مستقبل کی جنگیں لڑنا
ہندوستان نے کھل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور سفارتی محاذ شروع کیا ہے۔ آرمی کیلئے نقل و حرکت کے مقامات میں اونچے پہاڑی، میدانی علاقے اور صحرا شامل ہیں۔ ہمیں اپنی فضائیہ کو مزید ایڈوانس ٹیکنالوجی، آلات سے مسلح کرنا ہوگا تاکہ ان کا استعمال کامیابی کی ضمانت فراہم کرسکے۔ دشمن اگر فوری جنگی محاذ کھولتا ہے تو اس کیلئے ہمیں اپنے اقتصادی اہداف کو بروقت بروئے کار لانا ہوگا۔ جہاں تک ہماری بحریہ کی جنگی کارروائیوں کا تعلق ہے تو اس کے بھی دو پہلو ہوں گے۔ یہ کہ دشمن کو ہم اپنے ساحلوں تک رسائی سے ہر قیمت پر روکیں۔ دوسرا سمندروں میں لاجسٹک ضرورتوں کو بلاتعطل جاری رکھ سکیں۔ اس مقصد کی خاطر ہمیں نہ صرف اپنی آبدوزوں کے بیڑے کو تیار رکھنا ہوگا بلکہ تیز رفتار میزائل کشتیاں بھی استعمال کرنی ہوں گی لہٰذا ہمیں اپنے حساس علاقوں اور اثاثوں کے دفاع کیلئے آخری آدمی آخری راؤنڈ تک بے جگری بہادری سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہر سیکٹر کیلئے جن فوجی دستوں کو متعین کیا جائے ان کا کمانڈ اور کنٹرول بہت مؤثر ہونا چاہئے۔ 1965ء اور 1971ء کی دونوں جنگوں نے ہمیں یہی سبق دیا ہے۔ لاہور، سیالکوٹ، بہاولپور، رحیم یار خاں کیلئے ایک ایک کور۔ سندھ میں پنوں عاقل، بدین، کراچی اور اس کے اردگرد کے علاقوں کیلئے ڈویژن فوج ہونا ضروری ہے۔ چونکہ سندھ میں بھی ہندوستان کے ساتھ بارڈر کافی طویل ہے، پشاور، کوئٹہ، گوجرانوالہ کیلئے بھی کور بریگیڈ ہونا چاہئے جن کی استعداد ایک ڈویژن ٹاسک فورس ہیڈ کوارٹر تک ہو۔ ہر کور کیلئے فضائی سپورٹ بھی موجود ہو۔ پنڈی میں شمالی کمان قائم کی جائے جبکہ مرکزی کمان گوجرانوالہ میں قائم ہو اور کوئٹہ میں جنوبی کمان ہونی چاہئے۔ ہر کمان کے پاس تمام اپریشنل ضروریات فوری ہونی چاہئیں۔ مرکزی اور جنوبی کمان کے پاس بریگیڈ سائز لانگ رینج گروپ ہونے چاہئیں جو دشمن پر پیش قدمی کرکے اسے اپنے دفاع پر مجبور کردیں۔ فوجی کمان کے پاس صحرا میں تیزی سے حرکت کرنے والے اونٹوں پر نیم فوجی دستے سوار ہوں جس طرح موجودہ حالات میں رینجرز اونٹوں کو استعمال کر رہے ہیں ان کو آرمی کیلئے مزید بہتر اور طاقتور گروپ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ خدانخواستہ یہ جنگ ممکنہ طور پر بہت سے محاذوں پر لڑی جائے گی چنانچہ اس کیلئے بھاری نفری کی ضرورت ہوگی۔ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پاک آرمی کو ڈبل محنت کرکے ملک کے اندر دشمن کو بھی ختم کرنا ہوگا۔
دنیا بھر میں اب رواج ہے کہ لاجسٹک سروسز میں کم سے کم افرادی قوت رکھی جائے جو میدان جنگ میں کام کرے۔ ہمیں ہیڈ کوارٹر پر افرادی قوت بہت کم رکھنی چاہئے۔ ہر ہیڈ کوارٹر میں سٹاف کم ہونا چاہئے، منسلک فوجی ٹروپس کی تعداد بھی کم سے کم رکھنی چاہئے۔ افرادی قوت کا بہترین استعمال کیا جائے، سپورٹ اور سپلائی کے کام پہلے سے لاجسٹک ایریا کے سپرد کئے جائیں۔ بٹالین بریگیڈ اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنیادی طور پر ٹیکنیکل ہیڈ کوارٹر کے ماتحت ہونے چاہئیں۔ ایئر فورس صرف فضائی جنگ میں لڑاکا پائلٹ کی سپورٹ کرے، پاکستان کو پہلے دن سے ہی ہندوستان کے ساتھ لڑائی جھگڑے کا ماحول ورثے میں ملا ہے جس میں نمبر 1 کشمیر کا ایشو ہے اور اس ایشو کی وجہ سے پاکستان ہندوستان کے ساتھ بروقت جنگ اور ہنگامی حالات کی پوزیشن میں رہتا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ ہندوستان نے اپنی سفارتکاری کے لحاظ سے پاکستان پر فوقیت حاصل کرلی ہے۔ جس دہشت گردی اور خودکش حملوں کا پاکستان خود شکار ہے اور مالی و جانی نقصان اٹھا رہا ہے، ہندوستان نے اپنے دوستوں کو پاکستان کو دہشت گردی کروانے کا ذمہ دار بنا دیا ہے اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کو پاکستان کے ذمہ لگا دیتا ہے۔ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں عوام پر بدترین ظلم کر رہا ہے اور ان تمام واقعات کو ہندوستان دہشت گردی سے جوڑ کر پاکستان کے ذمہ لگا رہا ہے۔ افغانستان کی حکومت اور مہاجرین کی خدمت پاکستان اپنے عوام کو بے شمار سہولیات سے محروم رکھ کر کر رہا ہے۔ اب افغانستان ان تمام اچھائیوں کا صلہ پاکستان دشمنی سے دے رہا ہے اور ہندوستان جس نے ایک بھی افغان مہاجر کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دی وہی افغانیوں کے خیر خواہ بن گیا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ان تمام حالات کے باوجود پاکستان میں رہنے والے چند سیاسی یا مذہبی لوگ ہندوستان اور افغانستان کی حمایت کرکے پاکستان کی پوزیشن کمزور کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر ہندوستان اور افغانستان پاکستان سے جنگ نہ کریں تو پھر پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ کس طرح پہنچائیں گے۔ ہندوستان کے ساتھ کشمیر اور پانی دونوں ایشو خطرناک حد تک پہنچ ہیں جبکہ افغانستان اندرونی خلفشار سے بچنے کیلئے ہندوستان کی حمایت حاصل کر رہا ہے۔ بے شک پاکستان اب 1971ء کے حالات سے بہت زیادہ مضبوط ہے مگر پاکستان کے دشمن عیار اور مکار ہیں۔ اگر پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہو یا پاکستان کی خارجہ پالیسی مضبوط ہو تو پھر پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان کا سفیر پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف پاکستان نے کارروائی نہیں کی حالانکہ افغانستان کی سرحد کی طرف سے روزانہ پاکستان کی چوکیوں پر حملے ہوتے ہیں اور دہشت گردی کرنے والے افغانستان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ الٹا افغانستان کا سفیر پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے اور پاکستان کے حکمرانوں کو بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کی بجائے ہندوستان کیوں افغانستان کے قریب آگیا ہے۔
میرے خیال کے مطابق افغانستان کے سفیر نے پاکستان میں رہنے والے ان افراد کو شرم دلائی ہے یا ان کے منہ پر تھپڑ مارا ہے جو ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کی پالیسیوں اور افغان مہاجرین کی حمایت کرتے ہیں اور افغانیوں کو پاکستانی عوام پر ترجیح دیتے ہیں اور افغان سرحد کو پاکستان کے اندر تک بتاتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو سیاست سے علیحدہ کرکے ان لوگوں (سیاستدانوں) کے بارے اپنا رویہ بدلنا ہوگا کہ یہ کھاتے پیتے پاکستان کا ہیں، رہتے موج میلہ پاکستان کے نام پر اور پاکستان اداروں کے خلاف بولتے ہیں۔ جس طرح افغانستان کے حکمران پاکستان کے خلاف ہیں بالکل اسی طرح ہندوستان کے حکمران پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں، گولیاں برساتے ہیں، نوجوانوں کو اپاہج اور معذور کر رہے ہیں ا ور ان کشمیری نوجوان مسلمانوں کو ہندوستان دہشت گرد کہتا ہے اور ان کا تعلق پاکستان سے جوڑتا ہے۔ بھارت ایل او سی پر پاکستانی عوام پر مویشیوں پر فائرنگ کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حکمران کیوں پاکستان کا پانی روک رہے ہیں؟ کیوں جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں؟ حالانکہ عالمی سطح پر پرامن طاقتیں جنگ کے خلاف راہ ہموار کر رہی ہیں، لیکن ہندوستان کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ظاہر کرکے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات لگا رہا ہے۔ ہندوستان کس کی شہ پر پاکستان کی آرمی کے خلاف الزامات لگا رہا ہے۔ پاکستان کی فوج اللہ کے فضل و کرم سے موجودہ حالات میں دنیا کی نمبر ون فوج ہے اور وہ ملک کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی حفاظت پہلے سے بہت بہتر انداز میں کرسکے گی۔ اب کسی سیاسی مصلحت کو سلامتی کے آڑے نہیں آنے دیا جائے گا۔