کیا پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں کا اتحاد صوبائی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری:
سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں نے جو سیاسی اتحاد تشکیل دیا ہے کیا وہ صوبے میں کوئی بڑا سیاسی کردار ادا کرسکے گا یا نہیں؟ یہ سوال جب سندھ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ نگار سے کیا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ یہ کوئی مؤثر اتحاد نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اس اتحاد نے ابھی پیپلز پارٹی کی حکومت الٹانے کا تو کوئی منصوبہ نہیں بنایا، نہ اس کا اعلان کیا ہے البتہ پچھلے دنوں جب اس اتحاد کی تشکیل کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو یار لوگوں نے بے پر کی اڑانا بھی شروع کردی تھیں اور کہا جانے لگا تھا کہ یہ اتحاد صوبے میں ’’اِن ہاؤس تبدیلی‘‘ لانے کیلئے بنایا جا رہا ہے حالانکہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پیپلز پارٹی کے ارکان باغی ہوکر کوئی فارورڈ بلاک وغیرہ نہ بنالیں۔ فی الحال تو اس کا امکان اس لیے بھی نہیں کہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ جو سیاسی اتحاد بنا ہے وہ کوئی ایسی سرگرمی کرے گا بھی یا نہیں، البتہ جو مقاصد اس اتحاد نے اپنے پیش نظر رکھے ہیں، وہ فی الحال دو ہیں ایک تو یہ کہ اندرون سندھ زمینوں پر جو قبضے کئے یا کرائے جا رہے ہیں اُن کا سلسلہ روکا جائے دوسرے سیاسی مخالفین کے خلاف جو مقدمات بنائے جا رہے ہیں اُن کے سامنے بند باندھا جائے۔ غالباً اسی مقصد کیلئے رینجرز کی اندرون سندھ تعیناتی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ لوگوں سے زمینیں زبردستی چھیننے، اونے پونے خریدنے اور تھوڑی قیمت ادا کرکے زیادہ زمین پر قبصے کے واقعات ہو رہے ہیں، جن کو روکنے کیلئے سیاسی اتحاد نے اپنی کوششیں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو سیاسی جدوجہد سے آگے بڑھ کر عملی کاوشیں بھی کی جائیں گی۔
ہماری سیاست میں سیاسی وفاداریاں بدلنا کوئی زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا، اس وقت کون سی جماعت ایسی ہے جس میں ’’سیاسی مسافروں‘‘ کی ایک بڑی تعداد موجود نہیں۔ ہر جماعت میں ایسے سیاسی کارکن موجود ہیں جنہوں نے بہت سی جماعتوں کا ساتھ دیا اور جب جی چاہا اسے چھوڑ دیا۔ ممتاز علی بھٹو سندھ میں گورنر اور وزیراعلیٰ رہے، ذوالفقار علی بھٹو کے ’’ٹیلنٹڈ کزن‘‘ کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں پھر انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنالی، بعدازاں وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔ اس وقت بھی اگرچہ انہوں نے استعفیٰ دے رکھا ہے لیکن باضابطہ طور پر ان کی علیحدگی شاید ابھی نہیں ہوئی۔ اس اتحاد میں ویسے تو صوبائی حکومت اور پیپلز پارٹی کے مخالفین شامل ہیں لیکن اتحاد کی تشکیل کیلئے جو اجلاس ہوا اس میں ایک نام پڑھ کر آپ ضرور حیران ہوں گے یہ حسین ہارون ہیں جو آصف علی زرداری کے قریبی دوست شمار ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنی حکومت میں انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب بنایا تھا، زرداری حکومت کے دوران وہ اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ اب بعض لوگ ان کی شمولیت پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں تو ایک دوسرے گروپ کا خیال ہے کہ انہیں زرداری صاحب کی رضامندی سے اتحاد میں ’’فٹ‘‘ کیا گیا ہے، وجہ جو بھی ہو وہ بہرحال تشکیل اتحاد کے سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بعد زرداری کے ایک اور قریبی دوست انہیں داغ مفارقت دے گئے ہیں یا پھر انہیں اتحاد میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ وہ بوقت ضرورت اتحاد کے اندر کوئی ایسی چال چل سکیں جو اتحاد کے مقاصد کی کایا ہی پلٹ دے۔ اب یہ بات تو وقت ہی ثابت کرے گا کہ وہ دوسرے ذوالفقار مرزا ثابت ہوتے ہیں یا نہیں؟ یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ زرداری اور مرزا کی دوستی میں پہلی دراڑ بھی ایک شوگر مل کے تنازعے کی وجہ سے پڑی تھی اور اتحاد کی تشکیل میں بھی زمینوں پر قبضے ایک اہم فیکٹر ہیں۔ اس اتحاد کی ہیئت ترکیبی میں ایک اور بڑی نمایاں بات یہ ہے کہ وفاق کی دو بڑی حریف جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف بھی اس میں شریک ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسماعیل راہو اور شاہ محمد شاہ نے کہا کہ وہ اتحاد کے مقاصد سے اتفاق کرتے ہیں اور اسی لئے اجلاس میں شریک بھی ہوئے تاہم مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے اس کی توثیق ہوگی تو معاملہ آگے بڑھے گا۔ تحریک انصاف بھی اتحاد کے مقاصد سے متفق ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو دو جماعتیں وفاق میں بڑی حریف ہیں وہ سندھ میں حلیف ہوں گی، اسے بھی نیرنگی سیاست دوراں سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نو تشکیل شدہ اتحاد کوئی بڑی سیاسی قوت نہیں بن سکتا اور نہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کیلئے کوئی مشکلات پیدا کرسکتا ہے وہ اس کیلئے اتحاد میں شامل جماعتوں کی بلدیاتی انتخابات میں ناقص کارکردگی کا ذکر کرتے ہیں۔ ان جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی، پھر اس میں وہ قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں جن کو نہ تو عام انتخابات میں اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات میں کوئی کامیابی ملی، البتہ یہ جماعتیں سڑکوں پر اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں اور عین ممکن ہے کہ اگر یہ سیاسی اتحاد سندھ میں زمینوں پر قبضے کے مسئلے پر سڑکوں پر نکلے تو یہ جماعتیں اس کی قوت کا باعث بنیں اور کامیاب ہڑتالوں میں معاونت کریں، البتہ پارلیمانی محاذ پر ان جماعتوں کی کوئی قوت نہیں اور اگر کسی وقت ’’اِن ہاؤس تبدیلی‘‘ کا کوئی منصوبہ اتحاد کے پیش نظر ہے تو یہ جماعتیں اس میں کوئی معاون ثابت نہیں ہوسکتیں۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر ’’اِن ہاؤس تبدیلی‘‘ کا کوئی منصوبہ کسی وقت بنا تو کیا پیپلز پارٹی کے کوئی ارکان ایسے ہیں جو حکومت سے ٹوٹ جائیں اور اتحاد کا ساتھ دیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے، خود جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2002ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کے کئی سینئر رہنما راؤ سکندر اقبال کی قیادت میں پارٹی چھوڑ کر جنرل مشرف کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہوگئے تھے اور یہ آخر تک مسلم لیگ (ق) کی حکومت کا حصہ رہے۔ ماضی کے تجربے کی روشنی میں آئندہ بھی ایسا امکان ہوسکتا ہے تاہم فوری طور پر شاید ایسی کوئی سکیم سامنے نہیں۔ اس اتحاد میں مسلم لیگ (ق) شامل نہیں ہے کیونکہ اس کے صوبائی صدر حلیم عادل شیخ چند روز قبل یا تو خود پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا انہیں نکالا جاچکا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بھی اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں جو گزشتہ دنوں مسلم لیگوں کے اتحاد میں خاصے سرگرم تھے۔