افغانستان میں امن۔۔۔ ابھی بہت دور ہے

افغانستان میں امن۔۔۔ ابھی بہت دور ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کے وزیراعظم مودی سے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے تعاون کریں ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خطے کی سلامتی پربھی ضروری فیصلے ہوئے ہیں، دوسری جانب افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات منسوخ کر دیئے ہیں، کیونکہ فریقین میں ایجنڈا کے بہت سے نکات پر اختلاف رائے پیدا ہو گیا تھا یہ مذاکرات بدھ کے روز قطر میں ہونے والے تھے جو یو اے ای میں حال ہی میں ہونے والے مذاکرات کا اگلا مرحلہ تھا، لیکن طالبان نے اس مرحلے پر جنگ بندی سے انکار کر دیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پہلے 25ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے پھر جنگ بندی پر غور ہو گا طالبان اس مرحلے پر افغان حکومت کی مذاکرات میں شرکت پر تیار نظر نہیں آتے وہ پہلے بھی اس سے انکار کر چکے ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ افغان حکومت ’’کٹھ پتلی‘‘ ہے، جبکہ امریکی حکام اصرار کر رہے تھے کہ طالبان کو قطر میں افغان حکام سے ملاقات کرنی چاہیے۔ طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’تکنیکی تفصیلات‘‘ طے کرنے پر کام جاری ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی نمائندے عمر داؤد زئی نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، جس میں انہیں یقین دلایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے ہمیشہ کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کرتا رہے گا، ملاقات میں افغان مفاہمتی عمل سمیت اہم علاقائی اور عالمی امورپر تبادلہ خیال کیا گیا۔ عمر داؤد زئی نے اس رائے کا اظہار کیا کہ افغانستان میں امن کے دیرینہ اور سنگین مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں، دوروں، مذاکرات کے لئے دوڑ بھاگ اور لمحہ بہ لمحہ نئے موڑ مڑتی صورت حال سے اتنا اندازہ تو ضرور ہوتا ہے کہ افغان مسئلے کے حل کی کوششیں جاری ہیں،امریکی صدر بھارت کے وزیراعظم کو فون کررہے ہیں تو افغان حکام بھی اپنے طور پر سرگرم ہیں۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پاکستان کی کوششوں سے بچھ تو گئی ہے لیکن ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے راستے میں کتنے مشکل مقامات آئیں گے کیونکہ افغان طالبان کی گوریلا جنگ کی مہارت تو مسلمہ ہے ہی لیکن مذاکرات کے دوران باریک گتھیوں کو سلجھانے کا ہنر بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں اور مذاکرات کی شطرنج پر بھی اپنے مُہرے بڑی مہارت سے آگے پیچھے کرتے ہیں۔ جدید دنیا کے مذاکرات کاروں کا اگر یہ خیال ہے کہ وہ اپنی انگریزی دانی کے زور پر اس عالمی زبان سے بڑی حد تک بے بلد اور ثقافتی باریکیوں کی پروا نہ کرنے والے طالبان کو اپنی چالوں سے اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور ماضی میں ہونے والے بہت سے مذاکرات اس کی گواہی کے لئے کافی ہیں۔
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ افغانستان سے نکلنا بھی چاہتا ہے، صدر ٹرمپ اپنی نصف فوج وہاں سے نکالنے کا پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں وہ مودی کا یہ کہہ کر مذاق اڑا چکے ہیں کہ انہوں نے جتنے پیسے لگا کر افغانستان میں ایک لائبریری بنائی ہے اتنے پیسے تو امریکہ وہاں پانچ دن میں خرچ کر دیتا ہے۔ وہ غالباً کہنا تو یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ بھارت کو ایک لائبریری بنا کر خواہ مخوا ہ امن کا کریڈٹ نہیں لینا چاہیے لیکن جب سپرپاور کا ایک ہمہ مقتدر سربراہ مودی سے افغانستان میں تعاون طلب کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ نے افغانستان کی اٹھارہ سال کی جنگ سے بھی کچھ نہیں سیکھا،جس ملک میں امریکہ سمیت نیٹو کی افواج اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکیں وہاں مودی کیا تیر مار لے گا۔ اپنی فوج وہاں بھیجنے سے وہ پہلے ہی انکار کر چکا ہے۔ اب معلوم نہیں صدر ٹرمپ بھارت سے کس قسم کا کردار چاہتے ہیں جو وہاں امن قائم کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو۔ اس لئے کہ افغانستان کا مسئلہ ایک الجھی ہوئی گتھی ہے جسے عقل و خرد سے سلجھانا ہو گا جہاں دنیا کی ساری وار مشین ناکام ہو چکی ہے۔ وہاں حکمت ہی کام آئے گی اور حکمت کی بنیادی بات یہ ہے کہ جو ملک مسئلے کے حل کا خواہاں نہیں بلکہ خود مسئلہ ہے اسے کابل میں کوئی کردار نہ سونپا جائے، یہ بات جب تک امریکہ کو سمجھ نہیں آئے گی اس وقت تک امن کی جانب پیشرفت نہیں ہوگی۔
دوسری زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ افغان مسئلہ حل کرنے میں مخلص ہے وہ محض طالبان کو کوئی نیا چکر دینے کے لئے مذاکرات نہیں کر رہا اس لئے غیر حقیقی مطالبات کی بجائے سیدھے سبھاؤ مذاکرات کی گاڑی کو آگے بڑھانا چاہیے۔ طالبان اگرکسی کٹھ پتلی کو نہیں مانتے تو اس مرحلے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور افغان حکومت کے بغیر ہی مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھانا چاہیے۔ کسی ایسے مرحلے پر جب اس ضمن میں کچھ کامیابیاں حاصل ہو جائیں تو افغان حکومت کی بات بھی کر لی جائے اگر ابھی سے یہ پتہ پھینک دیا گیا تو بازی مات ہو جائے گی کیونکہ اگر طالبان نے افغان حکومت کو ماننا ہوتا تو یہ کام اٹھارہ سال پہلے بھی ہو سکتا تھا جس کی کوششیں حامد کرزئی بھی کرتے رہے اور اب صدر اشرف غنی بھی کر رہے ہیں مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لئے اس طرح کی رکاوٹیں امریکہ ہی کو دور کرنا ہوں گی۔
افغان مسئلہ حل کرنے اور وہاں امن کا قیام یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر اپنے اپنے طور پر ایسی مساعی کریں جو نتیجہ خیز ہوں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے امن کے حصول کی منزل دور چلی جائے گی۔ امریکہ لازمی طور پر وہاں سے نکلنے کے لئے فیس سیونگ تو چاہے گا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے چہرے کو روشن رکھنے کے لئے دوسروں کے چہروں کو داغ دار کرنے کی کوشش کی جائے، اگر ایسی کوئی مساعی ہوتی ہے تو عین ممکن ہے مذاکرات کے اس سفر میں مزید رکاوٹیں سامنے آئیں جو منزل کو مزید دور کر دیں جبکہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ امن دور نہیں بلکہ قریب تر آ جائے تاہم اس وقت جو حالات ہیں ان سے تو یہی لگتا ہے کہ امن کی منزل ابھی بہت دور ہے جسے قریب تر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مزید :

رائے -اداریہ -