الیکشن کے جلد باز
قومی الیکشن کے انعقاد میں ایک سال سے زیادہ وقت باقی ہے۔ اس عرصے میں موجودہ حکومت نے اپنے منشور کے مطابق عوامی خدمت اور ملکی ترقی کے پروگرام مکمل کرنے ہیں ۔گزرے ہوئے تین سال کی کارکردگی کے پیش نظر عوام اور کاروباری طبقہ چاہتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے تاکہ جاری منصو بے ادھورے نہ رہیں ۔ انہیں صحیح معنوں میں ثمر آور بنایا جا سکے، لیکن سیاست دان بہت عجلت میں ہیں ۔انہیں یہ احساس کھائے جا رہا ہے کہ حکومت نے باقی ماندہ مدت میں زیر تکمیل منصوبوں کو مکمل کر لیا تو آئندہ الیکشن میں انہیں، یعنی سیاست دانوں کو عوام کی پذیرائی ملنا مشکل ہو جائے گی ۔
پاکستان کے عوام اور کاروباری طبقے سابقہ حکومت کے کٹھن دور کو دیکھ اور چکھ چکے ہیں، ملک میں بد امنی اور دہشت گردی کا راج تھا ۔مسجدیں، امام بارگاہیں، مدرسے، سکول پولیس اسٹیشن اور پبلک مقامات دہشت گردوں کی دسترس سے دور نہیں تھے۔ خودکش حملوں کی وجہ سے سوسائٹی پر ہمہ وقت خوف کے گہرے بادل چھائے رہتے ۔کراچی میں بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرزنے عوام کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل اور کاروباری طبقے کا ناک میں دم کر رکھا تھا ۔ دکاندار اگر بھتے کی پرچی کے مطابق ادائیگی کا بندوبست نہ کرتا تو اندیشہ رہتا کہ اس کی بوری بند لاش دکان کے سامنے پڑی ہوگی۔ لندن میں بیٹھا را کا چیف ایجنٹ جب چاہتا اپنا رعب جمانے کے لئے اپنے کارندوں کے ذریعے کراچی کی مارکیٹیں بند اور اس کی سڑکوں کو خون میں نہلا دیتا تھا۔ کراچی کے نوجوانوں کو انڈیا بھیج کر ’’را‘‘ سے قتل و غارت گری کی ٹریننگ دلاتا تھا ۔کاروباری ماحول اس قدر زیادہ خراب کہ بہت سے کاروباری افراد بیرون ملک منتقل ہونے لگے تھے۔
کراچی بندرگاہ پر اندرون ملک سے آنے جانے والے سامان کے ٹرک دن دیہاڑے لوٹ لئے جاتے تھے ۔ کوئی داد فریاد سننے والا نہیں تھا ۔بھتہ نہ دینے کی پاداش میں سینکڑوں مزدوروں سمیت پوری فیکٹری کو جلا دیا گیا ۔ عوام اور کاروباری طبقہ حیرا ن و پریشان ہوتا جب خبریں ملتیں کہ حکمران طبقے کے افراد لندن جاتے اور ’’را‘‘ کے چیف ایجنٹ سے ملاقات کرتے تھے ۔ صنعتوں کے لئے ملک میں بجلی ناپید تھی۔ صنعتکار بار بار حکومت کو توجہ دلاتے رہے کہ بجلی کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے لیکن دوبارہ اقتدار کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے والوں نے اس وقت بجلی کے کسی منصوبے پر ایک اینٹ تک نہیں لگائی ۔ اقتدار کے ایوانوں میں کرپشن کے قصے کہانیاں زبان زد عام تھے ۔ بجلی دینے کے لئے رینٹل پاور اسٹیشن منگوائے تو وہ بھی گوڈے گوڈے کرپشن میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ان سے کاروباری طبقے کو بجلی کیا ملنا تھی۔ ذمہ داروں کی جیبیں بھرنے کا انتظام ہوگیا ۔ ایسا بوگس انتظام چلنا کیا تھا کچھ وقت کے لئے ٹمٹما بھی نہ سکا اور سکریپ بن کر فارغ ہو گیا ۔ وہ حکومت قصہ پارینہ بنی اور موجودہ حکومت آئی تو کاروباری طبقے نے سکھ کا سانس لیا ۔میاں محمد نواز شریف اور پنجاب میں میاں محمد شہباز شریف نے اقتدار میں آتے ہی ملک کے حالات بدلنے کے لئے دن رات ایک کر دیا ۔ اب ملک میں کافی حد تک امن ہے ۔دہشت گردوں کا خوف دل و دماغ سے رفو چکر ہو چکا ہے ۔ کراچی کی مارکیٹں اور بازار پوری طرح کھل چکے ہیں ۔بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر پکڑے گئے یا مارے گئے جو بچے وہ دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے ۔ اب کراچی کے گلی کوچوں میں کسی اور کے نہیں پاکستان زندہ باد کے نعر ے لگتے اور گونجتے ہیں۔
موجودہ حکومت کی کاوشوں سے صنعتوں کے لئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ہے ۔ گھریلو صارفین کے لئے صرف دو سے تین گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے ۔حکومت یاکا روباری طبقہ یہ بات نہیں کہہ رہا، بلکہ دنیا کہہ رہی ہے کہ سی پیک پاکستانی معیشت میں انقلاب برپا کرنے جا رہا ہے ۔اسی سوچ کی وجہ سے متعدد ملک خود کو سی پیک سے لنک کرنے کے لئے تیاریاں کر چکے ہیں ۔لاہور پنجاب کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے ۔ کسی وقت ٹریفک کا اژدھام رہتا تھا ۔تھوڑا فاصلہ طے کرنے میں گھنٹوں ضائع ہو جاتے ۔ دن رات کی محنت سے میاں محمد شہباز شریف نے لاہور کو دنیا کے جد ید ترین شہروں کے ہم پلہ پنا دیا ہے ۔شہر کے اوپر ہی اوپر سے بل کھاتے اور گزرتے میٹرو بس ٹریک نے دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔اورنج لائن ٹرین منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ کم وقت میں سستا ترین ذریعہ عوام کو میسر ہوگا ۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ لاہور کے عوام سے ووٹ مانگنے والے سیاست دان دوسرے شہروں کے لوگوں کو طعنے دیتے اور بغاوت پر ابھارتے ہیں کہ میاں محمد شہباز شریف فنڈ لاہور پر خرچ کر رہے ہیں، حالانکہ پورا پنجاب تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔ اس طرح کے بہت سے منصوبے تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں جن سے بعض سیاست دان خوف زدہ ہیں کہ اگر حکومت نے یہ منصوبے مکمل کر لئے تو آئندہ لیکشن میں موجودہ حکمران کامیاب ہو جائیں گے ۔
سیاست دان چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہو، موجودہ حکومت کو منصوبے ادھورے چھوڑنے پرمجبور کر دیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے کبھی الیکشن میں دھاندلی کا شور مچاتے اور دھرنا دیتے ہیں ۔ کبھی ملک کے دارالحکومت کو بند کرنے کے لیے لاکھوں افراد کو دعوت دیتے ہیں، لیکن چند ہزار بھی نہ آسکے ۔ پانامہ پیپر کا واویلا مچا رہے ہیں ۔ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، لیکن صبح دوپہر اور شام اپنی عدالت لگاتے اور نتائج کا اعلان فرماتے ہیں ۔ شک میں ہیں اس لئے جلسے کر ہے ہیں اور بائیکاٹ کی دھمکیاں دیتے ہیں ۔کاروباری طبقہ ان سے درخواست کرتا ہے کہ عدالت کو فیصلہ کرنے دیں اور اسے تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں ۔ جلسے جلوسوں اوردھرنے کی دھمکیوں سے اپنے ووٹ خراب نہ کریں۔ کاروباری طبقہ ملک میں امن چاہتا ہے تاکہ کاروبار کے لئے ماحول سازگار بنے ۔ سرمایہ کاری سامنے آئے ۔ عوام بھی آئے روز کے شور شرابے سے تھک چکے ہیں۔ فارغ سیاست دان اپنے لئے تعمیر ی مصروفیات تلاش کریں ۔الیکشن مہم کے لئے صرف چند ہفتے کافی ہوتے ہیں، جب وقت آئے توعوام کواپنی کارکردگی سے آگاہی کا بندوبست ضرور کریں، فی الحال صبر کریں اور اکھاڑ پچھاڑ سے اجتناب کریں، تاکہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو نقصان نہ پہنچے ۔