کیا خیبر پختونخوا میں جیلیں توڑنے کے خدشات حقیقی ہیں؟
خیبر پختونخوا پولیس، محکمہ جیل خانہ جات ٹیکٹا اور حساس اداروں نے صوبے کی جیلوں پر دہشت گرد حملوں اور خطر ناک قیدیوں کی طرف سے جیل توڑنے کے خدشات ظاہر کئے ہیں یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ صوبے کی بعض جیلوں میں قیدیوں کو یرغمال بنا کر مطالبات منوائے جائیں گے جن کا تعلق جیلوں میں خطر ناک قیدیوں کی رہائی سے ہو سکتا ہے محکمہ داخلہ اور جیل خانہ جات کے حکام کے اجلاس میں بتایا گیا کہ جیلوں کو توڑنے کیلئے اندر اور باہر سے خطرات موجود ہیں۔ بعض قیدی گروپ کی شکل میں جیل توڑنے کی کوشش کرسکتے ہیں، تاہم بیرونی مدد سے بھی حملوں کا خدشہ ہے، خودکش حملے بھی خارج از امکان نہیں، جیل کے اندر یا باہر سے بارودی مواد کا استعمال بھی ہوسکتا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی جگہ دہشت گردی کی کوئی واردات ہو جاتی ہے تو یہ اطلاعات منظرِ عام پر آتی ہیں کہ وفاقی حکومت نے قبل از وقت کسی صوبائی حکومت کو خبردار کردیا تھا کہ فلاں علاقے یا فلاں شہر میں دہشت گردی کا امکان ہے، پھر ایک نئی بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا اطلاع دی گئی تھی یا نہیں اور اگر دی گئی تھی تو پھر خطرے کی پیش بندی کیوں نہ کی گئی؟ دہشت گردی کی کسی واردات کے بعد چند دن تک ایسی ناخوشگوار بحث شروع ہو جاتی ہے اور پھر یہ سلسلہ کسی اگلی واردات تک رک جاتا ہے۔ اب صوبہ کے پی کے میں جیلوں پر باہر سے حملوں اور اندر سے بارودی مواد وغیرہ کے استعمال کے بارے میں جس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے اس کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ صوبے کی تمام جیلوں میں حفاظتی انتظامات کا از سر نو جائزہ لیا جائے، جیلوں کے اندر جانچ پڑتال کر کے دیکھا جائے کہ کہیں اسلحہ وغیرہ یا بارودی مواد تو ذخیرہ نہیں کیا جارہا یا قیدی گروہ کوئی جتّھ بندی تو نہیں کررہے بنوں جیل توڑنے کا واقعہ پہلے بھی ہو چکا ہے اسی طرح یہ اطلاعات بھی منظرِ عام پر آتی رہی ہیں کہ دوسری جیلوں میں بھی اسی قسم کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، بنوں جیل کے واقعہ میں بہت سے قیدی رہا کرالئے گئے تھے۔ انہی دنوں میں یہ بات کہی گئی تھی کہ جیل میں حفاظتی انتظامات تسلی بخش نہیں تھے جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں نے واردات کی اور خطرناک قیدیوں کو رہا کر الیا گیا ۔
تازہ اطلاع میں اگرچہ یہ تو نہیں بتایا گیا کہ کس علاقے کی جیل میں ایسی کسی واردات کا امکان ہے تاہم پورے صوبے کی جیلوں کے بارے میں اگر خدشات ظاہر کئے گئے ہیں تو پھر تمام جیلوں کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لے کر انہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی۔ اگر کسی جگہ جیل کے اندر کوئی مشکوک سرگرمی نظر آرہی ہے، تو اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ کس جیل میں زیادہ خطر ناک قیدی ہیں۔ جیلوں میں اگرچہ موبائل فون رکھنے پر پابندی ہے لیکن اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نمبر دار قسم کے قیدی نہ صرف اپنے پاس موبائل رکھتے ہیں بلکہ یہ سہولت منہ مانگی رقم کے عوض دوسرے قیدیوں کو بھی فراہم کرتے ہیں اور یوں باہر کی دنیا سے ان کا باقاعدہ رابطہ ہوتا ہے، جیل توڑنے یا قیدیوں کو رہا کرانے کی کارروائی اس رابطے کے بغیر ممکن نہیں ہواکرتی، اس لئے جیل حکام کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ تمام جیلوں میں موبائل فون رکھنے والوں پر نظر رکھی جائے عموماً ایسی’’ سہولتیں‘‘جیل کے عملے کے ساتھ مل کر حاصل کی جاتی ہیں، قیدی ان سہولتوں کے عوض حق الخدمت ادا کرتے ہیں جو اب میں عملہ ان کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتا ہے، عام طور پر قیدی اپنے لواحقین سے خیرخیریت معلوم کرنے کے لئے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں لیکن وہ خطر ناک قیدی جو دہشت گردی وغیرہ میں ملوث ہوں یا کسی ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہوں تو ان کے موبائل رابطوں کا مقصد کسی نئی منصوبہ بندی میں حصہ لینا ہوتا ہے اور جیلوں کے اندر کوئی کارروائی باہر اور اندر کی مشترکہ کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستان جب سے دہشت گردی کا نشانہ بن رہاہے، 2016ء کا سال ایسا گزرا ہے جب وارداتوں کا سلسلہ کم ہو گیا ہے اگرچہ دہشت گردی کا کلی خاتمہ تو نہیں ہوا لیکن وارداتوں میں کمی سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے بڑی حد تک ان پر قابو پالیا ہے آپریشن ضرب عضب بھی بہت موثر ثابت ہوا ہے اور آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ بھی توڑ دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وارداتیں کرنے والوں کو اب وافر فنڈز دستیاب نہیں، دہشت گردوں کے گروہ میں شامل جو لوگ گرفتار ہو کر جیلوں میں پہنچ گئے ہیں ان کی وجہ سے بھی ان کے نیٹ ورک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں، عین ممکن ہے اسی کا ’’حل ‘‘ انہوں نے یہ تلاش کیا ہو کہ ان کے جو قیدی گرفتار ہیں اور جیلوں میں بند ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح رہا کروایا جائے، اس لئے وہ ایسی کوششوں میں مصروف ہوں اسی بنیاد پر جیلوں پر حملوں کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔
دو سال تک فوجی عدالتیں کام کرتی رہیں اور ان عدالتوں سے سزا پانے والوں میں سے 12کو پھانسی دی جاچکی ہے مجموعی طور پر161افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی جن پر عملدرآمد ابھی باقی ہے، اب فوجی عدالتوں کی جگہ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں، اگر ان عدالتوں سے بھی سزائیں جلد از جلد ملنے کا سلسلہ جاری رہے اور وہاں سے ملنے والے احکامات پر ضابطے کے مطابق عملدرآمد بھی ہوتا رہے تو بھی دہشت گردوں پر خوف کی کیفیت طاری رہ سکتی ہے، اگر سزائیں ملنے میں تاخیر ہو جائے یا یہ سلسلہ کسی نہ کسی وجہ سے رک جائے تو دہشت گرد اس میں اپنے لئے اطمینان کا پہلو تلاش کرتے ہیں اس لئے دہشت گردوں کو یہ سخت پیغام بہر حال دینے کی ضرورت ہے کہ فوجی عدالتیں موجود ہوں یا نہ ہوں، ان کے خلاف سزاؤں اور ان پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رہے گا۔آپریشن ضربِ عضب کے بعد سزائیں دہشت گردوں کو مل رہی تھیں ان سے خوف کی ایک فضا بھی موجود تھی جس سے دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑنے میں مدد ملی اور دہشت گردی کی وارداتیں کم ہوئیں، اگر خوف کی یہ فضا ختم ہو جائے اور دہشت گردوں کو دوبارہ سانس لینے کا موقع مل جائے تو وہ اپنی سازشوں میں پھرسے مصروف ہو جائیں گے، جیلیں توڑنے کی اطلاعات کاجائزہ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر بھی لینے کی ضرورت ہے، کے پی کے کی حکومت اس پر سنجیدہ اقدامات کرے تو خدانخواستہ بعد میں کسی واردات کی صورت میں یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ ہمیں تو کوئی اطلاع ہی نہیں دی گئی تھی۔