقینا یہ نازک مسئلہ تھا خصوصی طور پر قابل اعتراض لٹریچر اور مسلک کی بنیاد پر دہشت گردی کہ دہشت گردی کے مرتکب حضرات یا شدت پسندوں کا تعلق بہت بھاری اکثریت کے ساتھ ایک ہی مسلک سے ہے اور معترض حضرات کا بھی یہی نظریہ ہے، اس لئے جب مسلک کی بات آئے گی تو یقینا یہ اعتراض کریںگے۔ مولانا فضل الرحمن نے تو دھرنے کی بھی بات کی اور کہا ہے کہ جب دینی مدارس والا دھرنا ہوگا تو سب سابقہ دھرنوں کو بھول جائیں گے۔
دوسری طرف وکلاءکی طرف سے فوجی عدالتوں کی مزاحمت تعجب والی نہیں۔ یہ تو پہلے ہی سے کہا جا رہا تھا کہ قانون دان اتفاق نہیں کریں گے، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں جو دہشت گردوں کا حامی ہو، تاہم موجودہ تناﺅ جاری رہے تو اس کا بالواسطہ فائدہ انہی کو پہنچے گا۔ اس لئے اعتراض کرنے والے عناصر کا رویہ اور ان کی بات پر غور کرنا لازمی ہے، ابھی تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی پھر سے سڑکوں پر آنے کا اعلان کر چکے ہوئے ہیں، فی الحال تو ان کی شادی کے چرچے ہیں، لیکن یہ ایک دو روز کی بات ہے وہ پھر سے بیانات اور مطالبات شروع کردیںگے۔ان کی طرف سے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ڈی چوک میں جلسے کا پروگرام بنایا گیا تھا کہ دھرنا دینے والوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا اب یہ جلسہ 18جنوری کو ہونا ہے اور عمران خان کہہ چکے کہ اس روز تک جوڈیشل کمیشن نہ بنا تو پھر سے سڑکوں پر ہوں گے اور یہ اعلان 18جنوری کے جلسے میں کیا جائے گا یوں حالات ایک مرتبہ پھر کسی اور سمت جا رہے ہیں حالانکہ کل جماعتی کانفرنس نے مکمل قومی اتفاق رائے کا ثبوت دیا تھا کہ پوری قوم سیاسی اور عسکری قیادت سمیت ایک موقف پر متحد ہے لیکن کیا اب بھی یہی محسوس ہو رہا ہے، یقینا نہیں!
اس وقت عمران خان کی شادی کے چرچے ہیں، میڈیا نے بھی اسے بہت شہرت دی ہے۔ متعدد قارئین نے فون کرکے یہ سوال دریافت کیا، ”کیا سانحہ پشاور کو چالیس دن ہو گئے، کیا جو لوگ ان معصوم شہدا کو اپنے بچے کہتے تھے اب ان کو بھول گئے ہیں اور شادی کے جشن منا رہے ہیں، کیا ان معصوم شہدا کا خون اتنا ہی سستا تھا“، یہ واجب سوال ہے اور اس کا رخ زیادہ تر میڈیا کی طرف ہے جس نے اس نکاح کو عالمی ایشو بنا کر پیش کر دیا ہے، یہی میڈیا سانحہ پشاور کے حوالے سے رلا رہا تھا اور ابھی تو تعلیمی ادارے بھی نہیں کھلے کہ یہ جشن شروع ہو گیا، انسانیت کا رشتہ اتنا ہی ہوتاہے؟ یہ سوال تو بہرحال پوچھا جائے گا۔
جو حالات بن رہے ہیں اور جس انداز سے بعض پھانسیاں (صولت مرزا+ اکرم لاہوری) رک گئی ہیں ان کی وجہ سے بھی غلط فہمیاں اور سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومت اور حکمران تنے ہوئے رسے پر ہیں وہ کیوں اطمینان محسوس کرکے سب کچھ کھونا چاہتے ہیں، وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے سنجیدہ کھلاڑیوں کو تمام صورت حال پر پھر سے غور کرکے اس کے سدباب کی بھرپور کوشش کرنا ہوگی کہ غلطی کا کوئی امکان نہیں۔


مزید :

تجزیہ -